مگر پتہ تو چلے آستیں میں کیا کیا ہے

کرناٹک …نرم ہندوتوا بمقابلہ گرم ہندوتوا
ہر جگہ لیک ہے… چوکیدار ویک ہے

رشیدالدین
کرناٹک میں انتخابی بگل بج چکا ہے ۔ ملک میں کانگریس پارٹی کا واحد مضبوط قلعہ کو ڈھانے میں بی جے پی کامیاب ہوگی یا پھر سدا رامیا بھگوا لہر کے وجئے رتھ کو روک پائیں گے ، اس کا فیصلہ 12 مئی کو ہوجائے گا ۔ شمال مشرقی ریاستوں خاص طور پر تریپورہ میں سی پی ایم کے قلعہ کو فتح کرنے کے بعد بی جے پی کے حوصلے بلند ہیں ۔ ملک کی 29 ریاستوں میں 21 میں بی جے پی برسر اقتدار ہے اور اس کا اگلا نشانہ کرناٹک اور کیرالا ہیں۔ کانگریس اور کمیونسٹ مکت بھارت کا نعرہ دیا گیا اور نعرہ کے سچ ہونے کیلئے یہی دو ریاستیں رکاوٹ ہیں۔ سدا رامیا بظاہر ایک مضبوط چیف منسٹر دکھائی دے رہے ہیں لیکن مودی ۔ امیت شاہ جوڑی کے آگے ٹک پانا کسی چیلنج سے کم نہیں۔ تریپورہ میں مانک سرکار جیسے چیف منسٹر کو بھگوا لہر اڑا لے گئی ، حالانکہ مانک سرکار کا شمار ملک کے ایسے واحد چیف منسٹر کی حیثیت سے ہوتا ہے جن کا کوئی ذاتی مکان نہیں ہے۔ اس قدر سادہ اور عوام کے درمیان رہنے والے چیف منسٹر کو عوام نے بی جے پی کی جملہ بازی کا شکار ہوکر اقتدار سے بیدخل کردیا۔ سدا رامیا اس قدر مقبول اور بے داغ نہیں ہیں۔ کانگریس کے آخری قلعہ کو ڈھانے کیلئے امیت شاہ ۔نریندر مودی کی جوڑی کچھ بھی کرسکتی ہے ۔ ان کی جملہ بازی اور بولیوں کا مقابلہ کرنا آسان نہیں ہے ۔ انتخابی تواریخ کے اعلان کے ساتھ ہی کانگریس اور بی جے پی نے حکمت عملی کی تیاریوں کا آغاز کردیا ہے۔ دیگر ریاستوں کی طرح ترقی کے ایجنڈہ پر انتخابات کا کوئی امکان نہیں ۔ انتخابات سے قبل بی جے پی فرقہ وارانہ حساس اس ریاست میں صورتحال بگاڑنے کی کوشش کر رہی ہے۔ جارحانہ فرقہ پرستی کے ایجنڈہ کے ذریعہ بی جے پی کے بکھرے ہوئے کیڈر کو متحد کیا جاسکتا ہے ۔ اگر یوں کہا جائے تو غلط نہ ہوگا کہ کرناٹک میں نرم ہندوتوا بمقابلہ گرم ہندوتوا الیکشن ہے۔ کانگریس کے صدر راہول گاندھی نے گجرات کی طرح کرناٹک میں بھی مندروں کی یاترا کے ذریعہ ہندو رائے دہندوں کو راغب کرنے کی کوشش کی ہے۔

گجرات میں 26 سے زائد مندروں کے درشن کرتے ہوئے بی جے پی کے کٹر ہندوتوا نظریہ کا مقابلہ کرنے کی کوشش کی گئی ۔ مندروں کے درشن کے باوجود گجرات میں حکومت نہیں بن سکی۔ اب کرناٹک میں اسی تجربہ کو دہرانے کی کوشش کی جاسکتی ہے۔ پھر بھی حکومت بچانا بچوں کا کھیل نہیں ہے۔ ابھی تو انتخابی تاریخوں کا اعلان ہوا ۔ انتخابی مہم کے آغاز کے ساتھ ہی دونوں جانب سے مذہبی کھیل کا آغاز ہوگا۔ جنودھاری کانگریس کا ہندوراشٹر کی پرچارک بی جے پی سے راست مقابلہ ہے ۔ سیکولرازم بمقابلہ فرقہ پرستی کا ماحول اب نہیں رہا۔ کانگریس خود کو سیکولر کہلانے میں گویا شرم محسوس کر رہی ہے۔ یوں تو مقابلہ دونوں طاقتوں کے درمیان ہے پھر بھی سیکولر ووٹ فیصلہ کن موقف رکھتے ہیں۔ بی جے پی کو یقین ہے کہ تریپورہ میں جس طرح رائے دہندوں کی کمیونسٹ ذہنیت کو بدلنے میں کامیابی ملی ، ٹھیک اسی طرح کرناٹک کے عوام کے ذہنوں کو موڑ دیا جائے گا۔ سدا رامیا سے مقابلہ کے سلسلہ میں بی جے پی کے داخلی خوف کا اندازہ اس وقت ہوا جب امیت شاہ نے یدی یورپا کی حکومت کو اب تک کی سب سے کرپٹ اور بدعنوان حکومت قرار دے دیا جبکہ وہ سدا رامیا کا نام لینا چاہتے تھے ۔ امیت شاہ کو یہ احساس بھی نہیں ہوا کہ یدی یورپا ان کے بغل میں بیٹھے ہیں۔ اپنی پارٹی کی حکومت اور چیف منسٹرکو بدعنوان کہنا لغزش زبان تھی یا اظہار حقیقت اس کا فیصلہ عوام کریں گے ۔ کرناٹک میں مقابلہ کے سلسلہ میں بی جے پی خوفزدہ دکھائی دے رہی ہے۔

یہی وجہ ہے کہ امیت شاہ کے جلسہ عام میں ان کی تقریر کا الٹا ترجمہ کردیا گیا۔ سدا رامیا کے بجائے نریندر مودی کا نام لیتے ہوئے ترقیاتی کاموں میں ناکامی کا ذمہ دار قرار دیا گیا۔ ایسا محسوس ہوتا ہے کہ امیت شاہ ہی نہیں بلکہ کرناٹک کے بی جے پی قائدین پر خوف سوار ہے اور وہ عوام کے روبرو غلطیاں کر رہے ہیں۔ کرناٹک میں راست ٹکراؤ کی صورتحال میں جنتادل سیکولر اور مسلم جماعتوں کا رول اہمیت کا حامل رہے گا۔ اگر یہ پارٹیاں زائد نشستوں پر مقابلہ کرتی ہیں تو اس کا صاف مطلب ہوگا کہ نرم ہندوتوا کو ہراکر گرم ہندوتوا کو کامیاب کیا جائے۔ ووٹ کی تقسیم کا راست فائدہ بی جے پی کو ہوگا، جس طرح اترپردیش اور گجرات میں ہوا۔ معمولی ووٹوں کی اکثریت سے بی جے پی کو کامیابی حاصل ہوئی۔ دیکھنا یہ ہے کہ ووٹ کی تقسیم روکنے کیلئے سیکولر جماعتیں کیا حکمت عملی اختیار کرتی ہیں۔ الیکشن کمیشن کی جانب سے شیڈول کے اعلان کے بعد کرناٹک میں 18 لاکھ مسلم رائے دہندوں کے نام ووٹر لسٹ سے غائب ہونے یا ان کے پاس ووٹر شناختی کارڈ نہ ہونے کا انکشاف ہوا۔ عام طور پر ووٹر لسٹ کی جانچ کے موقع پر رائے دہندوں کی تعداد میں اضافہ یا کمی کوئی نئی بات نہیں لیکن ایک مخصوص طبقہ کے لاکھوں ناموں کو حذف کرنا کسی منصوبہ بند سازش کا حصہ دکھائی دیتا ہے۔ بی جے پی اچھی طرح جانتی ہے کہ مسلمان کانگریس کا ساتھ دیں گے ، لہذا ووٹ بینک متاثر کرنے الیکشن کمیشن کے ذریعہ ناموں کو حذف کرنے کا اندیشہ ہے ۔ جمہوری انداز میں مقابلہ کی جب طاقت اور جرات نہ ہو تو اس طرح کے غیر جمہوری اور غیر قانونی حربوں کے ذریعہ مخصوص فرقہ کو رائے دہی سے دور رکھنے کی کوشش کی جاتی ہے۔ مسلمانوں کے نام ووٹر لسٹ سے غائب ہونے کے باوجود سیکولر ووٹ کی عدم تقسیم بی جے پی کے خواب کو چکنا چور کرسکتی ہے۔ دوسری طرف ملک میں مخالف بی جے پی محاذ کی تیاریاں جاری ہیں۔ ممتا بنرجی اور شرد پوار نے اس خصوص میں پہل کی ہے۔ اترپردیش میں ایس پی۔بی ایس پی اتحاد سے نیا حوصلہ ملا ہے۔ یو پی کے اتحاد نے بی جے پی سے لوک سبھا کی دو نشستیں چھین لی جس میں یوگی ادتیہ ناتھ کی خالی کردہ لوک سبھا نشست شامل ہیں۔ ملک میں عوام کا رجحان کبھی بھی فرقہ پرست طاقتوں کے حق میں نہیں رہا۔

نریندر مودی صرف 31 فیصد ووٹ کے ساتھ ملک پر راج کر رہے ہیں جبکہ 69 فیصد ووٹ دوسری جماعتوں کو حاصل ہوئے لیکن وہ جماعتیں متحد نہیں۔ سیکولر جماعتوں کے انتشار کا بی جے پی کو فائدہ ہوا۔ سیکولر طاقتوں کا عجیب حال ہے ، جب اقتدار سے محروم ہوجائیں تو اتحاد یاد آتا ہے لیکن اقتدار ملتے ہی پھر اختلافات۔ پہلے یہ طئے کرلیں کہ مخالف بی جے پی محاذ اصولوں کی بنیاد پر ہوگا یا پھر محض اقتدار کیلئے موقع پرستانہ ؟ اگر ملک کو فرقہ پرستی سے نجات دلانے کا مقصد ہو تو پھر اقل ترین مشترکہ پروگرام اور کامن ایجنڈہ تیار کیا جائے۔ محض چند نشستوں کیلئے اتحاد دیرپا ثابت نہیں ہوگا۔ مخالف بی جے پی جماعتوں میں اتحاد ہوگا یا پھر کانگریس کو بھی اتحاد سے دور رکھتے ہوئے تھرڈ فرنٹ قائم ہوگا ، اس کا فیصلہ ابھی باقی ہے ۔ سیاسی مبصرین کا کہنا ہے کہ مخالف بی جے پی و کانگریس محاذ کی بات کرنا دراصل بی جے پی کی مدد کے مترادف ہے۔ کانگریس کے بغیر مخالف بی جے پی مستحکم محاذ تیار نہیں ہوگا۔ بی جے پی کے بعض مخالف مودی قائدین جیسے یشونت سنہا اور شتروگھن سنہا کھل کر آچکے ہیں۔

ملک میں ان دنوں لیک کا دور چل رہا ہے ۔ حکومت سے قربت رکھنے والے صنعتکار بینکوں کو لوٹ کر ملک سے فرار ہوگئے اور ملک کا چوکیدار خواب غفلت کا شکار رہا۔ اسی طرح حکومت کے معاملات میں بھی چوکیدار کی چوکسی پر سوال اٹھ رہے ہیں۔ نریندر مودی نے انتخابات سے قبل عوام سے اپیل کی تھی کہ انہیں وزیراعظم نہیں بلکہ چوکیدار بنائیں۔ کیا ہی بہتر ہوتا کہ وہ چوکیدار کے بجائے وزیراعظم بنانے کا مطالبہ کرتے کیونکہ کوئی بھی کام ملک کے چوکیدار کی طرح نہیں ہے۔ فیس بک ڈیٹا لیک ، آدھار لیک ، ایس ایس سی لیک، الیکشن تاریخ لیک اور تازہ ترین سی بی ایس سی لیک نے چوکیدار کو ناکام ثابت کردیا ہے۔ ملک میں ہر جگہ لیک ہے اور ہمارا چوکیدار ویک ہے۔ کانگریس کے صدر راہول گاندھی نے اس بارے میں دلچسپ ٹوئیٹ کیا جو سوشیل میڈیا پر کافی وائرل ہوا۔ کرناٹک انتخابات سے عین قبل کانگریس نے خود کو مخالف ہندو پارٹی کے الزام سے بچانے کیلئے کپل سبل کو بابری مسجد مقدمہ سے علحدہ کردیا۔ کپل سبل مقدمہ میں قدیم فریق ہاشم انصاری مرحوم کے فرزند اقبال انصاری کے وکیل تھے ، وہ گزشتہ ایک دہے سے بغیر کسی فیس کے بابری مسجد کا مقدمہ لڑ رہے تھے۔ بی جے پی نے کانگریس پر مخالف ہندو اور موافق مسلم پارٹی کا الزام عائد کیا جس سے بوکھلا کر پارٹی نے کپل سبل کو مقدمہ سے علحدگی کا مشورہ دیا۔ اتنا ہی نہیں انڈیا ٹوڈے کانکلیو میں سونیا گاندھی نے راجیو گاندھی کے ساتھ مندروں کے درشن کا بطور خاص حوالہ دیا۔ اس طرح کے اقدام سے کانگریس کا سیکولرازم کا مکھوٹا بے نقاب ہوچکا ہے۔ کرناٹک کی حکومت کو بچانے کیلئے کانگریس بی جے پی کے پروپگنڈہ کا شکار ہوگئی ۔ کانگریس کے دور میں مخالف مسلم فسادات سے کون انکار کرسکتا ہے؟ علیگڑھ مسلم یونیورسٹی کا اسلامی کردار کانگریس دور میں ختم کردیا گیا۔

پارلیمنٹ میں دو تہائی اکثریت کے باوجود کانگریس نے دستور سے دفعہ 44 کو حذف نہیں کیا جس کا فائدہ اٹھاکر بی جے پی آج یکساں سیول کوڈ کے نفاذ کی تیاری کر رہی ہے۔ فرقہ پرستی سے مقابلہ کیلئے نرم ہندوتوا کا مظاہرہ یقیناً افسوسناک ہے۔ اگر کانگریس کو سیکولرازم عزیز ہوتا تو وہ اقتدار کی پرواہ نہیں کرتی۔ وی پی سنگھ نے بابری مسجد کے مسئلہ پر سیکولرازم کے دفاع کے لئے حکومت کے زوال کی پرواہ نہیں کی لیکن بی جے پی سے مفاہمت سے انکار کردیا تھا۔ کانگریس قائدین کو پارٹی کے سیکولر موقف کا از سر نو جائزہ لینا ہوگا۔ سونیا گاندھی نے کانکلیو میں یہاں تک کہہ دیا کہ ان کی پارٹی میں ہندو قائدین کی اکثریت ہے۔ آخر سونیا گاندھی اور راہول گاندھی پارٹی کو کس رخ پر لے جانا چاہتے ہیں۔ اقتدار کیلئے سیکولرازم اور دستور سے سمجھوتہ ملک کیلئے تباہ کن ثابت ہوگا۔ راحت اندوری نے سیاستدانوں پر کچھ اس طرح تبصرہ کیا ہے ؎
تمہارے ہاتھ کا گلدستہ آرہا ہے نظر
مگر پتہ تو چلے آستیں میں کیا کیا ہے