مہ لقا بائی چندا اردو زبان و ادب کی مایہ ناز شاعرہ

سید علی حسین
حیدرآباد فرخندہ بنیاد کے مشہور شاعر حضرت راحت عزمی مہ لقا بائی چندا کے مفصل حالات اپنی کتاب مہ لقا بائی چندا میں لکھے ہیں ۔ مہ لقا کا نام چندا بی بی یا چندا بائی تھا ۔ مہ لقا کا خطاب والی حیدرآباد فرخندہ بنیاد نواب نظام علی خان آصفجاہ ثانی کا دیا ہوا تھا ۔
یہ خاندان گجرات میں آباد تھا ۔ چندا کے نام خواجہ محمد حسین تھے ۔ خواجہ محمد حسین گجرات کے ایک اچھے محکمے میں ملاززت میں تھے ۔ صدر محاسب کے عہدہ پر فائز تھے ۔ انھوں نے ایک حسین و جمیل لڑکی چندا بی بی سے شادی کی ۔ خواجہ محمد حسین کو جوئے کی لت پڑگئی ، وہ گورنمنٹ کے خزانے سے روپیہ لیکر جوا کھیلتے رہتے اور ہارتے رہتے ۔ جب حسابات کی اڈیٹ ہوئی تو ہزاروں روپیہ کا غبن تھا ۔ خواجہ محمد حسین کی گرفتاری کا وارنٹ نکل گیا ۔ گرفتاری کے خوف سے خواجہ محمد حسین رات کی تاریکی میں گھر سے نکل گئے ۔ چندا بی بی ایک مجبور بے بس نوجوان خاتون تھیں ۔ وہ گھر کے زیورات بیچ کر گھر کا خرچ چلاتی رہی ۔ آخر نہایت ناگفتہ بہ حالات میں گھر چھوڑ کر توکلتہ علی اللہ بچوں کے ساتھ نکل پڑی ۔ وہ قصبہ دیویہ پہنچ کر بھگتیون کے محلہ میں سکونت اختیار کی ۔ بھگتیون کا پیشہ گانا باجانا تھا ۔ چندا بی بی کی دو بیٹیاں نور بی بی اور بولن بی بی گانے بجانے میں ماہر ہوگئیں ۔ تیسری بیٹی میدا بی بی حسن و جمال میں یکتا تھی ۔ دیویہ کا مکھیا میدا بی بی پر فدا ہوگیا اور اس سے شادی کرلی ۔ راجہ کے خاندان کے لوگ چندا بی بی کو طرح طرح سے ستانے لگے ۔ اس ماحول میں چندا بی بی کا انتقال ہوگیا ۔ بڑی لڑکی میدا بی بی اپنی دونوں بہنوں اور دو بھائیوں کے ساتھ نرمدا کو عبور کرکے دکن پہنچی ۔

دونوں بھائی بچھڑ گئے ۔ اورنگ آباد میں حضور نظام آصفجاہ ثانی سے ملاقات ہوئی ۔ یہاں تینوں بہنوں نے اپنے نام بدل کر راج کنور بائی ، برج کنور بائی اور بولن کنور بائی رکھ لئے ۔ برج کنور بائی اور بولن کنور بائی مجرے کے لئے جایا کرتی تھیں ۔ راج کنور بائی کی بیٹی مہتاب کنور بائی ماں کی طرح بے حد حسین تھی ۔ نواب احتشام جنگ رکن الدولہ مدار المہام حکومت آصفیہ نے مہتاب کنور بائی سے شادی کرلی اور اسے صاحب جی صاحبہ کے خطاب سے نوازا ۔ صاحب جی صاحبہ نہایت نیک نفس ، غریب پرور خاتون تھیں۔ امیر غریب سب اسے پسند کرتے تھے ۔ راج کنور بائی کو لوگوں نے مشورہ دیا کہ وہ کسی عمر رسیدہ شخص سے نکاح کرکے باقی زندگی گذاریں ۔ چنانچہ انہوں نے نواب بسالت جاہ بخشی سے نکال کرلیا ۔ ان کے گھر ایک لڑکی 1181ھ میں پیدا ہوئی ۔ اس لڑکی کا نام چندا بی بی رکھا گیا ۔ مہتاب بی بی اور رکن الدولہ کو کوئی اولاد نہیں تھی ۔ وہ چندا بی بی کو گود لیکر اپنی اولاد کی طرح پرورش کرنے لگے ۔ رکن الدولہ اور مہتاب کنور بائی چندا کی تعلیم و تربیت پر خاص توجہ کئے ۔ چندا نے تمام علوم مروجہ میں مہارت حاصل کی ۔ فن موسیقی میں وہ کمال عروج حاصل کیا ۔ وہ شہسواری ، شمشیر زنی اور فن حرب میں کمال حاصل کیا ۔ وہ بیک وقت اچھی سپاہی اور جنرل تھی ۔

نواب آصف جاہ ثانی میر نظام علی خان چندا کی جنگی صلاحیتوں سے خوب واقف تھے ۔ وہ چندا کو پندرہ سال کی عمر میں کولاس کی مہم میں 1196 ھ میں فوج کے ایک حصہ کی کمان سنھالنے دی ۔ دشمن پر ٹوٹ کر حملہ کیا ۔ دشمن کی صفیں منتشر ہوگئیں اور دشمن راہ فرار اختیار کیا ۔ چندا بائی کو کافی زخم آئے ۔ جراح اور حکماء نے اسکی مرہم پٹی کی ۔ وہ چند دن میں صحت یاب ہوگئی ۔ نواب آصفجاہ ثانی نے اسے مہ لقا کا خطاب دیا ۔ نوبت نقارہ اور گھڑیال کے اعزاز سے سرفراز ہوئی ۔ وہ معرکہ نرمل معرکہ پانگل میں نواب کے ساتھ تھی ۔ وہ اپنی جرأت اور شجاعت سے ان معرکوں کو کامیابی سے ہمکنار کیا ۔
چندا بائی ایک شاہانہ مزاج کی عورت تھی ۔ اس کی چال میں ایک شاہانہ تمکنت تھی ۔ بات چیت میں وقار تھا ۔ وہ غریبوں ، محتاجوں کی دل کھول کر اعانت کرتی تھی ۔ مریضوں اور لاچاروں کی دلجوئی کرتی ۔ ان کا علاج کرواتی اور اپنی طرف سے ہر ماہ انکا وظیفہ جاری کرتی ۔ چندا بائی کی پرورش شاہی ماحول میں ہوئی تھی ۔ اسکے مزاج میں اوصاف حمیدہ پیدا ہوگئے ۔ وہ طبعاً خوش مزاج ، لطیفہ گو ، حاضر جواب تھی ۔ وہ کبھی بھی کسی کی دل آزاری نہیں کرتی تھی ۔

مہ لقا بائی چندا اپنے عہد کی ایک صاحب ثروت اور متمول ترین خاتون تھیں ۔ متعدد گاؤں اور مواضعات اس کی جاگیر میں شامل تھے ۔ وہ اپنے مواضعات کا دورہ کرتی ، غریب کسانوں کو اچھے بیج اور کھاد مفت فراہم کرتی تھی ۔ فصل خراب ہونے پر لگان معاف کرتی تھی ۔ حکومت سے امداد طلب کرتی تھی ۔ اڈیکمٹ اب جہاں آرٹس کالج عثمانیہ یونیورسٹی ہے وہ مہ لقا بائی چندا کا مقطعہ تھا ۔
مہ لقا بائی چندا نے شہر میں کئی مساجد تعمیر کئے جن میں ہر سال پابندی سے افطاری بھیجتی تھی اور افطار اور سحری کے طعام کا انتظام کرتی تھی ۔ مہ لقا بائی چندا پرانی حویلی کے قریب نزد منڈی میر عالم ایک خوشنما عمارت تعمیر کروائی تھی ۔ یہ عمارت سفید رنگ کی تھی ۔ یہ عمارت دراصل ایک عاشور خانہ تھا جہاں ماہ محرم میں مجالس عزا ہوتی تھی ۔ اس عمارت میں خواتین سیاہ ، سبز اور اودے کپڑے پہن کر شریک ہوتی تھیں ۔ پہلا مرثیہ پردہ کے پیچھے سے چندا بی بی کے استاد خوشحال خاں جو بہت ضعیف تھے وہ پڑھتے ، اس کے بعد مہ لقا بائی چندا نہایت پردرد اور پرسوز آواز اور مرثیہ پڑھتی تھی ۔ اس کے بعد مہ لقا بائی چندا ذاکری کرتی تھیں ۔ چندا بی بی کی کنیزاں ماتم کرتی تھیں ۔ ختم مجلس کے بعد خواتین عزادارں کی عمدہ اور لذیذ طعام سے تواضع کی جاتی ۔ دور سے آنے والی خواتین کو جانے کا انتظام چندا بی بی کرتی تھی ۔

مہ لقا بائی چندا بی بی کو کوہ مولا علی کے دامن میں ایک خوبصورت بارہ دری تعمیر کروائی تھیں ۔ ان کے استاد خوشحال خاں وہاں ایک شاندار کمان بنوائی تھیں ۔ بارہ رجب المرجب سے سترہ رجب المرجب جو حضرت علی مرتضیٰ کرم اللہ وجہ کی ولادت کا مہینہ ہے چندا بی بی اپنی بارہ دری میں عمدہ طعام کا ہر خاص و عام کے لئے اہتمام کرتی تھیں ۔ یہ دسترخوان صبح سے شام تک جاری رہتا تھا ۔
مہ لقا بائی چندا اپنے عہد کی ایک اچھی شاعرہ تھی ۔ اس کی شاعری کے استاد نواب میر ابوالقاسم موسوی المخاطب بہ میر عالم تھے ۔ چندا بی بی غزل کی شاعرہ تھی ۔ اس کی غزل پانچ مصرعوں پر مشتمل ہوتی تھی ۔ ہر غزل کے آخری مصرعہ میں حضرت علی مرتضی کرم اللہ وجہ کی مداح سرائی کرتی تھی اور ان سے استعنات طلب کرتی تھی ۔ اسے بنی کریمﷺ و اہلبیت اطہار سے والہانہ محبت ومودت تھی ۔ چندا کے چند شعر پیش ہیں ۔
سوجان سے ہوگی وہ تصدق مرے مولا
چندا کی جو کونین میں امداد کروگے
سرفرو ہر گز نہ چندا کسی سے دہر میں
یہ جناب مرتضی کی ہے کنیزی کا غرور
عمر بھر یوں ہی رہے حسن کا چندا جلوہ
آرزو رکھتے ہیں یہ حیدر کرار سے ہم
گرمی وہ ہوئے حسن میں چندا کے یا علی
جلوے کو اس کے دیکھ کے بسی لوٹ جائے برق
مہ لقا بائی چندا 20 ذیقعدہ 1181 ء کو حیدرآباد میں پیدا ہوئی اور ان کا انتقال 1240ھ میں ساٹھ سال کی عمر میں ہوا ۔ ان کا مزار ان کی ماں میدا بی بی مشہور بہ راج کنور بی بی کے پہلو میں ہے ۔ اب کسی ادارہ نے اس کی بارہ دری کی تزئین جدید کی ہے جو قابل دید ہے ۔