میانمار ‘ سوچی کی کامیابی

سلطانیٔ جمہورت کا آتا ہے زمانہ
جو نقش کہن تم کو نظر آئے مٹادو
میانمار ‘ سوچی کی کامیابی
میانمار میں تاریخی انتخابات کا عمل تکمیل کے قریب ہے ۔ وہاں نوبل انعام یافتہ جمہوریت پسند لیڈر آنگ سان سوچی کی پارٹی نے شاندار کامیابی حاصل کرلی ہے اور اسے ملک میں نئی حکومت تشکیل دینے اور نئے صدر کا تقرر عمل میں لانے کا اختیار ملک کے عوام نے سونپ دیا ہے ۔ میانمار کے یہ انتخابی تاریخی اہمیت کے حامل ہیں۔ ملک میں ایک طویل عرصہ سے فوجی حکومت قائم ہے ۔ بعد میں حالانکہ اس فوجی حکومت کے اختیارات میں کچھ کمی کی گئی تھی لیکن اسے کسی بھی قیمت پر سیویلین اور منتخبہ حکومت نہیں کہا جاسکتا تھا ۔ بین الاقوامی دباؤ کو دیکھتے ہوئے میانمار میں جب آنگ سان سوچی کی طویل قید کے بعد جیل سے رہائی عمل میں آئی تھی اس وقت سے یہ مطالبات ہو رہے تھے کہ ملک میں جمہوری طرز عمل پر انتخابات کا انعقاد عمل میںلایا جائے ۔ ملک میں برسر اقتدار فوجی جنتا نے ابتداء سے ہی ٹال مٹول سے کام لیا ہے اور انتخابات کے انعقاد سے بچنے کی حتی المقدور کوشش کی لیکن جب اس کیلئے اس سے بچنا ممکن نہیں رہ گیا تو انتخابات کا انعقاد عمل میں لایا گیا ۔ میانمار میں 8 نومبر کو تاریخی انتخابات میں ملک کے عوام نے اپنے ووٹ کا استعمال کیا تھا ۔ عوام نے پورے جوش و خروش کے ساتھ رائے دہی میں حصہ لیا اور طویل قطاروں میں ٹہر کر اپنے حق رائے دہی کا استعمال کیا تھا ۔ اب جو نتائج سامنے آئے ہیں اور جن کا ملک کے الیکشن کمیشن کی جانب سے اعلان کیا گیا ہے ان میں آنگ سان سوچی کی پارٹی کو شاندار کامیابی ملی ہے ۔ حالانکہ ابھی کئی نشستوں کے نتائج کا اعلان باقی ہے لیکن اب تک معلنہ نتائج ہی میں ان کی پارٹی کو 348 نشستوں پر کامیابی مل چکی ہے ۔ ملک میں سات نشستوں پر رائے دہی نہیں ہوئی تھی اور کسی بھی پارٹی کو دونوں ایوانوں میں اقتدار حاصل کرنے 329 نشستوں پر کامیابی کی ضرورت تھی ۔ اب سوچی کی پارٹی نے یہ نشانہ عبور کرلیا ہے اور اس کے ملک میں نئے صدرکا تقرر عمل میں لانے اور نئی حکومت تشکیل دینے کی راہ ہموار ہوگئی ہے ۔ انتخابی عمل کب اپنے منطقی انجام کو پہونچتا ہے اور کب فوجی حکمران اقتدار منتقل کرتے ہیں ابھی اس کا اعلان نہیںہوا ہے ۔ ملک کی فوجی حکومت نے تاہم یہ تیقن دیا ہے کہ وہ اقتدار کی پرامن منتقلی کو یقینی بنانے کیلئے تیار ہے ۔
میانمار کا جو دستور ہے اس کو فوجی حمایت والی حکومت نے تیار کیا تھا ۔ اس دستور کے مطابق آنگ سان سوچی ملک کی صدر نہیں بن سکتیں۔ ان کے صدر بننے کی راہ میں قانونی رکاوٹیں حائل ہیں تاہم سوچی یہ واضح اشارہ دے چکی ہیں کہ وہ بالواسطہ طور پر ملک پر حکمرانی کرینگی ۔ ملک کیلئے کسی ایسے صدر کا انتخاب عمل میں لایا جائیگا جو صرف سوچی کے اشاروں پر کام کرسکے ۔ ویسے بھی سوچی کی پارٹی کو اب تک جو کامیابی ملی ہے اس کے نتیجہ میں اسے حکومت تشکیل دینے کسی بھی جماعت کی تائید درکار نہیں ہے اور نہ ہی کسی طرح کی قومی حکومت بنانے کی ضرورت ہے ۔ ایسے میں یہ امید کی جاسکتی ہے کہ دستوری اور قانونی ضرورتوں کو بدلا جائیگا اور مستقبل میں سوچی کے باضابطہ صدر بننے کی راہ ہموار ہوسکتی ہے ۔ میانمار کے دستور کے مطابق پارلیمنٹ کے دونوں ایوانوں میں فوج کیلئے 25 فیصد نشستیں مختص ہیں۔ یہ ایک ایسی دستوری گنجائش ہے جو ملک کے جمہوری مستقبل کیلئے ہمیشہ اندیشوں کو برقرا ررکھ سکتی ہے ۔ اسی گنجائش کو دیکھتے ہوئے سوچی کو ابتداء میں اپنی حکومت تشکیل دیتے وقت پوری احتیاط سے کام لینے کی ضرورت ہے ۔ انہیں تشکیل حکومت میں کسی گوشہ کو ناراض کرنے کا خطرہ نہیں مول لینا چاہئے ۔ جب تک ملک میں اقتدار کی پرامن منتقلی عمل میں نہیں آجاتی اس وقت تک جمہوری عمل کو مکمل نہیں سمجھا جاسکتا ۔ ماضی کی ایک مثال ہمارے سامنے ہے جب جمہوری طور پر منعقدہ انتخابات کے نتائج کو میانمار کی فوجی حکومت نے مسترد کردیا تھا اور اقتدار منتقل کرنے سے انکار کیا تھا ۔
ماضی کی غلطیوں اور تلخ تجربات کو سامنے رکھتے ہوئے اب موجودہ حالات میں ایسی حکمت عملی اختیار کرنے کی ضرورت ہے جس سے عوام کی رائے کا احترام برقرار رہ سکے ۔ سوچی کیلئے یہ بھی ضروری ہے کہ وہ ملک کے روہنگیا مسلمانوں کے مسئلہ پر توجہ دیں۔ روہنگیا مسلمانوں کی اکثریت کو رائے دہی کے حق سے محروم کردیا گیا ہے ۔ انہیں میانمار کے دوسرے شہریوں کے مساوی حقوق ملنے چاہئیں۔ روہنگیا مسلمانوں کو ملک کے جن حصوں میں قتل کیا گیا اور ان کی عملا نسل کشی کی گئی تھی ان علاقوں میں سکیوریٹی امور پر خاص توجہ دیتے ہوئے مستقبل میں ایسے واقعات کا اعادہ نہ ہونے کو یقینی بنانے کی ضرورت ہے ۔ روہنگیا مسلمانوں کے ساتھ انصاف اور انہیںمساوی حقوق دئے بغیر آنگ سان سوچی اپنے جمہوریت پسند ہونے کا کوئی عملی ثبوت پیش نہیں کرسکتیں۔ مستقبل میں ان کی شبیہہ روہنگیا مسلمانوں کے حالات پر انحصار کریگی ۔