میرا کالم مجتبیٰ حسین

طالب خوندمیری

طنز و مزاح کے منفرد لب و لہجہ اور اچھوتے اسلوب کے ممتاز شاعر طالب خوندمیری پچھلے ہفتہ کوئی سن گن دیئے بغیر اپنے محبوب شہر حیدرآباد سے چار سوکلو میٹر دور پونے میں اچانک اس دنیاسے رخصت ہوگئے اور حیدرآباد اور زندہ دلان حیدرآباد کی محفلوں کی اُن رونقوں کو بھی اپنے ساتھ لے گئے جو ان ہی سے عبارت تھیں ۔ طالب خوند میری نہایت منظم‘ مستعد اور مربوط انسان تھے۔ جو بھی کام کرتے تھے اس میں ان کی مخصوص سلیقہ مندی اور نفاست طبع کی جھلک صاف دکھائی دیتی تھی ۔ ان کی شاعری اور ان کی عملی زندگی دونوں ہی ان کے اعلیٰ ذوق‘ شائستگی اور سلیقہ مندی کی غماز رہیں ۔ کبھی سوچا نہ تھا کہ وہ اس طرح اپنے رشتہ داروں اور چاہنے والوں کو دفعتاً چھوڑ کر چلے جائیں گے کہ انہیں مزاج پرسی کا موقع تک نہ دیں گے اور احباب کا بولا چالا تک معاف کئے بغیر ہی چلے جائیں گے ۔ اتنے لمبے سفر پر بھلا کوئی اس طرح جاتا ہے ۔ بھیا ! اتنا تو کرتے کہ اگر دنیا والوں نے تمہارے خلاف کبھی کچھ بولا چالا بھی ہوگا تو کم از کم اسے تو معاف کر کے چلے جاتے ۔ تمہاری شاعری میں طنز کے جوتیکھے نشتر ہوا کرتے ہیں وہ اہل ادب کو بخوبی یاد ہیں لیکن جاتے جاتے تم نے اپنی خاموش رخصت کے ذریعہ جو نشتر لگایاہے وہ کبھی بھلایا نہ جاسکے گا ۔

یہ بھی ایک سنگین اتفاق ہے کہ ڈھائی تین مہینے پہلے میاں مسعود عابد کے گزر جانے کے بعد سے ہمیں پے بہ پے اپنے سے کم عمر دوستوں کی رحلت کے صدموں سے لگاتار گزرنا پڑرہا ہے ۔ کس کس کا ذکر کریں اور کتنا ماتم کریں ۔ جو لوگ طنز و مزاح کے اسرار و رموز سے واقف ہیں وہ بخوبی جانتے ہیں کہ سچا مزاح نگار بنیادی طور پر نہایت غمگین آدمی ہوتاہے ۔ اتفاق سے ہمارے سامنے اس وقت لاہور سے نکلنے والے ماہنامہ ’’ تخلیق ‘‘ کا تازہ شمارہ ہے جس کے مدیر ہمارے دوست اظہر جاوید نے اپنے اداریہ میں ایک درد ناک واقعہ کا ذکر کیا ہے جسے آپ ان ہی کی زبانی ملاحظہ فرمائیں ۔
’’ برصغیر کے عظیم مزاحیہ اداکار گوپؔ نجی زندگی میں بھی شگوفے چھوڑتے رہتے تھے ۔ کسی فلم کی شوٹنگ تھی ‘ گوپ بروقت پہنچے ۔ نہ چہرے پر مسکراہٹ نہ کسی سے دل لگی۔ گپ چپ سے تھے ۔ ساتھی اداکاروں ‘ فلم ساز ‘ ہدایت کار سب نے بہت پوچھا ۔ گوپ کھلے نہیں ۔ شوٹنگ شروع ہوئی ۔ گوپ ٹھیک طرح سے ادائیگی نہ کرسکے ۔اتنا بڑا فنکار اور ری ٹیک۔ تصور کرنا بھی محال تھا ۔ ایک بار ‘ دو بار جب تیسری بار ایسا ہوا تو ہدایت کار شوٹنگ چھوڑ کر گوپ کے پاس آیا ۔ پوچھا ’’ کیا بات ہے ‘‘ ؟ ۔ اس پر گوپ کے ضبط کا بند ٹوٹ گیا ‘ ہچکیاں لے کر رونے لگا ۔ کہا ’’ میری ماں کا انتقال ہوگیا ہے‘ میّت گھر پر پڑی ہے ۔ میں نے سوچا آپ کا لگا ہوا سیٹ بے کار نہ جائے ۔ میری وجہ سے آپ کو ‘ فلم ساز اور باقی ساتھیوں کو پریشانی نہ ہو ‘‘ ۔ اس عجیب درد ناک واقعہ کے بعد شوٹنگ کہاں ہونی تھی مگر گوپ نے انسانی زندگی کی عظیم اور ناقابل فراموش تاریخ رقم کردی ۔ تاجور نجیب آبادی نے کیا خوب کہا ہے ۔
سبب ہر ایک مجھ سے پوچھتا ہے میرے رونے کا
الٰہی‘ ساری دنیا کو میں کیسے رازداںکرلوں
ہمارے لئے طالب خوند میری کی رحلت کا زخم بھی کچھ اسی طرح کا زخم ہے جو آسانی سے مندمل نہ ہوگا ۔ 11جنوری کو سہ پہر میں طالب خوند میری کا فون آیاتھا (ان سے ہماری یہی آخری بات چیت تھی) کہنے لگے ’’گوپی چند نارنگ کی دستاویزی فلم کی نمائش جو کل ہونے والی ہے ‘ اس کا دعوت نامہ میرے پاس نہیں آیا ۔ کیا یہ ممکن ہے کہ آپ اس تقریب کے دو تین دعوت نامے مجھے بھجواسکیں ‘‘ ۔ ہم نے ہنس کر کہا ’’ طالب میاں ! آپ کی شخصیت خود سب سے بڑا دعوت نامہ ہے ۔ تاہم میرے پاس کچھ فاضل دعوت نامے ہیں ۔ تمہارے اطمینان قلب کیلئے بھجوا دوں گا ‘‘ ۔ دوسرے دن وہ محفل میں آئے ۔ دور ہی سے علیک سلیک ہوئی مگر بات نہ ہوسکی ۔ 16جنوری کو سہ پہر میں جب یہ اطلاع آئی کہ کچھ دیر پہلے پونے میں ان کا انتقال ہوگیا تو کسی طرح یقین نہ آتا تھا کہ وہ ہمیں یوں چھوڑ کر چلے گئے ۔ طالب ؔسے چالیس برس پرانے مراسم تھے ۔ پاکستان اور ہندوستان کے بیسیوںشہروں کی محفلوں میں ان کا ساتھ رہا ۔ کئی بار ہم لوگ خلیجی ممالک بھی گئے اور لمبے عرصے تک ایک ہی چھت کے نیچے سفر اور حضر کی سہولتوں سے بھی مستفیض ہونے کا موقع ملا ۔ طالب کو ہر رنگ میں دیکھا مگر انہیں کبھی رنگ میں بھنگ ڈالتے ہوئے نہیں دیکھا ۔ یہ بات ان کی گہری شائستگی اور ان کے روشن تہذیبی شعور کی دلیل تھی ۔ وہ ایک سچے حیدرآبادی اور اچھے زندہ دل تھے ۔ چنانچہ حیدرآباد اور زندہ دلان حیدرآباد دونوں کے ناموں کو انہوں نے ساری دنیا میں روشن کیا ۔ ہم تو صرف سات برسوں تک زندہ دلان حیدرآباد کے جنرل سکریٹری رہے اور وہ لگاتار بیس برسوں تک زندہ دلان حیدرآباد کے جنرل سکریٹری بنے رہے ۔ نریندر لوتھر کی سرپرستی میں زندہ دلان حیدرآباد کے زیراہتمام 1985ء میں جب ہندوستان میں طنز و مزاح کی پہلی عالمی کانفرنس منعقد ہوئی تو وہ اس تاریخ ساز کانفرنس کے بھی جنرل سکریٹری رہے ۔ اردو کی نئی بستیوں میں جگہ جگہ طالب خوند میری کی شاعری کے چرچے تھے ‘ جہاں وہ اکثر جایا کرتے تھے ۔ وہ اکثر اپنے بچوں کے پاس بھی امریکہ جایا کرتے تھے اور بسا اوقات اتنی دور سے بھی فون کر کے ہمیں اپنے تازہ کلام سے نوازتے رہتے تھے ۔ طالب خوند میری کا کمال یہ تھا کہ وہ ہمیشہ نئے نئے موضوعات پر نظمیں لکھا کرتے تھے اوراگر موضوع معمولی بھی ہوتا تو ان کے کلام میں پہنچ کر خودبخود غیر معمولی بن جاتا تھا ۔ شاعری میں ان کا فنکارانہ اظہار نہایت توانا ‘ مستحکم اور پُراثر ہوا کرتا تھا ۔ بیس برس پہلے ہم نے طالب خوند میری کی شخصیت اور فن کے بارے میں ایک تحریر لکھی تھی جس کے اقتباسات ذیل میں پیش کر کے ہم اپنی بات کو ختم کرنا چاہیں گے ۔

’’ طالب خوند میری کو میں جب جب دیکھتا ہوں تو حیرت میں مبتلا ہوکر سوچنے لگتا ہوں کہ ایسے شائستہ ‘ مہذب ‘ خوش اخلاق ‘ خوش اطوار ‘ خوش گفتار ‘ خوش شکل ‘ خوش عقل ‘ خوش پوشاک اور خوش خصائل انسان کو بیٹھے بٹھائے شاعر بن جانے اور وہ بھی طنزیہ شاعر بن جانے کی کیا سوچھی۔ جس شخص کو اصلاً کسی حسین وجمیل دوشیزہ کے ساتھ سنیما کے اسکرین پر دکھائی دینا چاہیئے تھا وہ اب بے ڈھب ‘ بے ڈھنگ ‘ بدشکل اور بدہیئت شاعروں کی سنگت میں بیٹھا مشاعروں میں لہک لہک کر کلام سناتا ہوا نظر آتا ہے اور دلچسپ بات یہ ہے کہ بے پناہ داد بھی وصول کرتا ہے ۔ مانتا ہوں کہ شاعری کا شکل و صورت اور شاعر کے حلیہ سے کوئی تعلق نہیں ہوتا لیکن اسے کیا کیجئے کہ ہمارے ہاں بدشکل اور بد ہیئت شاعروں کی بہتات ہے ۔حالانکہ اچھی شکلوں کے بیان اور ذکر سے ہماری شاعری بھری پڑی ہے ۔ تاہم ان موہنی شکلوں کو شاعری میں ڈھالنے والا عموماً ایسی ویسی شکل کا ہی ہوتا ہے ۔ طالب خوند میری جیسی شکلیں اور شخصیتیںہمارے شاعروں میں استثنائی حیثیت رکھتی ہیں ۔
طالب خوند میری عملی زندگی میں نہایت سنجیدہ ‘ بردبار ‘ متین اور گمبھیر آدمی ہیں ۔ آپ انہیں جدھر سے چاہیں اُلٹ پلٹ کر دیکھ لیں ۔ یہ کسی زاویہ سے شاعر نظر نہیں آئیں گے ۔ پیشہ کے اعتبار سے آرکٹیکٹ ہیں ۔ گویا طرز تعمیر ‘ آرائش ‘ سلیقہ ‘ تزئین اور نفاست یہ وہ بنیادی عناصر ہیں جن کی اہمیت ان کی زندگی میں کلیدی حیثیت رکھتی ہے ۔ دیگر آرکٹیکٹس کے بارے میں تو میں کچھ زیادہ نہیں جانتا لیکن یہ بات پورے وثوق کے ساتھ کہہ سکتا ہوں کہ طالب خوند میری نے عمارتوں کو ایک طرز تعمیر عطا کرنے سے پہلے اپنی ذات اور شخصیت کی تعمیر کچھ اس ڈھنگ اور سلیقہ سے کی ہے کہ اب ان کی ذات خود طرز تعمیر کا ایک نادر نمونہ بن گئی ہے ۔ ایک انسان کسی خوبصورت عمارت کی طرح نظر آنے لگے تو یہ بھی ایک انوکھی بات ہے ۔
طنزیہ شاعر اور وہ بھی بہترین طنزیہ شاعر کی حیثیت سے طالب خوند میری نہ صرف سارے برصغیر میں بلکہ بیرونی ممالک میں بھی جہاں جہاں اردو بولی جاتی ہے ‘ غیر معمولی شہرت رکھتے ہیں ۔ مگر آپ میری رائے جاننا چاہیں تو یہ عرض کروں گا کہ میں تو انہیں ایک نہایت سنجیدہ شاعر سمجھتا ہوں ۔ طنز کی وہ سطح نہایت اعلیٰ و ارفع ہوتی ہے جہاں سنجیدگی اور شگفتگی دونوں آپس میں کچھ اسطرح گھل مل جاتی ہیں کہ آدمی روتے روتے ہنسنے اور ہنستے ہنستے رونے پر مجبور سا ہوجاتا ہے ۔ اس کی سمجھ میں یہ نہیں آتا کہ وہ ہنستے ہنستے اچانک کچھ سوچنے اور سوچتے سوچتے اچانک ہنسنے کیوں لگ جاتا ہے ۔ طالب خوند میری نے اپنی طنزیہ شاعری میں اس منزل کا سراغ پالیا ہے ( یہ سراغ بہت کم کے حصہ میںآتا ہے ) ۔ میرے ساتھ اکثر ایسا ہوا ہے کہ مشاعروں میں طالب کے کلام پر لوگ جب بے پناہ داددے رہے ہوتے ہیں تو میں چپ سادھے بیٹھا رہتا ہوں ۔ اس لئے کہ اکثر لوگوں کو طالبؔ کا ہمکتا‘ کھنکتااور مچلتا ہوا دل تو دکھائی دیتا ہے لیکن ان کی نظر طالبؔ کے لہولہان کلیجہ کی طرف نہیں جاتی ۔ طالب جس سطح پر جاکر طنزیہ شعر کہتے ہیں اس شعر کو اس کے اصلی سیاق و سباق کے ساتھ صحیح طور پر محسوس کرنے کیلئے کم از کم سامع کو بھی طالب ؔکی سطح تک جانے کی سعی کرنا چاہیئے ۔ تبھی طالبؔ کی شاعری کے اسرار و رموز آپ پر کُھلنے لگتے ہیں ۔
طالب نے ہمارے کلاسیکی ادب کا گہرا مطالعہ کیا ہے ۔ زبان کی نزاکتوں ‘ لطافتوں اور باریکیوں سے وہ خوب واقف ہیں ۔ وہ جانتے ہیں کہ کسی لفظ کو کیسے چمکایا جائے اور کسی لفظ کے معنی کو وسعت کیسے عطا کی جائے ۔ میری شخصی رائے یہ ہے کہ طنزیہ و مزاحیہ شاعری میںاکبر الٰہ آبادی کی جگہ آج بھی خالی ہے ۔ ہمارے ادب کا غالباً یہ واحد خلاء ہے جو اب تک پُر نہیں ہوسکا ہے ۔ ویسے تو برصغیر میں مزاحیہ اور طنزیہ شاعروں کی کمی نہیں ہے ۔ ایک ڈھونڈو ہزار ملتے ہیں والا معاملہ ہے لیکن وہ جو ایک کسوٹی ہوتی ہے ادب اور آرٹ کی ‘ اس پر ان کو پرکھا جائے تو بہت کم شاعر کھرے اُتریں گے ۔ بعض تو ایسے شاعر بھی ملیں گے جنہیں اگر خدانخواستہ کسوٹی پر گھسا جائے تو سالم کے سالم شاعر اپنی شاعری سمیت گھس گھسا کر معدوم ہوجائیں گے اور بیچاری کسوٹی باقی رہ جائے گی ۔ میں طالبؔ خوند میری کو ادب کی کسوٹی پر پورا اترنے والے اس دور کے دو تین شاعروں میں شمار کرتا ہوں اور اسی لئے ان کی عزت بھی کرتا ہوں ۔ حالانکہ وہ عمر میں مجھ سے چھوٹے ہیں ۔ تاہم عزت کا عمر سے کیا تعلق ؟۔ اپنا تو یہ حال رہا کہ کہیں بھی کوئی قابل احترام شئے نظر آگئی تو اپنا سرجھکادیا ۔ طالب کی غزل ہو یا نظم اس کا ہر شعر کچھ اسطرح ایک دوسرے سے مربوط و منسلک ہوتا ہے جیسے کسی خوبصورت عمارت میں اس کے در و دیوار ‘ اس کے نقش و نگار ‘ اس کی کھڑکیاں اور روشن دان ایک دوسرے سے جڑے ہوتے ہیں ۔ یہ سب مل کر ایک عمارت کی تشکیل کرتے ہیں ۔ اکیلی کھڑکی یا اکیلے دروازہ کی عمارت سے ہٹ کر اپنی کوئی انفرادیت نہیں ہوتی ۔ گویا طالب نظم نہیںکہتے شاعری کا ایک خوبصورت محل تعمیر کردیتے ہیں ۔ اپنی شاعری میں انہوں نے یہ روش اپنے پیشے سے اپنائی ہے ۔
طالب کی ایک اور خوبی یہ ہے کہ وہ پیروڈی کہنے میں بے پناہ مہارت رکھتے ہیں ۔ پیروڈی نہایت مشکل فن ہے اور اس کیلئے ایک ایسی ذہانت درکار ہوتی ہے جو تقابلی جائزہ کی بھرپور صلاحیت رکھتی ہو ۔ طالب کی پیروڈیاں ہمارے ادب کی نہایت کامیاب پیروڈیاں ہیں ۔ طالب کی بے شمار خوبیاں اب مجھے یاد آرہی ہیں ۔ اچھا دوست ‘ اچھا آرکٹیکٹ ‘ اچھا منتظم اور ان سب سے بڑھ کر ایک اچھا انسان۔ آج کے دور میں انسان تو بہت ملتے ہیں لیکن ایسا انسان جو اچھا بھی ہو ‘ کہاں ملتا ہے ‘‘ افسوس کہ ایسا انسان اب ہمارے درمیان نہیں رہا ۔
مدتوں رویا کریں گے جام و پیمانہ تجھے
( 23جنوری (1911