مہرِ خیابان

وحید اشرف
شہر سے بہت دور ایک قصبہ میں، ریلوے اسٹیشن کے ساتھ والی خوبصورت عمارت جو کبھی کسی نواب کی رہائش گاہ رہی ہوگی، آج یہ بیت المعمرین کہلاتی ہے ۔ اس عمارت میں ہر نسل و مذہب کے ضعیف افراد اپنی زندگی کی بچی ہوئی ساعتیں مختلف مشغلوں کے ساتھ صرف کر رہے ہیں۔ کسی بھی ترقی یافتہ یا ترقی پذیر شہر میں کوئی ایسی جگہ نہیں جہاں سکون ، خاموشی سے پرماحول ہو لیکن کسی بھی قصبہ کے ریلوے اسٹیشن وہ ماحول پیدا کرتے ہیں ۔ یہاں پر ایک افسانوی سی فضاء ہمیشہ چھائی رہتی ہے ۔ ایسے ہی ایک ریلوے پلیٹ فارم کے آخری سرے کی بنچ پر چند معمر حضرات بیٹھے ہوئے تھے ۔ ہوا میں کسی قدر خنکی تھی، شاید نزدیک کہیں بوندا باندی ہوئی ہو کیونکہ خنکی کے ساتھ ہوا میں مٹی کی سوندھی سی خوشبو بسی ہوئی تھی ۔ قریب کے بلند درختوں سے سوکھے پتے جھڑجھڑ کر پلیٹ فارم کے فرش پر سرسراہٹ پیدا کرتے ہوئے رقص کناں تھے ۔ جہاں یہ رقص کیف و سرور پیدا کر رہا تھا وہیں وائلڈ فلاور (Wild flower) کی بھینی بھینی خوشبو سانسوں کو معطر اور ذہن کوا یک عجیب سا نشہ فراہم کر رہی تھی۔ ریلوے پلیٹ فارم کی فضاء بڑی ہی سحر انگیز اور ماحول افسانوی تھا ۔ شام ہونے کو تھی ان حضرات میں بے چینی کی سی کیفیت پیدا ہونی شروع ہوگئی ۔ ا ن میں سے ایک نے اپنے عصا پر زور ڈالا اور اٹھتے ہوئے کہنے لگا چلو اس درخت کے سائے میں وہ کہانی گو آتا ہی ہوگا ۔ اس کے بیان کی سحر انگیزی بھی اس ماحول سے کچھ کم نہیں۔ ’’ اس بنچ پر بیٹھتے ہی نجم السحر کی یاد بہت ستاتی ہے ۔ وہ اپنے پوتروں کو یاد کر کے آبدیدہ ہوجایا کرتے تھے ۔ وہ کہتے تھے یہ ہوا ، یہ فضاء اور اس ماحول کی سحر انگیزی ہمیں زندہ رکھے ہوئے ہے ۔ جب ان کا انتقال ہوا تو کناڈا اور امریکہ میں ان کے لڑکوں کو اطلاع دی گئی ۔ انہوں نے افسوس کا اظہار کرتے ہوئے اپنے عزیزوں کو آخری رسومات کی اجازت دے دی‘‘۔

دوسرے فرد نے بھی اٹھتے ہوئے کہا ’’تمہیں یاد ہے ۔ نخشب کہا کرتے تھے میں اپنے پوتروں کو جب تک کوئی کہانی نہ سناؤں وہ سوتے نہیں تھے ۔ ہمارے زمانہ میں گھر کی بوائیں بچوں کو کہانی سنایا کرتی تھیں۔ میرے بیٹوں نے مجھے ایک بڑا سا موبائیل فون دے کر کہا تھا اس آلہ کی مدد سے ہم تمام آپ سے جڑے رہیں گے یہی نہیں انہوں نے یہ کہتے ہوئے میری ہمت باندھی کہ، اس آلہ کے ذریعہ آپ اپنے پوتروں اور پوتریوں کو بات کرتے ہوئے دیکھ بھی سکیں گے اور آپ سے کہانی سنتے سنتے سوجائیں گے ۔ جب کبھی موبائیل کی گھنٹی بجتی اپنے کمرے میں وہ سب کو خاموش ہوجانے کا اشارہ کرتے لیکن کچھ ہی لمحہ بعد یہ کہتے ہوئے آبدیدہ ہوجاتے کہ وہ ایک اشتہاری کال تھی ۔ کوئی مسیج کی ٹون بجتی تو مجھ سے ہی کہتے دیکھنا کیا لکھا ہے، مگر وہ بھی اشتہاری ہوتا۔ بالآخر انہوں نے وہ فون تلف کردیا ۔ یہ قسمت کی ستم ظریفی نہیں تو اور کیا ہے کہ ان کے بیٹے جو تین مختلف ممالک میں جا بسے تھے ۔ اچانک ان سے ملنے کیلئے آگئے۔ اس وقت ان کی روح کو پرواز کئے کچھ ہی لمحہ ہوئے تھے‘‘۔
تیسرے نے بھی اٹھتے ہوئے اپنے چوتھے ساتھی سے کہا ’’منوہر تم تو بڑے خوش نصیب ہو، تمہیں نہ بیوی ہے نہ بچے اور نہ کوئی پوترا پوتری‘‘ منوہر اٹھتے اٹھتے بیٹھ گئے اور کہا ’’تم لوگوں کے پاس لذت آمیز جو درد ہے، سرور بخش جو رنج ہے ، سحر انگیز جو غم ہے اور کسک کیش جو بے چینی ہے، وہ مجھے نصیب نہیں ۔ میرا تو یہ مشاہدہ ہے کہ ایسے لوگ انہی کیفیات سے زیادہ محبت کرتے ہیں۔ انسان کے اندر اگر یہ کیفیات نہ ہوں تو اس کے پاس ہے ہی کیا۔ ایک بے کیف اور خالی انسان۔ اس کا جینا اور اس کا مرجانا کوئی معنی نہیں رکھتا‘‘۔

اس بیت المعمرین میں ضعیف اور بے سہارا افراد کیلئے کئی ایسے دلچسپ مشغلے موجود تھے، لیکن جب سے یہاں ایک کہانی گو فرد نے قدم رکھا وہ تمام اشیاء جو ان لوگوں کی دلچسپی کا ذریعہ تھے گویا سب بند ہوچکے تھے۔ ہر شخص اسی شام کا منتظر رہتا اور اس گھر کے تمام باشندے حتیٰ کہ یہاں کا عملہ بھی اپنا کام کاج چھوڑ کر وقت سے پہلے ہی اس درخت کے سائے تلے جمع ہوجاتا۔ اس حقیقت سے انکار نہیں کیا جاسکتا کہ واقعی کہانی گفتگو کی ایک ایسی صنف ہے جو ذہن کو متاثر کئے بغیر نہیں رہتی۔ اس میں ایک مقناطیسی قوت موجود ہے ۔ ہزاروں سال قدیم تمام مذہبی اور آسمانی کتب کہانیوں کی سحر انگیزیوں سے معمور ہیں۔ کچھ ہی دیر میں میدان اس گھر کے تمام افراد سے بھرچکا تھا۔ سب کی نظریں اس گول چبوترے پر جم گئیں جو ، رُٹاسیا، ہوپ ٹری یعنی امید کا درخت (Rutaceae-Hope tree) کے اطراف بنایا گیا تھا ۔ مجموعہ میں بے چینی کی سی کیفیات پیدا ہونی شروع ہوگئیں۔ لوگ کھسک کھسک کر اس چبوترے کے قریب ہوتے گئے۔ چند ہی لمحوں بعد وہ کہانی گونفیس لباس اور اپنے مخصوص انداز قدمی کے ساتھ عصا کو ہوا میں پیچ دیتا ہوا چبوترے پر چڑھ گیا۔
اس نے چند تمہیدی جملے کہے’’برادران ہر روز کی طرح آج بھی اس درختِ امید کے سائے میں جمع ہیں۔ وطن، زبان ، علاقہ ، رنگ و نسل سے ہٹ کر انسان تو ایک ہی ہے ۔ ہر دور میں اس نے اپنے آپ کو ڈھالا ہے ۔ ہر دور کی مناسبت سے اس نے کہانیوں کو جنم دیا ہے ۔ آج میں آپ کو عام کہانی کے علاوہ کچھ اور ہی سناؤں گا‘‘۔ اس نے کھنکار کر گلا صاف کیا اپنے کرتے کا اوپری بٹن کھول دیا ۔ ایک کے اوپر ایک جمی ہتھیلیاں عصا کے قبضہ پر رکھی اور اپنی سحر انگیز آواز میں کہنا شروع کیا اس کی آواز ابتداء ہی سے تیز اور رفتار زود رو تھی۔’’

… مہربان ، قدردانِ داستان، ابھی آپ نے اس داستان گو سے ، مہر خیابان، زور آور بکمال کے جمال و عشق کی داستان سنی ہے ۔ اس داستانِ سحر بیان نے کئی نواسوں اور پوتروں کو ان کے نانا اور دادا کے شانوں اور زانوؤں پر محوِ خواب کردیا ۔ پھر کوئی نئی داستان شروع کرنے سے قبل کچھ احوال گرد و پیش اور موسم کے تاخیر سے ہونے والی کیفیت کم و بیش، پیش کرتا ہوں۔تو برادران متوجہ و ہمہ گوش ، نو نہالانِ بردوش، محمد بن تغلق کا فرستادہ نامہ بر، کلاہِ سرخ و سفید سربکف ، چوبِ دراز پر بندھے گھنگھر و بجاتا ہوا ، منتظرین نامہ کو خبردار کرتا ہوا اپنے کار آخر پر کیسۂ نامہ لئے بجانب مشرق شاہ راہِ قراقرم کی طرف رواں دواں ہے۔ ہوا میں خنکی پیدا ہوچلی ہے ۔ مغرب و جنوب سے ماوراء النھر سے آندھی کی ایک لہر اپنے ساتھ کاہ و رمل کو لے کر قہر مچاتی ہوئی نکلے گی اور تین دن بعد شہر اللیل کے چراغوں کو گل کردے گی ۔ پھر موسمِ بہار کی خوشبو اپنی آمد کی اطلاع دے گی۔ دوستو سنو ہر مصیبت سے قبل خالقِ پیرِ آسماں و ارِضِ شبابی اپنی مخلوق کو اتنی ہی ہمت اور صبر عطا کرتا ہے پھر اسی مقدار سے مصیبت میں وسیع خاندان کا، فرد واحد جو میر کارواں ہے اپنی آخری سانس تک مسند نشیں رہتا ہے جو آج ہے وہ کل کا پتہ دیتا ہے۔ زمانہ کی تیزگامی اور طبقات کی کشمکش مستقبل کا حال بتاتی ہے ۔ کالی جھنڈیاں لہراتے وحشیوں کا غول اس درخت کے سائے میں، دنیا و مافیھا سے بے خبر دو محبت کرنے والوں پر، اچانک ٹوٹ پڑنے کے لئے شمشیروں کو بے نیام کردیا، بھالوں کوتان لیا، ہلاکو نے کہا ان کو مت ماروان کی نسل کو پروان چڑھاکر نسل کو ختم کرتے ہیں۔ ہم پھر آئیں گے ایک ہزار پر پانچ سو سال بعد۔ جو کل تھا وہ آج نہیں جو آج ہے اس کو غنیمت جانو۔ وحشیوں کا غول اپنے عہد کے مطابق آچکا۔ میر کارواں کوئی نہیں رہا۔ ہر حال میں دو ہی رہے زن و شوہر…‘‘

ماحول بڑا ہی پراسرار لگ رہا تھا ایسی کہانی کسی نے کبھی نہیں سنی۔ یہ کسی کی سمجھ میں بھی نہیں آئی۔ ہاں اتنا ضرور سمجھا گیا کہ اس کہانی کا محور خاندان میں ایک فرد کی بالادستی، انتشار اور وحشت ہے۔ ا نتشار اور وحشت ہر دور میں رہی ہے لیکن خاندان پرایک فرد کی بالادستی ختم ہوچکی ہے ۔ پہلے اولاد ، در اولاد ایک مشترک خاندان ہوتا تھا اب جوں ہی بچے سن بلوغ کو پہنچے اپنے لئے ازدواجی رشتے تلاشے۔ اس سے منسلک ہوئے اور ا پنا مختصر خاندان الگ تشکیل دے لیا ۔ ماں اور باپ تنہا رہ گئے ۔ کافی دیر تک اس نے کچھ نہیں کہا لوگوں کی بے چینی بڑھنے لگی۔ آگے کہو، آگے کیا ہوا ؟ کی صدائیں گونجنے لگیں۔ بیت المعمرین کے عملہ میں سے ایک مستعد نوجوان نے چبوترے پر جست لگائی اور جوں ہی اس نے عصا کو چھوا وہ بے سہارا ہوگیا ۔ عصائے پیری کے ساتھ وہ بھی ڈھیر ہوگیا۔