مہرمیں متعینہ سونا ‘ چاندی کا وقت ادائیگی کی قیمت کا اعتبار

مہرمیں متعینہ سونا ‘ چاندی کا
وقت ادائیگی کی قیمت کا اعتبار
سوال : زید اور ہندہ کا عقد (11 سال قبل ہوا‘ اور زر مہر نقد رقم مبلغ 11000/- (گیارہ ہزار روپئے سکہ رائج الوقت) اور تین دینار سرخ (یعنی تین تولہ اصلی سونا) مقرر ہوا‘ عقد کے روز رقم سے متعلق سکۂ رائج الوقت کا ذکر ہوا کرتا ہے جبکہ دینار شرعی و دینار سرخ کے تعلق سے رقم کی صراحت نہیں کی جاتی۔ عقد کے دن ایک تولہ سونے کی قیمت خرید مبلغ (4000) چار ہزار روپئے تھی‘ اب اس کی قیمت بڑھ کر مبلغ 30,000/- تیس ہزار روپیہ فی تولہ ہوگئی۔
زید اب زر مہر (نقد رقم) اور دینار سرخ کی قیمت بھی ادا کرنا چاہتا ہے ۔ زید کی اس وقت مالی حالت ا پنی بیوی کی کفالت و نفقہ اور بچوں کی تعلیم و تربیت و پرورش کی حد تک محدود ہے ۔ اس کو کوئی اور حلال آمدنی کا ذریعہ نہیں ہے ۔ دریافت طلب امر یہ ہیکہ زید اپنی بیوی کو تین دینار سرخ کی رقم یعنی تین تولہ سونے کی رقم جو اسکے عقد کے روز قیمت خرید تھی وہ ادا کرے یعنی 12000/- روپیہ فی تولہ 4000/- روپئے کے حساب سے یا پھر موجودہ قیمت خرید کے حساب سے 90,000/- (نود ہزار روپیہ) ادا کرنا ہوگا ۔ واضح رہے کہ زید اس قدر کثیر رقم 90,000/- روپئے ادا کرنے کے موقف میں نہیں ہے۔
لیاقت حسین خان، منڈی میرعالم
جواب : مہر مؤجل (دیر طلب مہر) شوہر کے ذمہ در حقیقت …… قرض ہے۔ اس کی ادائیگی بہر صورت شوہر پر لازم ہے۔ مہر میں متعینہ رقم مقرر کی گئی تھی اور عرصہ دراز کے بعد اس کو ادا کیا جارہا ہے تو وہی مقررہ رقم ادا کی جائے گی ۔ اسی طرح مہر میں سونا یا چاندی کی متعینہ مقدار مقرر کی گئی تھی تو شوہر کو وہی متعینہ مقدار ادا کرنا لازم ہوگا اور مہر کی ادائیگی کے وقت متعینہ سونا چاندی کی قیمت زیادہ ہوجائے یا کم ہوجائے کچھ فرق نہیں پڑتا۔ بہر صورت وہی متعینہ مقدار دینا ہوگا ۔ متعینہ سونا چاندی کی مقدار کا اعتبار ہے ۔ اس کی قیمت کی زیادتی یا کمی کا اعتبار نہیں۔ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے : وآتوا النساء صدقاتھن نحلۃ فان طبن لکم عن شئی منہ نفسا فکلوہ ھنیئا مریئا (سورۃ النساء 4/4 )
ترجمہ : اور عورتوں کو ان کے مہر خوشدلی سے ادا کیا کرو‘ پھر اگر وہ اس (مہر) میں سے کچھ تمہارے لئے اپنی خوشی سے چھوڑدیں تو تب اسے اپنے لئے سازگار اور خوشگوار کھاؤ۔اس آیت شریفہ میں عورتوں کو ان کے مہر خوشدلی سے ادا کرنے کی تلقین کی گئی اور وہ عورتیں اپنی خوشدلی سے اپنے مہروں میں کچھ انہیں دیدیں تو اس کو تصرف میں لانا شرعاً درست ہے ۔ پس دریافت شدہ مسئلہ میں زید نے بوقت عقد 3 دینار سرخ (تین اشرفی‘ تین قدیم تولہ سونا مساوی فی تولہ بارہ ماشے) مہر مقرر کیا تھا تو اب بوقت ادائیگی اتنی ہی مقدار سونا ادا کرنا لازم ہوگا ۔ بوقت عقد سونے کی جو قیمت تھی اس کا اعتبار نہیں۔ البتہ بیوی خود اپنی خوشدلی و رضامندی سے مہر معاف کرنا چاہے اس میں کم کرلے تو بیوی کو اختیار ہے اور یہ معاف کرنا‘ کم کرنا ازروئے شرع درست ہے۔ در مختار جلد 3 صفحہ 124 میں ہے : (وصح حطھا) لکلہ أو بعضہ (عنہ) ۔

طوافکے چکر یاد نہ رہے
سوال : میں طواف کے بارے میں جاننا چاہتاہوں۔ اگر کوئی بھول جائے کہ اس نے کتنے چکر کئے ہیں تو وہ کیا کرے۔ جس طرح عموماً نماز میں رکعات کی تعداد بھول جاتے ہیں ۔ میں تقریباً ہر سال عمرہ کیلئے جاتا ہوں اور میں نے چار مرتبہ حج بھی کیا ہے اور عموماً مجھ کو اس طرح کا شبہ ہوجاتا ہے کہ میں نے طواف کے چکر کتنے کئے ہیں۔ ایسی صورت میں ازروئے شرع کیا حکم ہے ؟
محبوب حسین، پرانی حویلی
جواب : دوران طواف آپ کو شک ہوجائے کہ آپ نے کتنے چکر کئے ہیں تو آپ کو چاہئے کہ آپ اپنے ظن غالب کے مطابق عمل کریں اور اگر گمان غالب کسی ایک طرف نہ ہو تو کمی کی جانب کو اختیار کریں۔ مثلاً یہ شک ہو کہ دوسری چکر ہے یا تیسری چکر ہے تو دوسری چکر مقرر کرلیں‘ اگر پانچویں چھٹویں چکر میں شک ہو تو پانچویں مقرر کرلیں اور نماز میں بھی کسی کو شک و شبہ کی عادت ہو تو اسی طرح گمان غالب کے مطابق عمل کرنے کا حکم ہے اور اگر گمان غالب کسی ایک جانب نہ ہو تو کمی کی جانب کو اختیار کرنا ہے۔

بوقت دعاء ہاتھ ا ٹھانا
سوال : دعاء کا صحیح طریقہ کیا ہے ‘ بعض حضرات دعاء کرتے وقت دونوں ہاتھ آسمان کی طرف بلند کرتے ہیں اور بعض حضرات چہرے کے قریب رکھتے ہیں۔ بعض دونوں ہاتھ ملاکر دعا کرتے ہیں اور بعض دونوں ہاتھوں میں گیپ رکھتے ہوئے دعا کرتے ہیں۔ مجھے جاننا یہ ہے کہ اسلام میں دعاء کرنے کا صحیح و مسنون طریقہ کیا ہے۔
محمد یونس ، ونستھلی پورم
جواب : دعاء کی نوعیت سے دعا کا طریقہ مختلف ہوتا ہے لیکن عام دعاء کا افضل طریقہ یہ ہے کہ آدمی دعاء کے وقت اپنی دونوں ہتھیلیوں کو کھلا رکھے اور دونوں ہاتھوں کے درمیان تھوڑی سی کشادگی ہو اور اپنے ایک ہاتھ کو دوسرے ہاتھ پر نہ رکھے اور دعاء کے وقت دونوں ہاتھ سینے تک اٹھانا مستحب ہے۔ عالمگیری جلد 5 ص : 318 میں ہے : والا فضل فی الدعاء أن یبسط کفیہ و یکون بینھما… وان قلت ولا یضع احدی یدیہ علی الاخری … المستحب أن یرفع یدیہ عندالدعاء بحذاء صدرہ کذا فی القنیۃ دعاء سے فارغ ہونے کے بعد اپنے دونوں ہاتھ چہرے پر مل لے اسی میں ہے : مسح الوجہ بالیدین اذا فرغ من الدعاء قیل لیس بشئی و کثیرمن مشائخنا رحھم اللہ تعالیٰ اعتبروا ذلک و ھوا الصحیح و بہ ورد الخبر کذافی الغیاثۃ۔
مالداربیوی کی تجہیز و تکفین کے مصارف
سوال : ہمارے عزیزوں میں ایک خاتون کا انتقال ہوا ‘ وہ صاحب جائیداد تھیں‘ ان کے شوہر بہ قید حیات ہیں اور ان کو تین لڑکے ہیں جو ماشاء اللہ اچھا کماتے ہیں۔ بیوی کے انتقال کے بعد ان کی تدفین کے بارے میں کچھ دقت پیش آئی۔ ان کے آبائی قبرستان میں جگہ تھی لیکن ایک قبر کیلئے ذمہ دار حضرات نے تقریباً چالیس ہزار روپئے کا مطالبہ کیا ۔ بالآخر وہ رقم شوہر نے ادا کردی ۔ اس طرح تجہیز و تکفین کے اخراجات کی تکمیل ہوئی۔ تقریباً پچپن ہزار روپئے تجہیز و تکفین پر خرچ ہوئے ۔ اب مرحومہ کی جائیداد تقسیم ہونے والی ہے ۔ شوہر کا کہنا ہیکہ تجہیز و تکفین پر جو رقم خرچ ہوئی ہے وہ رقم ان کو ان کے حصہ کے علاوہ ادا کی جائے ۔ ایسی صورتحال میں شرعی احکام کیا ہے۔ مطلع فرمائیں۔

ابوالکلام، ورنگل
جواب : بیوی کی تجہیز و تکفین کے مصارف ازروئے شرع شوہر پر واجب ہیں۔ اگرچہ بیوی مالدار کیوں نہ ہو اور شریعت میں یہ قاعدہ مقرر ہے کہ زندگی میں جس پر نفقہ واجب ہے۔ وفات کے بعد اس کی تجہیز و تکفین کے مصارف بھی اسی پر واجب رہیں گے ۔ در مختار برحاشیہ ردالمحتار جلد 1 میں ہے : واختلف فی الزوج والفتوی علی وجوب کفنھا ان ترکت مالا اور ردالمحتار کے اسی صفحہ میں ہے : الاصل فیہ أن من یجبر علی نفقتہ فی حیاتہ یجبر علیھا بعد موتہ ۔
پس مرحومہ کی تجہیز و تکفین کے مصارف شوہر کے ذمہ رہے۔ شوہر کو مقررہ حصہ رسدی کے علاوہ تجہیز و تکفین کے مصارف متروکہ مرحومہ سے نہیں ملیں گے۔

پرسہ دینے کا صحیح طریقہ
سوال : کسی کا انتقال ہوجائے تو لوگ ان کے پاس جاکر پرسہ دیتے ہیں، ان سے ملتے ہیں ، معانقہ کرتے ہیں ، میں یہ جاننا چاہتا ہوں کہ شریعت میں پرسہ دینے کا طریقہ کیا ہے ۔ لوگ جس طرح گلے ملتے ہیں اس طرح پرسہ کے وقت ملنا ضروری ہے یا نہیں ؟
ولی احمد، شبلی گنج

جواب : تعزیت کا مطلب یہ ہوتا ہے کہ میت کے قریبی رشتہ داروں کو جو تکلیف میں ہوتے ہیں صبر کی تلقین کرنا تسلی دینا اور دلاسہ دینا اور یہ شرعاً مستحب ہے۔ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا : من عزی أخاہ بمصیبۃ کساہ اللہ من حلل الکرامۃ یوم القیامۃ ۔ ترجمہ : جو شخص اپنے بھائی کو کسی مصیبت میں دلاسہ دے تو اللہ تعالیٰ اس کو قیامت کے دن عزت و کرامت کے لباس سے سرفراز فرمائے گا۔
تعزیت میں دو چیزیں ملحوظ ہوتی ہیں، مرحوم کے رشتہ داروں کو صبر کی تلقین کرنا ‘ دلاسے دینا اور دوسرا مرحوم کی مغفرت کے لئے دعائیں کرنا : یہی تعزیت ہے۔ معانقہ ضروری نہیں، تاہم تعزیت کے وقت مصافحہ کرنا در حقیقت ان سے ہمدردی کا اظہار کرنا ہوتا ہے ۔ اس میں شرعاً کوئی حرج نہیں ہے۔ ردالمحتار جلد 2 صفحہ : 260 مطبعہ دارالفکر بیروت میں ہے : والتعزیۃ ان یقول : اعظم اللہ اجرک ‘ وأحسن عزاء ک و غفرلمیتک۔

شب جمعہ انتقال کی بناء سوال در قبر سے استثنیٰ
سوال : آپ سے دریافت کرنا یہ ہے کہ میری والدہ کا شب جمعہ انتقال ہوا، اور جمعہ کی نماز کے بعد نماز جنازہ ادا کی گئی اور عصر سے قبل ہی تدفین عمل میں آئی۔ مجھ سے بعض حضرات نے کہا کہ جمعہ کے دن انتقال کرنے والوں کو قبر کا عذاب نہیں ہوتا، حتی کہ ان سے قبر میں سوال و جواب بھی نہیں ہوتے۔ میں نے ایک روایت میں پرھا بھی ہے کہ جمعہ کے دن وفات پانے والے عذاب قبر سے محفوظ رہیں گے لیکن آپ سے معلوم کرنا یہ ہے کہ ان سے سوال و جواب ہوگا یا نہیں ؟
فضل احمد ، کچی باؤلی
جواب : قبر میں سوال و جواب برحق ہے، البتہ بعض حضرات سوال و جواب سے مستثنی رہیں گے ۔ ان میںایک وہ شخص بھی ہے جس کا انتقال شب جمعہ یا جمعہ کے دن ہوا ہو۔ ردالمحتار جلد 2 ص : 208 مطبوعہ دارالفکر بیروت مطلب : ثمانیۃ لایسا لون فی قبور ھم میں ہے : ثم ذکر ان من لایسال ثمانیۃ : الشھید‘ والمرابط ‘ والمطعون والمیت زمن الطاعون بغیرہ اذا کان صابرا محتسبا‘ والصدیق والاطفال والمیت یوم الجمعہ او لیلتھا والقارئی کل لیلۃ تبارک الملک و بعضھم ضم الیھا السجدۃ والقاری فی مرض موتہ قل ھو اللہ احد۔

جائیداد کی تقسیم
سوال : میرے شوہر کا انتقال ہوگیا ، مجھ کو تین لڑکے اور دو لڑکیاں ہیں۔ مرحوم کی کچھ جائیداد اور بینک میں جمع شدہ رقم ہے ۔ میں مرحوم کا متروکہ تقسیم کردینا چاہتی ہے ۔ شرعی لحاظ سے کس کو کتنا حصہ ملے گا ۔ تاکہ کسی کی حق تلفی نہ ہو۔
ریحانہ پروین، ملک پیٹ
جواب : تمام متروکہ مرحوم سے اولاً تجہیز و تکفین کے مصارف وضع کر کے جس نے خرچ کئے ہیں اس کو دیئے جائیں، پھر مرحوم کا قرض اور بیوی کا زر مہر واجب الادا ہو تو ادا کیا جائے ، اس کے بعد مرحوم نے کسی غیر وارث کے حق میں کوئی وصیت کی ہو تو بقیہ مال کے تیسرے حصے سے اس کی تکمیل کی جائے ۔ بعد ازاں جو باقی رہے اس کے جملہ چونسٹھ (64) حصے کر کے بیوی کو آٹھ (8) تینوں لڑکوں کو فی کس چودہ (14) دونوں لڑکیوں سے ایک کو سات (7) حصے دیئے جائیں۔