موڈیز کا مودی کو مشورہ

پھول کی پتی سے کٹ سکتا ہے ہیرے کا جگر
مردِ ناداں پر کلامِ نرم و نازک بے اثر
موڈیز کا مودی کو مشورہ
ہندوستان میں بڑھتی ہوئی فرقہ واریت اور عدم رواداری نے جہاںہندوستان بھر میں صحیح ذہن و فکر رکھنے والوں کو تشویش میں مبتلا کردیا ہے وہیں اب بین الاقوامی ادارے اور ایجنسیوں کو بھی ہندوستان کے حالات پر تشویش لاحق ہونے لگی ہے ۔ موڈیز ایک بین الاقوامی ریٹنگ ایجنسی ہے جو دنیا بھر کے ممالک کو ان کی معاشی پالیسیوں اور ترقی کی بنیاد پر انہیں ریٹنگ دیتی ہے اور ان کے پروگراموں اور اقدامات پر اپنے تاثرات کو ظاہر کرتی ہے ۔ حالیہ عرصہ میں دنیا بھر میںمعاشی سست روی نے ایک بار پھر اپنا اثر دکھانا شروع کیا تھا ۔ ان حالات میں موڈیز نے ہی ہندوستان کی معاشی پالیسیوں کی ستائش کرتے ہوئے معاشی انحطاط سے ہندوستان کے محفوظ رہنے کا اشارہ بھی دیا تھا ۔ ہندوستان میں این ڈی اے کی نریندر مودی حکومت نے موڈیز کے اس تبصرہ کو اپنے لئے تمغہ اور سند کے طور پر پیش کیا تھا اور کہا تھا کہ مودی حکومت کی کارکردگی کی بین الاقوامی ایجنسیوں کی جانب سے بھی ستائش کی جا رہی ہے اور ملک کی معیشت کو دنیا بھر میں اہمیت کی نظر سے دیکھا جا رہا ہے ۔ ابھی مودی حکومت اس سند اور تمغہ کی صحیح طور پر نمائش کر بھی نہیں پائی تھی کہ اسی ایجنسی نے مودی کو ایک ایسے محاذ پر آئینہ دکھانے کی کوشش کی جس طرف وزیر اعظم کبھی توجہ کرنا نہیں چاہتے ۔ انہیں آئینہ میں اپنا صحیح عکس نظر آتا ہے اور وہ خود اس عکس سے نظریں چراتے محسوس ہوتے ہیں۔ موڈیز نے آج نریندر مودی حکومت کو خبر دار کیا کہ وہ بی جے پی کے ہی متنازعہ قائدین اور ارکان پارلیمنٹ پر اگر لگام کسنے سے چوک جاتے ہیں اور انہیں من مانی ہانکنے سے روک نہیں پاتے ہیں تو پھر دنیا بھر میں ملک کا وقار اور اس کی ساکھ متاثر ہوگی ۔ علاوہ ازیں ایجنسی نے مزید کہا کہ اگر حکومت کو حقیقت میں اپنے درکار نشانوں تک ترقی حاصل کرنی ہے اور ملک کو آگے بڑھانا ہے تو اس نے اصلاحات کے جو وعدے کئے تھے انہیں پورا کرنے کی ضرورت ہے ۔ اس طرح ایجنسی نے یہ واضح کردیا ہے کہ ابھی تک مودی حکومت نے اپنے انتخابی وعدے پورے نہیں کئے ہیں۔ ہندوستان میں اپوزیشن جماعتیں بھی مسلسل حکومت پر الزام عائد کرتی رہی ہیں کہ اس نے انتخابات میں جو وعدے کئے تھے انہیں پورا کرنے پر کوئی توجہ نہیں دی جا رہی ہے ۔
ایجنسی کا کہنا تھا کہ اگر حکومت کو اپنی ساکھ برقرار رکھنی ہے تو اسے متنازعہ عناصر پر لگام کسنے کی ضرورت ہے ۔ ایجنسی نے یہاں تک کہہ دیا کہ حکومت نے ان عناصر کو بے لگام چھوڑتے ہوئے خود اپنی مدد نہیں کی ہے ۔ دوسرے الفاظ میں ایجنسی نے یہ واضح کرنے کی کوشش کی ہے کہ متنازعہ عناصر پر لگام کسنا ہی حکومت کے حق میں بہتر ہوگا بصورت دیگر خود حکومت کیلئے مسائل پیدا ہوسکتے ہیں۔ ملک اور ابنائے وطن کیلئے مسائل اور پریشانیاں تو شروع ہوچکی ہیں لیکن اگر ان عناصر پر لگام نہیں کسا گیا تو پھر خود حکومت کیلئے مسائل پیدا ہوسکتے ہیں۔ ایجنسی نے مزید واضح کیا ہے کہ اگر یہ صورتحال رہی تو تشدد میںاضافہ ہوسکتا ہے اور حکومت کو اپوزیشن جماعتوں سے راجیہ سبھا میں قانون سازیوں کو یقینی بنانے میں مشکلات پیش آسکتی ہیں۔ اپوزیشن جماعتیں حکومت کے سامنے ڈٹ سکتی ہیں اور حکومت کا اصلاحات کا ایجنڈہ اس کی وجہ سے تعطل کا شکار ہوسکتا ہے ۔ اصلاحات کے عمل پر ایجنسی نے شدید تشویش ظاہر کی ہے اور کہا کہ اگر یہ عمل رک جاتا ہے تو ملک کی معاشی ترقی متاثر ہوسکتی ہے ۔ اس کے نتیجہ میں جملہ گھریلو پیداوار کا تناسب گھٹ سکتا ہے اور بحیثیت مجموعی معاشی صورتحال پر اس کا اثر ہوسکتا ہے ۔ حکومت کو خود اپنی مدد کے طور پر ان عناصر پر قابو پانے کی ضرورت ظاہر کی گئی ہے جو ملک میں اقلیتوں کا عرصہ حیات تنگ کرنا چاہتے ہیں اور اپنی اشتعال انگیز تقاریر کے ذریعہ اقلیتوں میں خوف و ہراس کا ماحول پیدا کر رہے ہیں۔ مودی حکومت ان عناصر پر لگام کسنے کی بجائے اس جانب سے آنکھیں پھیر رہی ہے ۔
ہندوستان میں جو حالات ہیں وہ ساری دنیا میں تشویش کا باعث بن رہے ہیں۔ سماج میں نفرت کو فروغ دیا جا رہا ہے اور باہمی رواداری اور بھائی چارہ کو کچلا جا رہا ہے ۔ اس پر ملک کی مصنفین اور ادیبوں کی حساس طبیعت نے مچلنا شروع کردیا تھا ۔ بی جے پی کے قائدین ان ادیبوں کی رائے کو سیاسی سازش قرار دے رہے تھے ۔ یہ کہا جا رہا تھا کہ قومی سطح کے ایوارڈ در اصل بی جے پی کی مخالفت میں واپس کئے جا رہے ہیں۔اب بی جے پی کے قائدین جواب دینا چاہئے کہ موڈیز کی جانب سے یہ ریمارکس کیوں کئے گئے ہیں ۔ کیا اس ایجنسی کو بھی بی جے پی سے پرخاش ہے ؟ ۔ کیا یہ ایجنسی بھی ‘ جس کے تمغہ پر خود مودی حکومت فخر کر رہی تھی ‘ سیاسی سازش کا حصہ بن گئی ہے ۔ اس سے پہلے کہ دنیا بھر میں ملک کی ساکھ واقعی خراب ہوجائے اور ماحول مزید ابتر ہوجائے مودی حکومت کو فرقہ پرستوں اور فاشسٹوں کے خلاف لگام کسنے کیلئے تیار ہوجانا چاہئے ۔