میاں پور اراضی معاملہ کے طرز پر اوقافی اراضیات کے تحفظ پر چیف منسٹر کی توجہ کی ضرورت

35 ہزار اراضیات پر ناجائز قبضہ جات ، اندرون و بیرون اسمبلی چندر شیکھر راؤ کے متعدد اعلانات
حیدرآباد۔یکم جون (سیاست نیوز) حکومت نے میاں پور میں 796 ایکڑ سرکاری اراضیات کا خانگی کمپنیوں کے حق میں رجسٹریشن کیئے جانے کے اسکام کی سی ڈی سی آئی ڈی تحقیقات کا اعلان کیا اور محکمہ رجسٹریشن کے 29 سب رجسٹرارس کا تبادلہ کردیا گیا۔ سرکاری اراضیات کو بچانے کے لیے چیف منسٹر کے چندر شیکھر رائو کی یہ دلچسپی یقیناً قابل ستائش ہے کہ انہوں نے نہ صرف محکمہ میں بے قاعدگیوں کے خاتمہ کی کوشش کی بلکہ مزید اس طرح کی سرگرمیوں کا پتہ چلانے تحقیقات کا اعلان کیا۔ سرکاری اراضیات کے ساتھ ساتھ اگر چیف منسٹر تلنگانہ کی اوقافی اراضیات اور جائیدادوں کے معاملہ میں بھی اسی طرح کی دلچسپی کا مظاہرہ کریں تو کئی ہزار کروڑ روپئے مالیتی جائیدادوں کو بچایا جاسکتا ہے۔ تلنگانہ میں تقریباً 35 ہزار اوقافی جائیدادیں ہیں جن میں 90 فیصد پر ناجائز قبضے ہیں اور یہ چند ایک برسوں کا معاملہ نہیں بلکہ تقریباً 20 تا 25 سال سے غیر مجاز قابضین اوقافی جائیدادوں سے استفادہ کررہے ہیں۔ ہر ایک حکومت میں اوقافی جائیدادوں کے تحفظ اور اس کی آمدنی مسلمانوں کی فلاح و بہبود پر خرچ کرنے کا وعدہ تو کیا لیکن کسی نے ٹھوس قدم نہیں اٹھائے۔ چیف منسٹر کے چندر شیکھررائو نے ایک سے زائد مرتبہ اسمبلی اور اس کے باہر اعلان کیا کہ حکومت ایک ایک انچ اوقافی اراضی کا تحفظ کرتے ہوئے وقف بورڈ کے حوالے کرے گی۔ انہوں نے حکومت کی تحویل میں موجود اوقافی اراضیات کو بھی واپس کرنے کا تیقن دیا تھا۔ چیف منسٹر کے ان وعدوں پر تلنگانہ کے مسلمان عمل آوری کا انتظار کررہے ہیں۔ شہر اور مضافاتی علاقوں میں سینکڑوں ایکڑ اوقافی اراضی سرکاری اداروں کے قبضے میں ہے۔ چیف منسٹر نے منی کونڈا جاگیر کے تحت لینکو ہلز اور دیگر اداروں کو فراہم کی گئی اراضی سے بچ جانے والی کھلی اراضی کو وقف بورڈ کے حوالے کرنے کا تیقن دیا تھا لیکن آج تک یہ اراضی وقف بورڈ کے حوالے نہیں کی گئی۔ لینکو ہلز کی اراضی کا معاملہ سپریم کورٹ میں زیر دوران ہے جہاں تلنگانہ حکومت کا یہ دعوی ہے کہ اراضی سرکاری ہے وقف نہیں۔ متحدہ آندھراپردیش میں حکومت کا یہی موقف تھا جو آج بھی برقرار ہے۔ چیف منسٹر کے چندر شیکھر رائو نے اوقافی جائیدادوں اور اراضیات کے سلسلہ میں جو تیقن دیا ہے اس کے مطابق مسلمانوں کو امید تھی کہ چیف منسٹر سپریم کورٹ میں حکومت کی جانب سے حلف نامہ داخل کرتے ہوئے سرکاری اراضی کے دعوے سے دستبرداری اختیار کرلیں گے لیکن ایسا ممکن نظر نہیں آتا۔ سرکاری تحویل میں موجود اراضیات کی وقف بورڈ کو حوالگی کے علاوہ غیر مجاز قابضین کے خلاف کارروائی کے سلسلہ میں حکومت پولیس کو واضح ہدایات دینے سے گریز کررہی ہے۔ اب جبکہ میاں پور اسکام کے بعد حکومت نے سرکاری اراضیات کے تحفظ کے لیے باقاعدہ مہم کا آغاز کیا اور سی بی سی آئی ڈی تحقیقات شروع کی گئیں لہٰذا حکومت کو اوقافی جائیدادوں کے سلسلہ میں بھی اسی طرح دلچسپی دکھانی چاہئے اور قابضین کے خلاف کارروائی اور غیر مجاز قبضوں کے بارے میں تحقیقات کا اعلان کیا جائے۔ اس طرح اوقافی جائیدادوں کے سلسلہ میں حکومت کی دلچسپی کا بھرپور مظاہرہ ہوسکتا ہے۔