’’میرحیات اور شاعری‘‘

ڈاکٹر سرورالہدیٰ
جامعہ ملیہ اسلامیہ، نئی دہلی
خواجہ احمد فاروقی کی تحقیقی اور تنقیدی کاوشوں میں ایک اہم کاوش میر حیات اور شاعری ہے۔ یہ کتاب پہلی مرتبہ ۱۹۵۴ میں شائع ہوئی تھی۔ اس کتاب پر میرا ایک تفصیلی مضمون اردو ادب میں شائع ہوچکا ہے۔ اول تو میر حیات اور شاعری کا پہلا ایڈیشن مشکل سے ملتا ہے، انجمن ترقی اردو ہند کی لائبریری میں اس کی ایک کاپی محفوظ ہے۔ پوری اردو دنیا کے لیے یہ خبر مسرت کا باعث ہے کہ انجمن ترقی اردو ہند نے خواجہ احمد فاروقی کی کتاب میر حیات اور شاعری کو شائع کردیا ہے۔ ایک طویل عرصے سے کتاب کی نئی اشاعت کا لوگوں کو انتظار تھا۔ حرف آغاز میں انجمن ترقی اردو ہند کے جنرل سکریٹری ڈاکٹر اطہر فاروقی لکھتے ہیں:

’’خداے سخن میر تقی میر پر خواجہ صاحب کے اس عظیم الشان کام کی زبردست پذیرائی ہوئی اس کے بعد اس کی اشاعت با وجوہ مسدود ہوگئی۔ چوں کہ یہ کتاب نایاب ہوچکی تھی اور علمی حلقوں میں اس کی ضرورت شدت سے محسوس کی جارہی تھی اس لیے اب تقریباً ساٹھ سال کے بعد انجمن اپنے زیر اہتمام اسے شائع کررہی ہے۔‘‘
اقتباس کا یہ جملہ توجہ طلب ہے کہ اس کی اشاعت با وجوہ مسدود رہی۔ اس کی تفصیل میں جانے کا مطلب کتاب کے تحقیقی اور تنقیدی معاملات سے روبرو ہونا ہے اور ساتھ ہی قاضی عبدالودود کے تفصیلی اور مدلل تبصرے سے رجوع کرنا بھی ہے۔ میں نے اپنے مضمون میں قاضی عبدالودود کے کچھ اعتراضات سے بحث کی ہے، اس میں شک نہیں کہ قاضی صاحب کے اعتراضات کی ٹھوس بنیادیں ہیں اور ان بنیادوں کو معتبر دلائل کے بغیر رد نہیں کیا جاسکتا۔ اس سلسلے میں بعض کوششیں بھی ہوئیں لیکن قاضی عبدالودود کے تبصرے کا سایہ اس کتاب کے ساتھ ہمیشہ لگا رہا۔ اب جب کہ اس کی نئی اشاعت عمل میں آگئی ہے ہم پر لازم ہے کہ کتاب کا بالاستعیاب مطالعہ کیا جائے اور قاضی عبدالودود کے اعتراضات کی بنیادوں کی بھی چھان پھٹک کی جائے۔

قاضی عبدالودود کے تفصیلی تبصرے کو بھی نئے سرے سے شائع کرنے کی ضرورت ہے تا کہ بہتر طور پر ان کے اعتراضات کی قرات ہوسکے۔ جس خط میں ان کا تبصرہ شائع ہوا ہے اسے پڑھنا بھی ایک مشکل مرحلہ ہے۔ خوشی کی بات یہ ہے کہ خدا بخش نے میر پر قاضی صاحب کے تمام مضامین کو’ میر‘ کے نام سے شائع کردیا ہے۔ علمی اور تحقیقی معاملات میں اختلاف کا مطلب دراصل خود کو تازہ دم رکھنا ہے۔ اب اس قسم کے تبصرے بھی کہاں شائع ہوتے ہیں جن سے یہ پتہ چلے کہ قاری نے کتاب کو توجہ سے پڑھا ہے۔ پچھلے دنوں مجھے خواجہ احمد فاروقی کے کچھ خطوط ملے جو قاضی عبدالودود کے نام ہیں۔ اس عنایت کے لیے میں مختارالدین احمد آرزو کے فرزند طارق مختار کا ممنون ہوں کہ انھوں نے میرے ریسرچ اسکالر محضر رضا کی معرفت اس کے عکس عنایت کیے۔ ان خطوط میں خواجہ صاحب نے میر سے متعلق قاضی صاحب سے استفسارات کیے ہیں۔ انھیں پڑھ کر کوئی بھی سنجیدہ قاری یہ اندازہ کر سکتا ہے کہ خواجہ صاحب میر سے متعلق حقائق کو یکجا کرنے اور ان کی تعبیر و تشریح میں کس قدر حساس تھے۔

یہ بات حیرت میں ڈالتی ہے کہ مصنف جس شخص سے حقائق دریافت کررہا ہے وہی شخص اس کی کاوش کے بڑے حصے کو بعض کوتاہیوں کے سبب رد کردیتا ہے۔ یہ پورا عمل ایک علمی سرگرمی کا حصہ ہے، کسی اور موقع پر میں ان خطوط کی روشنی میں چند حقائق پیش کرنے کی کوشش کروں گا۔ میر حیات اور شاعری کے عنوانات پر نظر ڈالی جائے تو اندازہ ہوگا کہ خواجہ صاحب نے میر سے متعلق کتنا بڑا منصوبہ بنایا تھا۔ اس وقت تک میر پر ایسی کوئی جامع کتاب شائع نہیں ہوئی تھی۔ قاضی عبدالودود کے تبصرے کا بڑا حصہ ان کوتاہیوں کی نشاندہی پر ہے جن کا تعلق شخص، تاریخ، مقام اور تصنیف سے ہے۔ انھوں نے کہیں کہیں قیاس کی بنیاد پر بھی خواجہ صاحب کی گرفت کی ہے۔ خواجہ احمد فاروقی کی نگاہ میں جو مواد تھا اس کی پیش کش میں اگر عجلت پسندی نظر آتی ہے تو اسے مصنف کی داخلی سرشاری کا نام دینا چاہیے۔ حقائق کو یکجا کرنے اور انھیں پیش کرنے کی سرشاری نے غالباً اس بات کا موقع کم دیا کہ وہ انھیں ایک مرتبہ شک کی نگاہ سے بھی دیکھیں اور اگر کوئی بات غیر فطری معلوم ہو تو اس کی جانب بھی اشارہ کردیں۔ گو کہ یہ کام خواجہ صاحب نے اس کتاب میں کئی مقامات پر کیا ہے لیکن مجموعی طور پر ایک سرشاری ہے جو پہلے مرحلے میں ہر محقق کا مقدر ہوتی ہے۔ بعد کے دنوں میں میر تنقید کے جو نمونے سامنے آئے ان کی اولین صورت میر حیات اور شاعری میں دیکھی جاسکتی ہے۔ کئی نقاد نے میر حیات اور شاعری کو میر کی شاعری کا مطالعہ کہنے کے بجاے حیات میر اور عہد میر کا مطالعہ بتایا ہے۔ اس میں شک نہیں کہ خواجہ احمد فاروقی نے میر کی شاعری کو میر کی زندگی اور عہد کی روشنی میں دیکھا لیکن اس سے یہ کہاں ثابت ہوتا ہے کہ یہ مطالعہ ادبی مطالعہ نہیں ہے۔ چند مثالوں کی روشنی میں پوری کتاب کو رد کردینا ایک دوسری انتہا ہے اور اس انتہا کا ثبوت بعد کے بیشتر میر کے نقادوں نے پیش کیا ہے۔خواجہ احمد فاروقی کا ایک اقتباس ملاحظہ کیجیے:’’میر کے برجستہ محاورے سوئے ہوئے استعارے ہیں اور ان کے پیچھے تاریخی اور تمدنی لوازمات چھپے ہوئے ہیں ان سے رمزی کیفیت کو وسعت حاصل ہوتی ہے اور شعر کی بے تکلفی اور طلسمی تاثیر میں اضافہ ہوتا ہے۔ ‘‘ (ص: ۳۱۱)

اس طرح کے جملے کتاب میں بہت آسانی کے ساتھ تلاش کیے جاسکتے ہیں جن سے اندازہ ہوتا ہے کہ مصنف ادب کو ایک بڑے کینوس میں دیکھنا چاہتا ہے اور لفظ اس کے نزدیک سماجی اور تہذیبی زندگی کا مظہر ہے۔ جن ناقدین نے میر حیات اور شاعری کو ادبی نقطۂ نظر سے رد کرنے کی کوشش کی وہ بنیادی طور پر ایک وقتی رویہ تھا جسے ہئیت کے ایک رخا تصور نے پیدا کیا اب وہی لوگ رفتہ رفتہ اس رویے کی طرف آرہے ہیں جسے نو تاریخیت کا نام دیا گیا ہے۔ خواجہ احمد فاروقی نے ممکنہ تمام پہلوئوں کو میر حیات اور شاعری میں سمیٹنے کی کوشش کی ہے۔ اس کوشش کو وہی لوگ صرف تاریخی کوشش کا نام دے سکتے ہیں جن کی نگاہ میں بعد کی میر تنقید نہیں ہے۔ ایک قاری کی حیثیت سے اس کتاب کا مطالعہ کرنے کے بعد میں اسی نتیجے پر پہنچا ہوں کہ کچھ باتیں قاضی عبدالودود کے تعلق سے اس قدر پھیلائی گئیں کہ بعض سنجیدہ حضرات کی نگاہ سے بھی کتاب اوجھل ہوتی گئی۔ اب جب کہ کتاب کا نیا ایڈیشن آگیا ہے امید کی جانی چاہیے کہ نئے سرے سے یہ کتاب مطالعۂ میر کا حصہ بنے گی۔ اچھی کتاب کی عمر یقینا مصنف سے بڑی ہوتی ہے اور اس طرح مصنف کو بھی زندگی ملتی رہتی ہے۔