مہذب!

انور مسعودانورؔ

ذرا سا سونگھ لینے سے بھی انورؔ
طبیعت سخت متلانے لگی ہے
مہذب اِس قدر میں ہوگیا ہوں
کہ دیسی گھی سے بو آنے لگی ہے
………………………
(شاعر نامعلوم )    مرسلہ : منور حسین ہاشمی
نیا بیوپار…!
عزت ، شہرت ، نوکر چاکر بنگلہ موٹر کار
گوری باہیں ، کالی زلفیں چمکیلے رُخسار
چلتے ساغر، ڈھلتے آنچل نوٹوں کا انبار
اس دھندے کے آگے یارو سب دھندہ بیکار
سب سے اچھا سب سے پیارا رشوت کا بیوپار
چھوٹا موٹا افسر ہوں دیکھو میری شان
اوروں کے بنگلے سے بڑا ہے میرے گھر کا لان
سولہ مسالے کا کھاتا ہوں ہرلمحہ ایک پان
رات کو اکثر کوٹھا ، زینہ ، پائل کی جھنکار
سب سے اچھا سب سے پیارا رشوت کا بیوپار
اونچے لوگوں سے مل کر کرلیتا ہوں میں کام
رشوت دینے والے خود آتے ہیںزیردام
آج تو ہے چوبارہ اپنا کل جو ہو انجام
جھوٹ کی ہے یہ ساری دنیا سچ کو ٹھوکر مار
سب سے اچھا سب سے پیارا رشوت کا بیوپار
بن گاڑی کا پیسہ ہے رشوت کی سوغات
کوئی نہیں جھٹلاسکتا یہ سو باتوں کی ایک بات
اس کے دم سے بن جاتی ہے بھور اندھیری رات
جس نے اس کو دل لگایا اس کا بیڑہ پار
سب سے اچھا سب سے پیارا رشوت کا بیوپار
اس کی بدولت خیر سے ہم تو حج بھی کرکے آئے
کسٹم کی آنکھوں سے بچاکر سونا چاندی لائے
ایک کیا جو خرچ کبھی تو اس کے چار بنائے
ظاہر میں بھولے بھالے باطن میں ہوشیار
سب سے اچھا سب سے پیارا رشوت کا بیوپار
………………………
کافی دن پہلے …!
٭  ایک عورت نے دیکھا کہ ایک اجنبی عورت نہایت ہی بے باکی اور بے تکلفی کے ساتھ اس کے گھر میں گھس کر اِدھر اُدھر گھوم رہی ہے تو اسے بہت غصہ آیا اور اُس نے اجنبی عورت سے تیکھے لہجے میں کہا آپ تو اس طرح یہاں گُھوم رہی ہیں جیسے اس گھر کی مالک آپ ہی ہوں ؟
اجنبی عورت بولی بلاشبہ میں ہی مالک ہوں ، میرے مرنے سے کافی دن پہلے میرے شوہر نے یہ گھر میرے نام کردیا تھا۔
رشید شوق۔ بانسواڑہ
………………………
تم سے اچھی تو …!
٭  ایک فقیر کنجوس شخص کے گھر پر بھیک مانگنے کیلئے پہونچا … کنجوس نے اُسے دور سے ہی اپنے گھر کے سامنے آتا ہوا دیکھ کر کہا ’’میاں آگے جاؤ …!‘‘
فقیر نے کہا : ’’کیا کنجوس آدمی ہو تم ، تم سے اچھی تو تمہاری بیوی ہے جس نے گزشتہ ہفتے مجھے اچھی ایک قمیص پہننے کیلئے دی ‘‘۔
اتنا سننا ہی تھا کہ کنجوس زور زور سے چلانے لگا : بیگم ! بیگم ! کہاں ہو تم ، ذرا دروازہ میں تو آؤ ،یہ فقیر کیا کہہ رہا ہے کہ تم نے اُس کو میری ایک قمیص پہننے کیلئے دی ؟
بیوی کافی سمجھ دار تھی اُس نے بات بناتے ہوئے کہا : وہ تمہاری قمیص تھوڑی ہی تھی ، تم کیوں پریشان ہورہے ہو وہ بازو مکان والوں کی قمیص تھی جو ہوا سے اُڑ کر ہمارے مکان میں آگری تھی اور میں نے اُسے اس فقیر کو دیدیا تھا ۔
سالم جابری ۔ آرمور
………………………
بدل دونگا!
شوہر :  ’’اگر اس ملک کو چلانے کی باگ ڈور میرے ہاتھ میں آجائے تو میں سب کچھ بدل دونگا‘‘۔
بیوی :  سب کچھ بعد میں بدل لینا سب سے پہلے تم اپنا پائجامہ بدل لو ، صبح سے اُلٹا پہنے ہوئے گھوم رہے ہو‘‘۔
ڈاکٹر گوپال کوہیرکر ۔ نظام آباد
………………………
میں تو سچ کہا …!
٭  ایک عورت نے دکاندار سے شکایت کی: تم نے ساڑی کی ایک سال کی گیارنٹی دی تھی مگر یہ تو صرف چار ماہ میں      خراب ہوگئی۔
دکاندار نے کہا : محترمہ ! میں نے تو سچ کہا تھا ، یہ ساڑی ایک سال چلی ہے ۔ 4 ماہ آپ کے پاس رہی اور 8 ماہ میرے پاس …!
سید شمس الدین مغربی ۔ریڈہلز
………………………