مہابھارت اور قدیم ہندو عمارتوں پر کتاب کی اشاعت کیلئے ریاست حیدرآباد کا مالی تعاون

ڈاکٹر سید داؤد اشرف آرکائیوز کے ریکارڈ سے
ریاست حیدرآباد یا مملکت آصفیہ کے آخری حکمران میر عثمان علی خان آصف سابع کو علم و ادب سے گہری دلچسپی تھی ۔ اس گہری دلچسپی کے باعث وہ علمی ، ادبی اور مذہبی کتابوں کی تکمیل اور اشاعت کے لئے بڑی فراخ دلی کے ساتھ مالی امداد منظور کیا کرتے تھے ۔ اس سلسلے میں انھوں نے کبھی تعصب اور تنگ نظری کا مظاہرہ نہیں کیا اور نہ کبھی کوئی امتیاز روا رکھا ۔ جہاں انھوں نے سیرۃ النبی اور شاہنامہ اسلام کی تکمیل اور اشاعت کے لئے خطیر مالی امداد منظور کی وہیں انھوں نے اکثریتی فرقے کی دو سب سے بڑی اور مقبول ترین کتابوں رامائن اور مہابھارت میں سے ایک کتاب مہابھارت کی اشاعت کے لئے گیارہ سال تک مالی امداد کی منظوری عطا کی اور حیدرآباد کی قدیم ہندو عمارتوں سے متعلق ایک کتاب شائع کرنے کے لئے مطلوبہ مالی امداد ہی نہیں دی بلکہ ہر طرح کا تعاون کا پیش کش بھی کیا ۔اس مضمون میں متذکرہ بالا دو کتابوں میں رقمی امداد دینے کے لئے جو سرکاری کارروائیاں ہوئی تھیں ان کارروائیوں کا مختصر خلاصہ ذیل میں پیش کیا جارہا ہے ۔

پونا بھنڈارکر اورینٹل ریسرچ انسٹی ٹیوٹ ، سنسکرت زبان و ادب اور قدیم ہندوستانی ثقافت کے تحقیقی کاموں کے لئے مختص رہا ہے ۔ اس انسٹی ٹیوٹ کے سکریٹری نے مہابھارت کی اشاعت اور انسٹی ٹیوٹ میں ایک گیسٹ ہاؤس کی تعمیر کے لئے مالی امداد دینے کی درخواست روانہ کی ۔ اس درخواست پر کارروائی جاری تھی کہ اس سلسلے میں انسٹی ٹیوٹ کی جانب سے امداد منظور کرنے کے لئے ایک اور درخواست بھیجی گئی ۔ ان درخواستوں پر ناظم تعلیمات نے اس رائے کا اظہار کیا کہ اگر آصف سابع مناسب خیال فرمائیں تو ریاست حیدرآباد کی جانب سے پانچ سو روپے کی مالی امداد منظور کی جاسکتی ہے ۔ جس طرح ریاست میسور کی جانب سے منظور کی گئی ہے ۔ انھوں نے یہ بھی لکھا کہ محکمہ تعلیمات کے موازنے میں گنجائش نہیں ہے ۔ اگر آصف سابع امداد دینا مناسب خیال فرمائیں تو امداد زائد از موازنہ منظور کی جائے ۔ معتمد تعلیمات نے ناظم تعلیمات کی رائے سے اتفاق کیا ۔ صدر المہام فینانس (اکبر حیدری) نے یہ رائے ظاہر کی کہ مہاربھارت ایک معرکتہ الآرا تصنیف ہے جو ہندوستانی نقطہ نظر سے ہر آئینہ ایک قومی کتاب ہے ۔ اس کی اشاعت کی سرپرستی کی تحریک پر ہمدردانہ طور پر غور کرنا مناسب ہوگا ۔ انھوں نے لکھا کہ حال ہی میں انسٹی ٹیوٹ کے ارباب ذمہ دار نے ان سے مل کر انسٹی ٹیوٹ میں طلبہ کے قیام کے لئے ایک گیسٹ ہاؤس کی تعمیر اور مہابھارت کی اشاعت کی شدید ضرورت ظاہرکی تھی ۔ اکبر حیدری نے ان امور کی تائید کرتے ہوئے لکھا کہ گیسٹ ہاؤس کی تعمیر کے لئے پچیس ہزار روپے کی یکمشت امداد اس شرط سے دی جائے کہ یہ عمارت آصف سابع کے نام سے موسوم کی جائے اور مہابھارت کی اشاعت کے لئے دس سال تک سالانہ دو ہزار پانچ سو روپے کی امداد دی جائے ۔ باب حکومت (کابینہ) نے اپنی قرارداد میں گیسٹ ہاؤس کی تعمیر کے لئے پچیس ہزار کلدار اور مہابھارت کی اشاعت کے لئے ایک ہزار کلدار سالانہ دس سال تک دینے کی سفارش کی ۔ آصف سابع نے باب حکومت کی رائے سے اتفاق کیا اور فرمان مورخہ 4 جمادی الاول 1351 ھ م 6 ستمبر 1932 ء کے ذریعے مہابھارت کی اشاعت کے لئے دس سال تک ایک ہزار کلدار سالانہ اور گیسٹ ہاؤس کی تعمیر کے لئے پچیس ہزار کلدار کی امداد منظور کی ۔ گیسٹ ہاؤس کی تعمیر کے سلسلے میں مزید امداد کے لئے درخواستیں روانہ کی گئیں جس پر آصف سابع نے تعمیر مکمل کرنے کے لئے مزید ساڑھے سات ہزار کلدار کی امداد منظور کی ۔

مہابھارت کی اشاعت کی غرض سے بذریعہ فرمان دس سال کے لئے ایک ہزار کلدار سالانہ کی امداد منظور کی گئی تھی ۔ اس فرمان کی تعمیل میں امداد دس سال تک دی جاتی رہی ۔ جب یہ دس سالہ مدت ختم ہونے کو تھی تو انسٹی ٹیوٹ کے سکریٹری نے اس کام کی رپورٹ پیش کرتے ہوئے استدعا کی کہ منظورہ امداد کی مدت قریب الختم ہے لہذا ادارے کی ترقی کے مدنظر منظوری سالانہ امداد میں مزید دس سال کی توسیع منظور فرمائی جائے ۔ اس درخواست پر محکمہ فینانس نے لکھا کہ موجودہ حالات کے پیش نظر محکمہ فینانس کے لئے اس رقم کا زائد از موازنہ فراہم کرنا دشوار ہے ۔ اس لئے مناسب ہوگا کہ جو رقم بھی باب حکومت تجویز کرے اس کی ادائی محکمہ تعلیمات یا عثمانیہ یونیورسٹی کے بجٹ سے ہو ۔ باب حکومت (کابینہ) نے اپنی قرارداد میں سفارش کی کہ عثمانیہ یونیورسٹی کی بچت سے پانچ سو کلدار کی امداد ایک سال کے لئے عطا کی جائے ۔ آصف سابع نے باب حکومت کی سفارش سے اتفاد کرتے ہوئے بذریعہ فرمان مورخہ 25 رجب 1361ھ م 19 اگست 1942 ء مہابھارت کی اشاعت کی غرض سے مزید ایک سال کے لئے پانچ سو کلدار کی امداد منظور کی ۔

مہابھارت کی اشاعت کے لئے ساڑھے دس ہزار کلدار کی رقم گیارہ سال کی مدت یعنی 1932 تا 1942 کے دوران جاری کی گئی تھی ۔ یہ رقم اگر آج ادا کی جائے تو معمولی سمجھی جائے گی لیکن اس اس دور کے ساڑھے دس ہزار کلدار آج کے لاکھوں روپیوں سے کم نہ تھے ۔ اس طرح صرف ایک کتاب کی اشاعت کے لئے آج کی قدرِزر کے حساب سے لاکھوں روپیوں کی امداد آج کے جمہوری دور کی علم دوستی اور علم و ادب کی سرپرستی کے پیمانوںسے بھی غیر معمولی اور فیاضیانہ تسلیم کی جائے گی اور اس فیاضی کی مثال ملک کے کسی دوسرے حصے میں مشکل ہی سے ملے گی ۔

لندن سے مسرز براؤن اور رچرڈز نے حکومت ریاست حیدرآباد کے نام ایک یادداشت روانہ کی تھی ، جس میں انھوں نے لکھا تھا کہ انڈیا سوسائٹی لندن کی جانب سے حیدرآباد دکن کی قدیم ہندو عمارتوں پر ایک کتاب کی اشاعت عمل میں آنے والی ہے لہذا حکومت حیدرآباد سے استدعا ہے کہ اس کتاب کی اشاعت کے لئے ایک سو اڑتالیس (148) پاؤنڈ کی امداد منظور کی جائے ۔ اس یادداشت میں لکھا گیا تھا کہ اس کتاب کی اشاعت کا فائدہ حیدرآباد کے لئے ظاہر ہے ۔ وہ اس طرح کہ یہ کتاب حکومت ریاست حیدرآباد کی مالی اعانت سے شائع ہوگی اور اس ادارے کی تصنیف کی حیثیت سے منظر عام پر آئے گی جو ہندوستانی فنون میں دلچسپی بڑھانے کے لئے کام کررہا ہے ۔ انھوں نے یہ بھی لکھا کہ انڈیا سوسائٹی لندن کو اس بات کا اعتراف ہے کہ ہندوستان کا ایک اہم مسلمان شاہی خاندان ہندو اور بدھ مت کے فنی نمونوں کے تحفظ کے لئے اعانت کرچکا ہے اور اب یہ بات اس کتاب کے ذریعے طلبہ ، مبصرین اور عوام پر ظاہر ہوگی ۔

ناظم آثار قدیمہ (غلام یزدانی) سے جب اس یادداشت کے بارے میں رائے طلب کی گئی تو انھوں نے لکھا کہ محکمہ آثار قدیم کو ہر ایسی تحریک سے پورا اتفاق ہے جس سے ریاست حیدرآباد کا علوم و فنون کی جانب سرپرستانہ اور غیر متعصباہ پالیسی کا اظہار ہوتا ہے ۔ انھوں نے مزید لکھا کہ انڈیا سوسائٹی لندن کی جانب سے کتاب کے نصف اخراجات ایک سو پاؤنڈ مانگے گئے ہیں اور اڑتالیس 48 پاؤنڈ فوٹو وغیرہ کے لئے طلب کئے گئے ہیں ۔ چونکہ محکمہ آثار قدیمہ میں فوٹووں کا وافر ذخیرہ موجود ہے اور ریاست کی کوئی عمارت ایسی نہیں ہے جس کے متعدد فوٹو موجود نہ ہوں ۔ اس لئے محکمہ آثار قدیمہ کی رائے میں فوٹوؤں کا یہ خرچ غیر ضروری معلوم ہوتا ہے ۔ اگر انڈیا سوسائٹی لندن ان آثار کی فہرست جن کے فوٹو اس کو مطلوب ہیں محکمہ آثار قدیمہ حکومت حیدرآباد کو بھیج دے تو فوٹو بآسانی یہاں سے روانہ کردئے جائیں گے ۔ علاوہ ازیں محکمہ آثار قدیمہ میں بلاکوں کا بھی ایک بڑا ذخیرہ موجود ہے ان کو بھی مستعار دیا جاسکتا ہے اور اس طرح کتاب کی طباعت کے اخراجات میں معتدبہ تخفیف ہوجائے گی ۔ معتمد آثار قدیمہ نے ناظم آثار قدیمہ کی سفارش پر لکھا کہ ایک سو پاؤنڈ کی منظوری مناسب ہے اور اس کی ادائی محکمہ آثار قدیمہ کی گنجائش سے ہوسکے گی ۔ محکمہ فینانس اور صدر المہام آثار قدیمہ نے ناظم آثار قدیمہ کی رائے سے اتفاق کیا ۔ باب حکومت نے اپنی قرارداد میں انڈیا سوسائٹی لندن کی مجوزہ کتاب کے لئے ایک سو (100) پاؤنڈ عطیہ دینے کی سفارش کی ۔ اس سلسلے میں ایک عرض داشت کے ذریعے اس کارروائی سے متعلق متذکرہ بالا تفصیلات آصف سابع کے احکام کے لئے روانہ کی گئیں ۔ آصف سابع نے بذریعہ فرمان مورخہ 8 جولائی 1934 ء مذکورہ کتاب کی اشاعت کے لئے ایک سو (100) پاؤنڈ کی امداد منظور کی ۔

متذکرہ بالا کارروائی سے یہ اندازہ ہوتا ہے کہ اگر اور بھی زیادہ مالی امداد طلب کی جاتی تو شاید اس درخواست کو بھی قبول کرلیا جاتا۔ انڈیا سوسائٹی کو ریاست حیدرآباد کی جانب سے جو مالی امداد منظور کی گئی تھی اس بارے میں یہ کہا جاسکتا ہے کہ اس ادارے کو بڑی بھاری رقم امداد کے طور پر نہیں دی گئی تھی ، لیکن اس سلسلے میں دو باتوں کو پیش نظر رکھنا ضروری ہے ۔ ایک تو یہ کہ رقمی امداد آج سے تقریباً پون صدی قبل دی گئی تھی جبکہ اس وقت روپے کی قدر میں زمین آسمان کا فرق ہوگیا ہے ۔ اس زمانے کی ہزاروں کی امداد آج کے لاکھوں کی امداد پر بھاری ہے ۔ دوسرے یہ کہ اس ادارے نے جوامداد مانگی تھی حکومت حیدرآباد کی جانب سے اتنی ہی امداد منظور کی گئی تھی اور مطلوبہ امداد میں کوئی کمی نہیں کی گئی تھی ، جبکہ عام طور پر حکومتوں کا یہ رویہ ہوتا ہے کہ جتنی امداد کے لئے درخواست کی جاتی ہے وہ مکمل طور پر نہیں جزوی طور پر منظور کی جاتی ہے ۔ البتہ یہ جزو چھوٹا بڑا ہوسکتا ہے جس کا انحصار غرض و غایت اور مقصد کی اہمیت اور افادیت پر ہوا کرتا ہے ۔