میری بات سنو

صالحہ خان صوفی
میری عزیز بہنو ! میری ہم عمر ساتھیو ! میری معصوم بیٹیو!
میں آپ سے مخاطب ہوں اور ہمارے اس پوشیدہ درد کا احساس دلانا چاہتی ہوں جس کا علاج ہمارے پاس ہوتے ہوئے بھی وہ لاعلاج ہے ۔ کوئی کسی شدید درد یں مبتلا ہو کر تکلیف سے کراہتا ہے ۔ درد سے بہت بے چین ہو کر تڑپتا ہے ۔ سب اس کی حالت کو دیکھتے ہیں افسوس کا اظہار کرتے ہیں لیکن اس کے درد کی شدت کا اندازہ نہیں لگاسکتے ۔ اس کے کرب کو صرف دیکھتے ہیں لیکن سمجھ نہیں سکتے ۔ حالانکہ اسی قسم کے درد سے خود بھی دوچار ہوچکے ہوتے ہیں پھر بھی اس درد کو اپنے اندر بالکل بھی محسوس نہیں کرسکتے ۔ شدید جسمانی درد میں مبتلا شخص کو دیکھ کر ہمارے اندر کوئی کرب کوئی بے کلی کا شائبہ تک پیدا نہیں ہوتا ۔
میری عزیز بہنو ! ہمارے معتبر مذہبی رہنما ، ہمارے پارسا دانشوران ، ہمارے بڑے بزرگ آج اصلاح معاشرہ کی جد و جہد میں لگے ہوئے ہیں ۔ ہمارے معاشرہ میں ان سب کی پرخلوص کوششیں رائیگاں جارہی ہیں اس میں کامیابی کی ہلکی سی جھلک بھی نظر نہیں آتی ۔ اس کی وجہ کیا ہے ؟ ان سب مرد حضرات کی کوششوں اور جد وجہد میں ہم خواتین رکاوٹ بنی ہوئی ہیں لیکن اس کا احساس ہم کو نہیں ہے اور نہ مصلح جہد کار کا مشاہدہ اس طرف ہے ۔ ہم کو یہ بات تسلیم کرلینی چاہئے کہ معاشرہ میں ہم مرد حضرات کے مقابلہ میں اجارہ دار ہیں اس اجارہ داری میں سوائے ہمارے طبقہ کے کوئی شریک نہیں ۔ جب کوئی بڑی تقریب ہونے کو ہوتی ہے خصوصاً شادی بیاہ کے موقعوں پر ہم ہماری سہیلیاں ،عزیز بہنیں اور بعض معتبر خواتین خصوصاً اپنی برادری کی شان و شوکت ، عز و افتخار کے اظہار کے لئے ایسے ایسے مفید مشورے دیتی ہیں کہ لامحالہ اس تجاویز کو مان لینا پڑتا ہے ۔ بڑی اور چھوٹی تقاریب میں ہم اپنی انا کی حفاظت اور اپنے طبقات میں ناک کی سلامتی کی خاطر اور اپنی ناموری کے لئے ہر وہ کام کر گزرتے ہیں جس سے ہم کو اجتناب کرنا چاہئے ۔ میں فی الوقت ایک ہی تقریب کا احاطہ کرتی ہوں وہ ہے شاہِ تقاریب ’’شادی‘‘ ۔ اب شادیوں کا موسم شروع ہورہا ہے ۔ میرے تجربات کو مدنظر رکھتے ہوئے اس تقریب میں ہورہی خرافات سے اجتناب کریں ۔ اس سے دنیا اور آخرت میں فائدہ ہم کو ہی ہوگا ۔
اگر ہم متحد ہو کر خرافات کا بائیکاٹ کرتے ہیں تو ایک اچھے معاشرے کے ہم ہی تشکیل کار ہوسکتے ہیں ۔ وہ وجوہات جس سے ہم تباہ ہورہے ہیں وہ ہے اپنے گھر کے بڑے حضرات کی بات نہیں ماننا ۔ اس کو حکم عدولی نہیں کہوں گی بلکہ یہ ضد ہے ۔ اگر وہ کہتے ہیں کہ شادی سادگی سے ہو تو ہم ضد کرنے لگتے ہیں کہ نہیں شادی بار بار نہیں ہوتی ، لوگوں کو معلوم ہونا چاہئے کہ ہمارے گھر شادی ہے ، باجا ضرور رکھیں گے ۔ ہم اپنی خوشی کی خاطر آس پاس کے لوگوں کو کبیدہ خاطر کردیتے ہیں ۔ لوگوں کے آرام کے وقت باجا بجواتے ہیں ، میں اس کو باجا نہیں بلکہ دھپڑا کہوں گی کیوں کہ یہ کوئی منجھے ہوئے موسیقار نہیں ہوتے بلکہ مختلف کام کرنے والے لوگ ہوتے ہیں ۔ تحقیق سے معلوم ہوا کہ ہر شخص کو گھنٹے کے حساب سے پیسہ دے کر ان کے ہاتھ لکڑیاں (ڈرم اسٹیک) دے دی جاتی ہیں اور کہا جاتا ہے کہ جتنی زور سے پیٹ سکتے ہو پیٹتے رہو ۔ ان پر دلہے کے بے راہ رو دوست اور احباب نوٹوں کی گڈیاں لٹا کر دوست سے اپنی اٹوٹ دوستی کا ثبوت دیتے ہیں ۔ اس پٹے ہوئے جملے سے گریز کرتے ہوئے کہ اتنے پیسوں میں کسی غریب کی شادی ہوسکتی ہے اگر کہہ دیں کہ شادی میں باجا نہیں ہوگا تو کسی شوہر یا بیٹے کی مجال نہیں کہ وہ باجا رکھے ۔ دوسری بات جو میں کہنے جارہی ہوں وہ نہایت ہی تکلیف دہ امر ہے ۔ ہم شادیوں میں جوڑے کے جو کپڑے لے کر جاتے ہیں وہ بہت قیمتی ہوتے ہیں ۔ جلوے کا جوڑا لاکھوں کا ہوتا ہے ۔ کم سے کم پچاس ہزار کا ۔ ایک ساڑی کی قیمت کم سے کم سات ہزار سے لے کر بیس ہزار تک ہوتی ہے ۔ یہ جلوے کا جوڑا صرف گھڑی بھر کے لئے نکاح کی رات تک کا سرپوش ہے (یہ سر پر ڈالا جاتا ہے) اور باقی کی قیمتی ساڑیوں میں سے دو ایک ہی دلہن پہنتی ہے اس کے بعدیہ الماری کی نذر ہوجاتی ہیں ۔ یہ کسی مصرف کی نہیں یہ اتنی بھاری بھرکم ہوتی ہیں کہ دلہن کو اپنا وزن سنبھالنے میں بڑی دقت اور خفت کا کرنا کرنا پڑتا ہے کیونکہ دلہن جب اس کا وزن سنبھالنے کی کوشش کرتی ہے ، گرنے کے ڈر سے لڑکھڑا جاتی ہے ۔ ایسی ساڑیاں کم از کم 7 ، 9 ، 11 ہوتی ہیں ۔  میں نے اپنی بہن سے اس موضوع پر بات کی تو انہوں نے کہا کہ ’’نکاح کے بعد یہ کسی کام کی نہیں ۔ دس ہزار کی ساڑی کوئی ایک ہزار میں بھی لینے تیار نہیں ہوتا ۔ شادیوں کے لئے سکنڈ ہینڈ ملبوسات لینا بھی بدشگونی کی علامت ہے ۔ غریب بھی لینے میں ہچکچاہٹ محسوس کرتے ہیں ۔ اس سے بہت بہتر طریقہ یہ ہے کہ اتنے ہی پیسوں کا سونا لے لینا چاہئے‘‘ ۔ میں نے کہا ’’تو آپ نے یہی کیا ہوگا‘‘ کہنے لگیں ’’نہیں دو سال ہوگئے شادی ہو کر تین ساڑیوں کے علاوہ باقی سب کی پیکنگ بھی نہیں کھلی‘‘ ۔ میں یہ نہیں کہتی کہ شادی میں خرچ مت کیجئے ، اللہ نے دیا ہے تو خرچ ضرور کیجئے لیکن باجے اور قیمتی ساڑیوں ، قیمتی جلوے کے جوڑے پر خرچ کرنے سے بہتر یہ ہے کہ اس رقم کا سونا لے لیجئے ۔ یہ واپسی پر زیادہ سے فائدہ دے گا ۔ ایسے وقتوں پر اللہ کی راہ میں خرچ کرنے کے بارے میں کہتے ضرور ہیں لیکن عین عمل کے وقت انجان بن جاتے ہیں ۔ اب رہا شادی خانوں کا یہ تو لازم ہوچکے ہیں ۔ قوالی ، غزلیات کے پروگرام مت رکھئے ۔ میں یہ نہیں کہوں گی کہ سانچق ، پاؤں میز کا رسم اور ہلدی مہندی جیسی رسوم یکلخت ختم کردیجئے ، اس سے خرافات نکال دیجئے ۔ یہاں کفایت سے کام لیجئے ۔ یاد رکھئے جو رسم ، عادت اور بدعت کو چھوڑے گا وہی زندگی میں کامیاب رہے گا ۔ شادی میں باجا اور قیمتی ساڑیوں اور جلوے کے جوڑوں کی رقم میں سونا خرید لیجئے۔ یہ مستقبل میں طمانیت کا باعث ہوگا ۔ میری اس اپیل کو پڑھ کر یہ کہہ کر ’’واہ کیا صحیح کہا ،کیا پتے کی بات کہی‘‘ چند روز بعد اس کو بھول مت جایئے ۔