مکہ معظمہ میں مسلم ورلڈ لیگ کی بامقصد کانفرنس

غضنفر علی خان
مکہ کے مقدس شہر میں گزشتہ اتوار کو مسلم ورلڈ لیگ نے ’’انسداد دہشت گردی اور اسلام‘‘ کے عنوان سے ایک کانفرنس منعقد کی جس میں عالمی سطح کے علماء ، زعما اور دانشوروں نے شرکت کی ۔ خاص طور پر سعودی عرب کے مفتی اعظم شیخ عبدالعزیز الشیخ نے اپنے خطاب میں کہا کہ دہشت گردی چند گمراہ اور خود فریبی میں مبتلا افراد کی کارستانی ہے۔ دہشت پسندانہ سرگرمیوں پر سخت تنقید کرتے ہوئے کہا کہ ’’بعض ممالک میں دہشت پسندوں اور گمراہ افراد اپنی غلط کاریوں اور مخالف اسلام سرگرمیوں کو اسلام کا نام دے رہے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ ’’اللہ ہی جانتا ہے کہ یہ منافقین جھوٹے ہیں‘‘۔ بے شک دہشت گردی کی اسلام میں کوئی گنجائش نہیں ، قتل غارتگری اور معصوم و بے تعلق لوگوں کو موت کے گھاٹ اتارنا اسلام میں جائز نہیں ہے ۔ اس کانفرنس کی سب سے اہم بات یہ تھی کہ مفتی اعظم شیخ عبدالعزیز الشیخ نے مسلم ممالک کو مشورہ دیا کہ وہ اپنے تعلیمی اداروں اور ذرائع ابلاغ کو اسلام کی صحیح تصویر پیش کرنے کے لئے وقف کردیں۔ یہ ایک دیرینہ ضرورت ہے جس کی جانب مفتی اعظم نے اشارہ کیا ہے جہاں تک ذرائع ابلاغ کا تعلق ہے وہ عالم اسلام میں اتنے موثر اور طاقتور نہیں ہیں کہ ساری دنیا میں اسلام کو رسوا کرنے والوں کی صحیح تصویر کشی کرسکے لیکن اس سمت میں کیونکہ ابھی تک کوئی موثر اور منظم کوشش نہیں ہوئی ہے اس لئے ’’دیر آید درست آید‘‘ کے مصداق اس سلسلہ فوری ا قدام کیا جانا چاہئے ۔ جہاں تک تعلیمی اداروں کا تعلق ہے وہ بھی اس ضمن میں بہت کچھ کرسکتے ہیں ۔ عراق اور شام میں داعش کی نازیبا اور غیر اسلامی سرگرمیوں کی وجہ آج یہ تصور پیدا ہوگیا ہے کہ دہشت گردی اہل اسلام کر رہے ہیں جس سے عالمی امن کو خطرہ لاحق ہوگیا ہے ۔ داعش ہو یا کوئی اور گروہ ہو وہ بہرحال محدود علاقہ تک ہی ہے۔ سوال یہ ہے کہ کس طرح سے ساری اسلامی برادری متحد ہوکر ان عناصر پر قابو پاسکتی ہے ۔

اس سلسلہ میں سب سے بڑا رول خود سعودی عرب ادا کرسکتا ہے کیونکہ سعودوی عرب کو دنیاوی اعتبار سے ہی مقدس نہیں سمجھا جاتا بلکہ دینوی لحاظ سے بھی یہ مسلمانوں کی امامت کرتا ہے ۔ اسلامی تحریک سعودی عرب سے شروع ہوتی ہے اس کو عالم اسلام کی بھرپور تائید حاصل ہوئی ہے ۔ ان دہشت پسند عناصر کی سرکوبی کا بہتر طریقہ یہ ہے کہ انہیں اسلامی معاشرہ سے الگ تھلگ کردیا جائے ۔ عالم عرب کے کسی بھی ملک میں انتہا پسند اور دہشت گرد مٹھی بھر ہی ہیں لیکن اپنی طاقت اور زور کے بل پر وہ پورے ملک میں اپنی مذموم سرگرمیوں کا بازار گرم کردیتے ہیں۔ تعلیمی اداروں کیلئے بھی بہت بڑا رول ہے کہ وہ دینی مدارس میں ایسا نصاب تعلیم مروج کریں جس سے ان اداروں کے فارغ ہونے والے طلبہ اسلام کی انتہائی متوازن تعلیمات کو عام کریں۔ یہ رائے کہ مسلمان دہشت گرد ہوتا ہے پورے طور پر ناقص اور سراسر غلط فہمی کی پیداوار ہے۔ ذرائع ابلاغ یقیناً تعمیری رول ادا کرسکتے ہیں۔ مسلم ممالک میں بہت سارے ایسے ممالک ہیں جن کے پاس وسائل اور ذرائع کی کوئی کمی نہیں ہے ۔ ذرائع ابلاغ کو فروغ دینا آج کے دور میں مشکل بھی نہیں رہا ۔ ایسے ذرائع ابلاغ پیدا کئے جانے چاہئے جو بالکلیہ طور پر خود محتار اور آزاد ہوں۔ اسلامی تعلیمات کو ان کے راست پس منظر میں پیش کرنے کی ضرورت ہے ۔

اسلام کی اس دور میں سب سے بڑی خدمت یہی ہوگی کہ اسلام کے نام پر دہشت گردی کرنے والوں کو بے نقاب کرتے ہوئے دنیا کو یہ بتایا جائے کہ اسلام کی تعلیمات میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ عفو و درگزر سب سے اچھا انتقام ہے۔ لیکن آج اس سچے دین کے نام پر قتل ہورہے ہیں ۔ دین کی ساری تاریخ میں کبھی ان تعلیمات میں رتی برابر تبدیلی نہیں ہوئی اور نہ آئندہ کبھی ہوسکتی ہے ۔ اسلام کے نام پر دہشت گردی تو ہورہی ہے جس سے دہشت گردوں کو کوئی فائدہ نہیں ہورہا ہے اور نہ وہ کبھی اپنے مذموم مقصد میں کامیاب ہوسکتے ہیں ۔ اسلام ایک زندہ حقیقت ہے ۔ صرف چند افراد کو اس ابدی حقیقت کو رسوا کرنے کا حق نہیں دیا جاسکتا ہے ۔ یہ عناصر تو اپنی شرمناک حرکات سے اپنے پراگندہ مقصد میں کامیاب ہورہے ہیں جو اس کے سوا اور کچھ نہیں ہے کہ دنیا بھر میں اسلام کو رسوا کیا جائے ۔
قابل مبارکباد ہے سعودی حکومت کہ اس نے دہشت گردی کا اسلام میںکوئی رول نہیں ہوتا جیسے سلگتے موضوع پر ایک عالمی کانفرنس کا انعقاد کیا۔ مسلم ورلڈ لیگ نے اس کا اہتمام کیا تھا اور سرپرستی سعودی حکمران شاہ سلمان عبدالعزیز نے کی ۔ ایک ایسی ضرورت کی تکمیل کی جانب میزبان حکومت نے پیش قدمی کی ہے جس کی اہمیت اس سے پہلے کبھی نہیں محسوس کی گئی تھی ۔ ساری اسلامی دنیا کو اس مہم میں حصہ لینا چاہئے ۔

اسلام کی صحیح انداز میں پیشکشی اغیار کی ذمہ داری نہیں بلکہ مسلمانوں کی دینی ذمہ داری ہے ۔ دین مبین اس لئے نہیں آیا تھا کہ چند افراد غلط روش سے اس کو رسوا کریں۔ اس کانفرنس نے نئی راہ دکھلائی ہے ۔ ایک نئی شاہراہ کی سمت یہ ایک مستحسن قدم ہے۔ اللہ کرے کہ یہ سفر جو سعودی عرب اور اسلامی ورلڈ لیگ نے شروع کیا ہے ۔ ایک عظیم الشان کارروائی بن جائے اور ساری دنیا اور عالم انسانیت کو یہ بات سمجھ آئے کہ انتہا پسندوں کو عالم اسلام دین بین کو کبھی اپنا یرغمال بنانے نہیں دے گا ۔ صرف ضرورت اس بات کی ہے کہ مسلم ممالک اپنی حمیت کا مظاہرہ کریں ۔ عالمی سطح پر پھیلے ہوئے مسلمان دنیا کی خدمت کیلئے تیار ہوجائیں اور ثابت کردیں کہ اللہ کو ناراض کرنے والے یہ دہشت گرد کبھی کامیاب نہیں ہوسکتے ۔ اس کے لئے عالم اسلام کو ہر قسم کی رکاوٹ ، رنگ و نسل کے اذکار رفتہ پیکروں کو نیست و نابود کرنا پڑے گا ۔ جغرافیائی تعلیم ، لسانی تعلیم ہر قسم کے تعصب کو ختم کرتے ہوئے یہ ثابت کرنا ہوگا کہ دین حق کی نیک نامی کو ہم بچائیں گے ۔ دہشت گردوں کو بے نقاب کر کے بھی ثابت کردیں گے ۔ اسلام سے ان بدبخت عناصر کا کوئی تعلق نہیں ہے۔ یہ اسلام کی خدمت نہیں اس کو رسوا کرنے کی کوشش کر رہے ہیں ۔ اس کام کے لئے مسلم اتحاد بے حد ضروری ہے۔
ایک ہوں مسلم حرم کی پاسبانی کیلئے
نیل کے ساحل سے لیکر تانجاک کا شفر