مکہ مسجد میں تقریر کرنے کی شرپسندانہ خواہش !

تلنگانہ ؍ اے پی ڈائری       خیر اللہ بیگ
سوشیل میڈیا نے ہر کس و ناکس کو گرویدہ بنالیا ہے،اس سماجی رابطوں پر مبنی رشتوں اور دوستی نے بہت اہمیت اختیار کرلی ہے۔ ٹوئٹر، فیس بک کا استعمال کرتے ہوئے میئر حیدرآباد نے شہر کی صفائی میں اپنے کارپوریشن کی کارکردگی کو نمایاں بنانے کے لئے سوشیل میڈیا کا استعمال کیا تھا ۔ ان کی صفائی مہم کا جھوٹ بے نقاب ہوا وہ شہر ت و ستائش کے آرزومند تھے مگر سماجی رابطہ کاروں نے انہیں خامیوں اور غلطیوں کی نشاندہی کرکے تنقید کی۔ ایک نوجوان نے سالگرہ کے موقع پر ہوا میں فائرنگ کردی اور اس منظر کو سماجی رابطہ کی نذر کردیا۔ سوشیل میڈیا سے اس منظر کولائیک کیا تو قانون نے ڈس لائیک کرکے معاملہ درج کرلیا۔ یہ سوشیل میڈیا بھی عجیب بن رہا ہے ، ہرکوئی اپنے آپ میں مصروف ہوگیا ہے ۔ تعلیمی اداروں کو تعطیلات ہیں ، بچے اور بڑے سب اپنے عزیز و اقارب ، دادا، دادی، نانانانی سے ملاقات کرنے ان کے گھر جاتے ہیں تاکہ ان کے ساتھ وقت گذارکررشتوں کی اپنا ئیت کو مستحکم کریں لیکن ان دنوں سوشیل میڈیا نے ان حقیقی رشتوں کو دور کردیا اور انجان رشتوں کو قریب کردیا۔ دادا ،دادی سے ملنے اوربزرگوں کا پیار ومحبت شفقت حاصل کرنے کی چاہ میں لوگ یکجا ضرور ہورہے ہیں مگر ایک ہی چھت کے نیچے بلکہ ایک ہی کمرہ میں پورا خاندن بزرگوں کے ساتھ بیٹھنے کے باوجود بات چیت نہیں کرتا بلکہ چھوٹا بڑا سب اپنے موبائیل فون پر واٹس اپ یا سوشیل میڈیا کے دیگر ذرائع کے لوازمات سے محظوظ ہوتاہے۔ اور جن سے ملاقات کیلئے یہ بکھرا ہوا خاندان تعطیلات کے حوالے سے یکجا ہوکر بزرگوں سے میٹھی میٹھی باتیں کرنے کے بجائے اپنے موبائیل میڈیا کے اجنبی دوستوں سے چیاٹنگ میں مصروف ہورہا ہے۔

ہمارے دوست نے بتایا کہ خون کے رشتے اب اجنبیوں کے رشتوں پر سبقت لے جارہے ہیں ، سوشیل میڈیا نے کیا اہمیت اختیار کرلی ہے اس کا اندازہ انہیں اس وقت ہوا جب فیس بک پر ان کی بیماری کی پوسٹ دیکھ کر کئی اجنبی دوستوں نے منٹوں میں سوشیل میڈیا پر صحت یابی کیلئے دعائیں دیں۔ ایک شہری کا دعویٰ تھا کہ سوشیل میڈیا پر اس کے دوستوں کی فہرست ہزاروں میں ہے جب وہ انتقال کرگیا تو جنازہ میں کوئی نہیں تھا۔بہرحال تفصیل میں جانے کی ضرور ت نہیں، سوشیل میڈیا کی اچھائیاں اور خرابیاں دونوں کے حقائق کسی سے پوشیدہ نہیں ، میئر بلدیہ حیدرآباد بی موہن کو سوشیل میڈیاکا سہارا لینا سبکی کا باعث بنا تو پرانے شہر کے ایک نوجوان کو سالگرہ تقریب میں فائرنگ کرکے اسے عام کرنا مہنگا پڑا۔ تعلیمی اداروں کی تعطیلات کے ساتھ والدین کو اس گرمی اور چلچلاتی دھوپ میں اپنے بچوں کے اڈمیشن کی فکر لاحق ہوتی ہے۔ اس فکر و جستجو میں والدین اپنے نونہالوں کو لیکر اچھے اسکولوں میں داخلے دلانے کی دوڑ دھوپ لگارہے ہیں۔ بعض اسکولوں ، کالجوں میں بچے کی میرٹ اور تعلیمی ریکارڈ کی بنیاد پر داخلے دینے کے دعوے ہورہے ہیں مگر حقیقت میںکچھ اور ہی بات سامنے آئی ہے۔ جب ایک باپ اپنے بیٹے کے بارے میں فکر مند رہتا ہے تو وہ داخلے کیلئے کچھ بھی کرنے تیار ہوجاتا ہے۔ بعض اسکولوں میں داخلوں کے لئے اصول و ضوابط بھی خود ساختہ ہوتے ہیں۔ ایک اسکول میں میاں بیوی اپنے بیٹے کو داخلہ دلوانے آئے تھے اور آپس میں فکرکا اظہار کررہے تھے ۔بیوی کہہ رہی تھی کہ اسکول والے بیٹے کو ایڈمیٹ کارڈ دیں گے یا نہیں کیونکہ اسکول والوں کی شرط ہے کہ بچے کی حاضری 90فیصد ہونی چاہیئے اورہر جماعت میں امتحان میرٹ پر کامیاب ہونا چاہیئے ورنہ داخلہ نہیں ہوگا۔ بیوی کی بات سن کر شوہر بھی پریشان تھا جب بچہ پرنسپل کے چیمبر سے باہر آیا تو ایڈمیٹ کارڈ اس کے پاس تھا۔ ماں حیران ہوئی کہ پرنسپل نے کونسی قابلیت دیکھ کر اسے ایڈمیٹ کارڈ دے دیا ہے تو بیٹے نے باپ کو بتایا کہ آپ نے ڈونیشن کی جو سلیپ دی تھی اسے دیکھ کر داخلہ دیا گیا ہے۔ بچہ پڑھے یا نہ پڑھے اسکول و کالجوں کو صرف بھاری ڈونیشن اور موٹی موٹی فیس سے سروکار ہوتا ہے۔ہر اسکول میں چندبچے اپنی محنت سے قابلیت حاصل کرتے ہیں اور اسکول انتظامیہ ان طلباء کو سامنے رکھ کر اپنا ڈونیشن کارڈ اور فیس کارڈ تیار کرتے ہیں۔ پھر اس کے بعد بچہ اسکول میں پڑھے یا فیس بک پر چیاٹنگ کرے اسے کوئی لینا دینا نہیں۔ نتائج آتے ہیں تو وہی چند بچے سرفہرست رہتے ہیں ماباقی کا فیصد معلق رہتا ہے۔

شرارت یا شرپسندی ایک خطرناک ہتھیار ہے جس کی مدد سے طبقات میں پھوٹ، شہریوں میں منافرت،دشمنی اور ہراسانی پیدا کی جاسکتی ہے۔ مسلمانوں کے خلاف شرپسندانہ سرگرمیاں نئی نہیں ہیں۔ اقتدار سے دور رہ کر بھی شرپسندانہ سرگرمیاںجاری تھیںاور اب اقتدار میں رہ کر بے لگام ہونے والی زعفرانی طاقتوں کی نت نئی سازشیں شروع ہوچکی ہیں۔ ہندوستانی مسلمانوں کو ابنائے وطن سے دور کرنے کا سازشی طریقہ یہ ہے کہ انہیں مختلف مسائل میں اُلجھا کر رکھا جائے، اس میں فرقہ پرستوں کو بہت کچھ کرنے کی ضرورت نہیں بلکہ مختلف گوشوں سے گمراہ کن مہم چلائی جائے ، ہندوستانی فرقہ پرستوں میں ایسے لوگوں کی کمی نہیں ہے جو پیسے کے عوض کچھ بھی کرسکتے ہیں۔قومی سطح سے لیکر علاقائی سطح تک صرف مسلمانوں کے نازک معاملات کو نشانہ بنایا جارہا ہے۔ مودی حکومت نے طلاق ثلاثہ کو اپنی کارکردگی کا اصل محور بنارکھا ہے تو اس کے چھوڑے گئے کارندے طرح طرح کے منصوبوں کے ساتھ میدان میں اُترچکے ہیں۔ ایک مہرہ نے مکہ مسجد میںرمضان المبارک کے موقع پر تقریر کرنے کی درخواست دی ہے۔ تاریخی مکہ مسجد میں ہر سال رمضان میں ہر جمعہ کو’’ یوم القرآن ‘‘ منایا جاتا ہے جس میں علماء اور مسلم قائدین خطاب کرتے ہیں ۔

مکہ مسجد کو جب سے مقامی جماعت نے سیاسی پلیٹ فارم بنانا شروع کیا تب سے فرقہ پرستوں کی سازشوں کو بھی تقویت حاصل ہونے لگی ہے۔ ایک ہندو کو کیا سوجھی کہ وہ مکہ مسجد میں تقریر کرے گا، اس نے محکمہ اقلیتی بہبود کو درخواست دی اور خواہش کی کہ اسے رمضان میں مکہ مسجد سے خطاب کی اجازت دی جائے۔ ایسی شرپسندانہ درخواست پہلی مرتبہ ملی ہے۔ سکریٹری اقلیتی بہبود عمر جلیل نے اس درخواست کو مسترد کرنے کے بجائے اسے حیدرآباد پولیس کمشنر سے رجوع کردیا کیونکہ یہ درخواست فرقہ وارانہ کشیدگی کا باعث بن سکتی ہے اور لاء اینڈ آرڈر کا مسئلہ پولیس کی ذمہ داری ہے۔ پولیس نے مذکورہ شخص کی درخواست کا جائزہ تو لیا ہے مگر اجازت دینے کا جہاں تک سوال ہے یہ تجسس کا معاملہ ہے کیونکہ درخواست گذار کا ادعا ہے کہ وہ پولیس سے اجازت حاصل کرنے میں کامیاب ہوجائے گا۔ پولیس بھی اس معاملہ میں دلچسپی دکھاتی ہے تو آنے والے دنوں میں مرکز میں برسراقتدار زعفرانی پارٹی کے منصوبے بروئے کار لانے میں دیر نہیں ہوگی۔ المیہ یہ ہے کہ مسلمانوں کے سامنے ان کی سالمیت کے خلاف سازشیں ہورہی ہیں۔ وہ اصل کرداروں اور حقائق کو جان کر محسوس کرکے تیاری سے بے خبر ہیں۔
بی جے پی کے قومی صدر کے دورہ کے موقع پر ایک شہری نے جوخود کو ٹی آر ایس ورکر ہونے کا دعویٰ کیا ہے مکہ مسجد سے تقریر کرنے کی ضد شروع کی ہے۔ اندر ہی اندر ایک ایسی خطرناک مہم چلادی گئی ہے جو ملک کے سیکولر کردار کو تباہ کردینے اور مسلمانوں کے خلاف دشمنی کو ہوا دینے کے لئے کافی ہے۔ جس طرح ملک شام عالمی جنگ آزمائی کا ایک اکھاڑہ بن گیا ہے اسی طرح ہندوستان میں مسلم دشمن طاقتیں ہندوستانی مسلمانوں کو دیگر ابنائے وطن کیلئے اکھاڑہ بنادینے کوشاں ہیں۔ بہر حال ہندوستانی مسلمانوں کا ناطقہ تنگ کرنے کے دیرینہ منصوبے کا تسلسل ہے۔
kbaig92@gmail.com