میاں، بیوی سے متعلق مختلف مسائل

میاں، بیوی سے متعلق مختلف مسائل
سوال : کیا فرماتے ہیں علماء کرام اس مسئلہ میں کہ میاں بیوی میں جھگڑا ہوا۔ میاں نے کہا کہ ’’ گھر کام نہیں کرنا ہے ‘‘ یا ’’ میرا کام نہیں کرنا ہے ‘‘ یا ’’ میری بات نہیں ماننا ہے ‘‘ تو ’’ گھر سے نکل جا‘‘ ، ’’ چلی جا ‘‘ کہہ کر دھکیل دیا ۔ برائے مہربانی قرآن و حدیث کی روشنی میں مدلل جواب عنایت فرمائیں۔ برائے مہربانی فقرہ واری جواب عنایت فرمائیں ۔
۱۔ ’’ گھر سے نکل جا‘‘ تین مرتبہ کہتے ہوئے دھکیل دینے پر کیا حکم ہے ؟
۲ ۔ بیوی کے ذمہ شوہر کے بالغ (5 یا 6 ) بھائیوں کا کام کرنا ہے یا نہیں ۔ اس کا کیا حکم ہے ؟
۳ ۔ بیوی اگر بیمار ہو تو اس کے ذمہ ماں باپ یا شوہر کی خدمت بیماری کی حالت میں کرنا لازم ہے یا نہیں اس کا کیا حکم ہے ؟
۴ ۔ شوہر کہے کہ میرے ماں باپ اور بھائیوں کی خدمت کرو وہ اگر خوش ہیں تو میں بھی خوش ہوں ورنہ میں بھی تم سے ناراض ہوں تو اس کے لئے کیا حکم ہے ؟
۵ ۔ بیوی بیماری کی وجہ سے شوہر سے یہ کہے کہ آپ کو صبح جانا ہے اس لئے میں آپ کا جو کام ہے وہ صبح آپ کے جانے سے پہلے کردیتی ہوں اب اس وقت میری طبیعت بہت خراب ہے اور شوہر کہے کہ ’’ نہیں ابھی یعنی رات میں ہی یہ کام کردو‘‘ اور پھر اسی بات پر شوہر مذکورہ بالا فقرہ نمبر (۱) کہتا ہوا دھکیل دیا تو اس کے لئے کیا حکم ہے ؟
۶ ۔ تین منزلہ بلڈنگ میں اوپری تیسری منزل پر باورچی خانہ ہے اور دوسری اور پہلی منزل پر رہائش ہے تو صبح سے شام تک اوپر سے نیچے آنے جانے میں بیوی کے پیروں میں درد ہوگیا ہے تو اس کیلئے شوہر پر کیا ذمہ داری ہے جبکہ شوہر کہتا ہے کچھ بھی ہو تم کو کام کرنا ہی کرنا ہے تو اس کیلئے کیا حکم ہے ؟ (اور اسی وجہ سے حمل بھی ضائع ہوتا جارہا ہے)
۷ ۔ شوہر صبح سات (7) بجے جاکر رات میں (11) یا (12) بجے تک آتا ہے ۔ اس اثناء میں ماں طعنہ تشنہ سے کام لیتی ہے جس کی وجہ سے بیوی کو مرض دق لاحق ہوگیا ہے تو اب اس پر شوہر کی کیا ذمہ داری ہے اور اس کا حکم کیا ہے ؟
۸ ۔ بیوی اب اپنے ماں باپ کے پاس ہی ہے مزاج کی ناسازی کی وجہ سے شوہر کے لوگ بات چیت کے لئے آرہے ہیں۔ برائے مہربانی قرآن و حدیث کی روشنی میں بیوی کے لئے کیا حکم ہے ، بتائیں تو مہربانی ہوگی ؟
خالد شیخ، مستعد پورہ
جواب : ۱ ۔ ’’گھر سے نکل جا‘‘ ’’ چلی جا‘‘ کنایہ کے الفاظ ہیں اور اسمیں نیت کا اعتبار ہے طلاق کی نیت تھی تو طلاق ہوگی ورنہ نہیں۔
۲ ۔ بیوی کے ذمہ یہ کام واجب نہیں ہے۔
۳ ۔ حسب طاقت شوہر کی خدمت کرے۔ ساس سسر کی خدمت کرنا واجب نہیں۔
۴ ۔ شوہر کو راضی رکھنے کیلئے خدمت کرسکتی ہے۔
۵ ۔ شوہر کا عمل غیر شرعی ہے۔ نیت طلاق کی تھی تو طلاق ہوگی ورنہ نہیں۔
۶ ۔ دونوں آپس میں صلح کرلیں۔ بیوی بھی انسان ہے، انسانیت کو پیش نظر رکھیں۔ بیوی موزوں وقت اوپر جاکر باورچی خانہ کا مکمل کام کر کے اترے
۷ ۔ شوہر پر لازم ہے کہ ایسا انتظام کرے کہ بیوی کو اپنی ساس کے طعنے سننے کا موقع نہ ہو یا علحدہ مکان لے کر رکھے۔

بحالت بیماری کو ساقط کرنا
سوال : چند سال قبل ایک واقعہ پیش آیا کہ ایک جوڑا حمل کو ساقط کرنے کے لئے عدالت سے رجوع ہوا ۔ ڈاکٹرس کی رپورٹ کے مطابق مادر شکم میں موجود جان کو نازک بیماری کا خطرہ ہے لیکن ممبئی کی عدالت نے 6 ماہ کے حمل کو ساقط کرنے کی قطعاً اجازت نہیں دی۔ اس سلسلہ میں شرعی نقطہ نظر دریافت کرنا مقصود ہے کہ شرعی لحاظ سے اسقاط حمل کا حکم کیا ہے اور اگر ماں کے پیٹ میں بچہ کو کوئی مرض لاحق ہو تو ایسی صورت میں اسقاط حمل کی شرعاً اجازت ہے یا نہیں ؟
عبدالوحید ایڈوکیٹ، ٹولی چوکی
جواب : تمام ائمہ اور فقہاء اس بات پر متفق ہیں کہ جنین میں روح پھونکنے کے بعد اسقاط حمل کرناقطعی حرام ہے کیونکہ جب حمل میں زندگی پیدا ہوگئی تو اس زندہ وجود کو زندگی سے محروم کرنا گویا اس کوقتل کرنا ہے اور یہ نص قطعی کے خلاف ہے ۔
’’ ولا تقتلوا اولادکم خشیۃ املاق نحن نرزقھم وایاکم ان قتلھم کان خطأ کبیرا ‘‘ (سورہ الاسراء : 31 )
(تم اپنی اولاد کو تنگدستی کے خوف و اندیشہ سے قتل مت کرو ہم ہی ان کو اور تم کو رزق دیتے ہیں۔یقیناً ان کو قتل کرنا بڑا گناہ ہے)۔ علماء کے نزدیک جنین میں روح پھونکے جانے کی مدت میں اختلاف ہے۔ بعض کے نزدیک 40 دن میں روح پھونکی جاتی ہے اور بعض کے نزدیک 42 اور بعض کے نزدیک 45 دن میں روح پھونکی جاتی ہے لیکن جمہور علماء 120 دن یعنی چار مہینہ کے قائل ہیں۔ اس سلسلہ میں جمہور نے سورۃ المومنون کی ابتدائی آیات سے استشھاد کیا ۔ ’’ ثم جعلناہ نطفۃ فی قرار مکین ۔ ثم خلقنا النطفۃ علقۃ فخلقنا العلقۃ مضغۃ فخلقنا المضغۃ عظاماً فکسونا العظام لحماً ثم انشاناہ خلقاً آخرفتبارک اللہ احسن الخالقین‘‘ (سورۃ المومنون : 13 ، 14 )
(پھر ہم نے اس کو ایک محفوظ مقام میں پانی کی بوند بناکر رکھا پھر ہم نے نطفہ کو خون کا لوتھڑا بنادیا ۔ پھر ہم نے اس لوتھڑے کو گوشت کا ٹکڑا بنادیا ۔ پھر ہم نے اس گوشت کے ٹکڑے سے ہڈیاں بنادی پھر ان ہڈیوں کو گوشت پہنادیا ۔پھر (روح پھونک کر) ہم نے اسے دوسری مخلوق بنادی۔ پس اللہ تعالیٰ بڑا برکت والا ہے جو سب سے بہترین بنانے والا ہے)
ان آیات میں اللہ تعالیٰ نے مادر رحم میں جنین کے تین ادوار کوبیان فرمایا (1) نطفہ کا مرحلہ (2) علقہ (خون کے لوتھڑے) کا مرحلہ (3) مضغہ (گوشت کے ٹکڑے کا) مرحلہ ۔ اس کے بعد جنین میں روح پھونکی جاتی ہے ۔ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ان تین مراحل میں سے ہر مرحلہ کی مدت چالیس دن قرار دی ہے۔ ’’ ان احد کم یجمع خلقہ فی بطن امہ اربعین یوماً نطفۃ ثم یکون علقۃ مثل ذلک ثم یکون مضغۃ مثل ذلک ثم یرحل الیہ الملک فینفخ فیہ الروح‘‘ (بخاری ، بروایت حضرت عبداللہ بن مسعود ؓ) (یقیناً تم سے ہرایک اپنے شکم مادر میں چالیس دن نطفہ ، چالیس دن علقہ ، اور چالیس دن مضغہ رہتا ہے پھر ایک فرشتہ آتا ہے اور اس میں روح پھونکتا ہے)
جمہور حنفیہ کے نزدیک بلا عذر روح پھونکے جانے سے پہلے بھی اسقاط حمل جائز نہیں۔ علامہ ابن عابد شامی رد المحتار ج : 5 ص : 519 میں فرماتے ہیں ’’ ولا یخفی انھا تأثم اثم القتل لو استبان خلقہ و مات بفعلھا ‘‘۔
(یہ بات پوشیدہ نہیں کہ آثار خلقت ظاہر ہونے کے بعد جنین ، عورت کے کسی عمل کی وجہ سے مرجائے تو اس کو قتل کرنے کا گناہ ہوگا)
بناء بریں جنین میں روح پھونکے جانے کے بعد حمل کو ساقط کرنا اگرچہ جنین میں کسی مرض یا بیماری کے اندیشہ کی وجہ سے ہو شرعاً ناجائز و حرام ہے۔
عالمگیری ج : 5 ، ص : 26 میں ہے ۔ ’’ واذا اعترض الولد فی بطن الحامل ولم یجدوا سبیلاً لاستخراج الولد الا بقطع الولد اربا اربا ولو لم یفعلوا ذلک یخاف علی الامام قالوا ان کان الولد میتاً فی البطن لاباس بہ وان کان حیاً لم نرجواز قطع الولد اربا اربا کذا فی فتاوی قاضی خان ‘‘ ۔
پس دریافت شدہ مسئلہ میں سوال میں صراحت کردہ جوڑے کو چھ ماہ کے جنین کو بیماری کے لاحق ہونے کی وجہ سے اسقاط حمل کی شرعاً اجازت نہیں دی جائے گی۔

اولیاء کرام کیلئے ’’ رحمتہ اللہ علیہ‘‘ کا استعمال
سوال : کیا فرماتے ہیں علماء دین متین اس مسئلہ میں کہ حضرت پیران پیر رحمتہ اللہ علیہ کے اسم مبارک کے ساتھ دعائیہ جملہ’’ رحمتہ اللہ علیہ‘‘ تحریر کرنا شرعاً کیا حکم رکھتا ہے ؟ اس سلسلہ میں شرعاً کوئی نکیر، امرِ مانع یا کوئی پہلو سوئے ادب کا ہو تو کاتب الحروف رجوع اور توبہ و استغفار کی طرف مبادرت کرے !
نام مخفی
جواب : فقہاء نے صحابہ کرام کے لئے ’’ رضی اللہ عنہ ‘‘ تابعین کیلئے ’’ رحمتہ اللہ تعالیٰ ‘‘ اور مابعد تابعین کیلئے ’’ غفراللہ لھم و تجاوز عنھم ‘‘ کے دعائیہ کلمات کو اولیٰ قرار دیا۔ عالمگیری جلد 6 ص : 446 میں ہے ۔ ثم الأولیٰ أن یدعوللصحابۃ بالرضا فیقول رضی اللہ عنطم و للتا بعین بالرحمۃ و یقول رحمہ اللہ ولمن بعد ھم بالمغفرۃ والتجاوز فیقول غفراللہ لھم وتجاوز عنھم۔
متاخرین علماء نے صحابہ تابعین اور دیگر علماء و صالحین کیلئے ’’ رضی اللہ عنہ ‘‘ اور رحمتہ اللہ ‘‘ کے کلمات کو مستحب قراردیا ہے ۔ نزھۃ الناظرین ص : 34 میں ہے : قال النووی رحمۃ اللہ یستحب الترضی والترحم علی الصحابۃ والتابعین و من بعد ھم من العلماء والعبادو سائرلاخیار۔
پس صورت مسئول عنہا میں اگر کوئی شخص حضرت غوث اعظم دستگیرؒ کے لئے ’’ رضی اللہ عنہ ‘‘ ’’ رحمۃ اللہ ‘‘ اور ’’ علیہ الرحمتہ ‘‘ سے کونسی بھی دعائیہ کلمہ استعمال کرے تو شرعاً محمود و پسندیدہ ہے۔

غسل میں وضو
سوال : اگر کوئی شخص غسل کرتے ہوئے تمام بدن کو اچھی طرح صابن اور پانی سے دھولے، کلی بھی کرے اور ناک بھی پانی سے صاف کرے لیکن نہ تو اس نے وضو کی نیت کی اور نہ ترتیب وار اعضاء وضو کو دھویا معلوم کرنا یہ ہے کہ اس طرح کا غسل اور وضو مکمل ہوا یا نہیں یا اس کو دوبارہ وضو کرنا ہوگا ؟
عطفان عباسی جہاں نما
جواب : غسل میں تین امور فرض ہیں : کلی کرنا ، ناک میں پانی چڑھانا اور سارے بدن پر پانی ڈالنا۔ فتاوی عالمگیری ج : 1 ، ص : 13 باب الغسل میں ہے۔ الفصل الاول فی فرائضہ وھی ثلاث المضمضہ والاستنشاق و غسل جمیع البدن۔ فرض کی تکمیل سے غسل ہوگیا۔ غسل میں خودبخود وضو بھی ہوجاتا ہے۔

مرحوم کے افراد خاندان کیلئے کھانا لیجانا
سوال : ہمارے حیدرآباد میں یہ رواج ہے کہ جب کسی کے گھر انتقال ہوجاتاہے تو عزیز و اقارب ان کے لئے کھانے کا انتظام کرتے ہیں ۔ کیا شرعی لحاظ سے مرحوم کے گھرکھانا لیجانا درست ہے یا نہیں اسی طرح لوگ جب میت کو دفن کرتے ہیں تو قبر میں سب مل کر مٹی ڈالتے ہیں اور کچھ پڑھتے ہیں۔ کیا اس کا بھی ثبوت شریعت میںموجود ہے۔
مبین خان، پھسل بنڈہ
جواب : چونکہ میت کے افراد خاندان رنج و غم میں رہتے ہیں۔کھانے پکانے کا انتظام رنج و غم میں نہیں ہوسکتا اس لئے عزیز و اقارب دوست و احباب ان کے لئے کھانا لیجاتے ہیں۔ شرعی نقطہ نظر سے میت کے افراد خاندان کے لئے کھانا لیجانے میں کوئی حرج نہیں۔ عالمگیری جلد اول ص : 167 میں ہے : ولا بأس بأن یتخذ لأھل المیت طعام کذافی التبیین ۔
تدفین کے وقت قبر میں میت کے سراہنے سے حاضرین کا دونوں ہاتھوں سے تین مٹھی مٹی ڈالنا مستحب ہے ۔ پہلی مٹھی میں منھا خلقناکم (اسی سے ہم نے تم کو پیدا کیا) دوسری میں وفیھا نعیدکم (اور اسی میں ہم تمہیں واپس لوٹائیں گے) اور تیسری میں و منھا نخرجکم تارۃ اخری (اور ہم اس سے تمکو دوبارہ نکالیں گے) پڑھے۔ اور ص : 166 میں ہے: و یستحب لمن شھد دفن المیت ان یحثوفی قبرہ ثلاث حثیات من التراب بیدیہ جمیعا و یکون من قبل رأس رأس المیت و یقول فی الحثیۃ الاولیٰ منھا خلقنا کم … کذا فی الجوہرۃ النیرۃ