مومن خان شوق کی شخصیت اور شاعری، شعری مجموعوں کے تناظر میں شعراء اور دانشوروں کے تاثرات

محمد نصراللہ خان
شہر حیدرآباد جسے علمی و ادبی گہوارہ کہا جاتا ہے ، 15 جون 1941 ء کو محترم منور خان کے گھر میں مومن خان شوق پیدا ہوئے ۔ 1964 ء میں جامعہ عثمانیہ سے بی کام کی ڈگری حاصل کی اور پھر ایف ایس اے اے کامیاب کیا اور 1965 ء میں زرعی یونیورسٹی کے اڈمنسٹریٹیو آفس میں ملازمت شروع کی ۔ اپنی محنت اور لگن سے ترقی کرتے ہوئے سپرنٹنڈنٹ کی حیثیت سے 1996 ء میں بحسن و خوبی وظیفہ پر سبکدوش ہوئے ۔
مومن خان شوق کے بڑے بھائی جناب عمر خان عاصی ڈپٹی اگزیکٹیو انجنیئر (موظف) جو اب نیو جرسی (امریکہ) میں مقیم ہے، ان کی ادبی تحریروں نے انہیں ذوق شعر و ادب کی طرف مہمیز کیا۔ ادبی مطالعہ کیساتھ شاعری کے رموز بھی آشکارا ہوئے تب ہی جناب شوق نے حیدرآباد کے استاد شعراء سے شعر فہمی میں بہت کچھ جانا اور سیکھا ۔ یوں توان کاشعری سفر کا آغاز 1968 ء سے ہوا لیکن 1970 ء سے حیدرآباد کے اردو اخبارات و رسائل اور ہندوستان کے ادبی رسائل میں ان کا کلام شائع ہوتا رہا ہے ۔ تاحال ان کے چھ (6) شعری مجموعے اور نثری مجموعہ شائع ہوکر منظرعام پر مقبول ہوچکے ہیں جن میں ’’بدلتے موسم‘‘ ، ’’چاندنی کے پھول‘‘ ، ’’نشاط آرزو‘‘ ’’کرن کرن اجالا‘‘ ، ’’یہ موسم گل‘‘ ، سوغات نظر‘‘ ، کے علاوہ نثری مجموعہ ’’سوغات فکر و نظر‘‘ ہیں۔ ان مجموعوں پر انہیں اردو اکیڈیمی نے انعامات سے نوازا۔

مومن خان شوق کئی ادبی اداروں سے وابستہ رہے ، ادارہ سوغات نظر کے معتمد عمومی کی حیثیت سے آج بھی ان کی ادبی سرگرمیاں جاری ہیں ۔ اس ادارہ کے تحت تقریباً 200 کے قریب ادبی اجلاس و مشاعرے منعقد کئے جاچکے ہیں۔ ان کا کلام آل انڈیا ریڈیو حیدرآباد کے نیرنگ پروگرام میں اکثر و بیشتر نشر ہوتا رہا ہے اور دوردرشن حیدرآباد سے بھی ان کا کلام ٹیلی کاسٹ ہوچکا ۔ انہیں کئی اداروں کی جانب سے ایوارڈس دیئے گئے جن میں قابل ذکر ’’قومی یکجہتی اندرا گاندھی نیشنل یونٹی ایوارڈ‘‘ ’’سرکاری زبان کمیشن آندھراپردیش ایوارڈ‘‘ مین آف دی ایئر (امریکن یا گرافیکل انسٹی ٹیوٹ) ٹہواہٹوکنسلٹنگ ایڈیٹر (امریکن یا گرافکل انسٹی ٹیوٹ) ہیں۔ ’’غزل سندری ایوارڈ کوی گارو کلاپیٹھم ‘‘ ’’بہترین شاعر ایوارڈ (ہندو سیوا سماج رہبر سمیلن‘‘ ’’کل ہند اردو تعلیمی کمیٹی‘‘ کی جانب سے توصیف نامہ شہر حیدرآباد کے نمائندہ شاعر کی  حیثیت سے دیا گیا۔

مومن خان شوق کی شاعری و ادبی جذبات پر شعراء اور دانشوروں نے جس طرح کا اظہار خیال کیا ہے وہ نئی نسل کیلئے ایک مثالی حیثیت رکھتی ہے۔ اس کو مد نظر رکھتے ہوئے ان کے خیالات کے چند نقوش قلمبند کئے جارہے ہیں۔ ممتازو نامور شاعر ڈاکٹر علی احمد جلیلی مرحوم نے مومن خان شوق کے شعری مجموعہ ’’کرن کرن اجالا‘‘ میں رقمطراز ہوتے ہوئے کہا کہ ’’مومن خان شوق حیدرآباد کے ان شاعروںکی صف میں ہے جنہوں نے شاعری کے طویل سفر میں اپنے آپ کو خاصہ متعارف کروالیا ہے اور اپنے آپ کو گر روپوش سے باخبر رکھا ہے ۔ دور حاضر کی ناانصافیوں اور معاشرہ کے زوال کا ان میں احساس بھی ہے اور شعور بھی ، یہی وجہ ہے کہ رومانیت کے ساتھ شرافت و وضعداری کے اقدار کی شکست و ریخت کی جھلکیاں ان کے کلام میں ملتی ہیں۔ انہوں نے کھردری حقیقت کو بھی بے نقاب کیا اور اس طرح اپنی صلاحیتوں کا بھرپور احساس دلایا ہے ۔ شوق کی غزلوں کا جمالیاتی پہلو بہت زر خیز ہے اور جہاں ایسی جمالیاتی اور روایتی احساس کی تکمیل کرتے ہیں وہاں انہوں نے جذبات نگاری کی شدت میں احتیاط کا دامن ہاتھ سے نہیں چھوڑا ۔

وہ لکھتے ہیں کہ مومن خان شوق نے اپنی نظموں کیلئے آزاد نظم کی ہیئت کا ہی استعمال کیا ہے ۔ ’’زندگی‘‘ ، ’’الجھن‘‘ ، ’’ذرا سوچئے‘‘ ، ’’مشورہ‘‘ کی نظموں کے عنوانات متنوع ہیں۔ یہ تنوع اس بات کی دلیل ہے کہ ان کا مشاہدہ زندگی بہت گہرا اور وسیع ہے ۔ انہوںنے مومن خان شوق کو ایک اچھے شاعر سے تعبیر کرتے ہوئے کہا کہ انہوں نے بہت خوبصورت شاعری ہمیں دی ہے‘‘۔
ڈاکٹر منشاء الرحمن خان منشاء نے مومن خان شوق کے شعری مجموعہ’’نشاط آرزو‘‘ میں اپنے تاثرات بیان کرتے ہوئے رقمطراز ہیںکہ مومن خان شوق ایک خوش گو اور خوش فکر شاعر ہیں، وہیں ایک مخلص و خوش اخلاق انسان بھی واقع ہوئے ہیں ، جب  ملتے ہیں تو وہ اپنے والہانہ خلوص اور اپنائیت کو برقرار رکھتے ہیں اور یہی خلوص دل کی جھلکیاں ان کے کلام میں بھی جابجا پائی جاتی ہیں۔ شوق کے نازک ترین احساسات دل و جذبات باطنی کو جو شعری  پیکر عطا کئے وہ لائق دار و ستائش ہیں۔ جذبات انسانی کی عکاسی ، شعور کی پختگی اور تخیل کی رنگ آمیزی کی بدولت ان کے اکثر اشعار دامن دل کو اپنی طرف کھینچنے لگتے ہیں۔ حقیقت تو یہ ہے کہ شوق بڑے سلجھے ہوئے و شائستہ انداز میں اپنا ماضی الضمیر کو شعر و سخن کا روپ دیتے ہیں۔ انہوں نے صرف مجموعہ کا نام ہی نشاط آرزو نہیں رکھا ہے بلکہ نظموں و غزلوں میں جگہ جگہ اسی لفظ کا استعمال بھی کیا ہے ۔ انہوں نے اپنی نظموں میں کئی مقامات پر علامتی اسلوب اختیار کیا ہے ۔ اس طرح ان کی صداقت بیانی اور اشارتی حسن کے باعث کلام شوق بہت خوشنما اور دل پذیر بن گیا ہے ۔ اکثر غزلوں میں کلاسکی شاعری کا حسین پر تو نئے نئے رموز و الائم اور نئے نئے تلامزوں کے روپ میں دکھائی دیتا ہے ۔ اسی لئے ان کی شاعری میں جذبے کی گرمی خلوص دل کی دھیمی دھیمی آنچ ملتی ہے جو دلوں کو گرما جاتی ہے ۔الغرض کلام شوق میں نشاط انگیزی کے عناصر بدرجہ اتم ملتے ہیں، بڑی خوبی کی بات تو یہ ہے کہ شوق نے زندگی اور زمانے کے تعلق سے سیدھی سادی اور سچی باتوں کو نہایت سادگی و پرکاری اور خوش اسلوبی کے ساتھ شعری پیکروں میں ڈھالا ہے۔ شاعرہ ڈاکٹر بانو طاہرہ سعید نے مومن خان شوق کے شعری مجموعے ’’یہ موسم گل‘‘ پر اظہار خیال کرتے ہوئے لکھا ہے کہ مومن خان شوق ایک تعلیم یافتہ انسان ہیں، زرعی یونیورسٹی ، راجندر نگر سے منسلک رہ چکے ہیں ۔ انہیں ار دو زبان کی خدمت اور والہانہ لگاؤ کے ساتھ بناء خود شاعری ان کی طبیعت میں رج بس گئی ہے ۔ ہندوستان کے بیشتر اردو رسالوں اور اخبارات میں ان کا کلام اکثر چھپتا رہتا ہے ۔ ان کی شاعری ان کی شخصیت کی طرح پاک و صاف اور دل پذیر ہے اور ان کے فن میں کلاسیکی وقار ، ترقی پسندانہ للکار و بے ساختگی پائی جاتی ہے۔ انہوں نے اردو زبان کی ہر صفت سخن پر قلم اٹھایا ہے ۔ قطعات لکھے، نظمیں لکھیں اور غزلوں کا جادوجگایا ۔ اردو ادب کی خدمت سے رشتے کو قائم رکھتے ہوئے گھریلو زندگی میں بھی بہت ساری ذمہ داریاں بحسن و خوبی سنبھالیں اور وہ ہمیشہ مطمئن نظر آتے ہیں۔ ان کے ذہنی سکون میں ان کی شریک حیات محترمہ سردار النساء کا بھی بڑا حصہ ہے ۔ وہ ایک خانہ دار ہمدرد ، نفیس و پڑھی لکھی خاتون ہیں، علم و ادب سے بھی دلچسپی رکھتی ہیں۔

مومن خان کا شوق کا ایک نہایت قابل تحسین کارنامہ یہ بھی ہے کہ حیدرآباد کے علاوہ اضلاع کے اردو شعراء کو سوغات نظر کی محفلوں میں مدعو کرتے ہیں اور ان کے فن و شخصیت پر ادبی اجلاس میں منعقد کیا کرتے۔ ان کی نظموں میں’’اکیسویں صدی کی آمد پر ‘‘ ’’بارش‘‘ ’’عزم کی قندیل‘‘ ’’روشن گفتگو‘‘ ’’جہیز کی لعنت‘‘ ’’غم کا مسیحا کوئی نہیں‘‘ ’’متوالی آنکھیں‘‘ ’’جیو اور جینے دو‘‘ شگفتہ و متاثر کن ہیں۔
پروفیسر سلیمان اطہر جاوید نے مومن خان شوق کے شعری مجموعہ ’’چاندنی کے پھول‘‘ کو نور و نکہت کا دل آویز گلدستہ قرار دیتے ہوئے یوں رقمطراز ہیں ، مومن خان شوق نے دنیائے شعر و ادب میں بدلتے موسم کا اثر اسی حد تک قبول کیا ہے جس حد تک کے قبول کیا جانا چاہئے تھا ۔انہوں نے بدلتے موسموں کو نہ تو قطعی نظر انداز کیا اور نہ وہ بدلتے موسموں کے ہوکر رہ گئے ۔ ان کے یہاں مثبت شعری روایات اور ماضی کی صحت مند اقدار کی پاسداری بھی ہے اور عصری رجحانات کااحترام بھی ہے ۔ تنہائی عصری شاعر کا ایک اہم موضوع سا ہے ۔ شوق کے یہاں اس موضوع پر نظمیں اور اشعار ملتے ہیں۔ زبان اور بیان کے تعلق سے بھی ان کا رویہ معتدل اور متوازن ہے ۔ انہوں نے اردو کے اردوپن کو پوری احتیاط کے ساتھ قائم رکھا ہے ۔ ہاں ہندی شاعری اور ہندی گیت سے وہ متاثر معلوم ہوتے ہیں۔ ’’برہ کی ماری‘‘ ، ’’برہ کی انگنی‘‘ ’’نئی برکھا‘‘، ’’اب کے برس جب ہولی آئی‘‘ اور دیوالی آئی جیسی منظومات جس کا اظہار ہیں۔ وہ لکھتے ہیں کہ میں نے شوق کی شاعری ……… نشاندہی کی ہے ۔ ان سے منظومات ہی نہیں ان کی غزلیں بھی عبارت ہیں۔ شوق کو نظم اور غزل دونوں پر ایک جیسی مہارت حاصل ہے ۔ غزلوں کے یہ چند اشعار ہے۔

آج حالات ہی کچھ ا یسے ہیں
ساعتیں ڈوبتی سی لگتی ہیں
ہم ملاقات کو چلے تھے مگر
وہ ملے بھی تو فاصلے سے ملے
لوگ تقسیم ہوئے ذاتوں میں
آدمیت کی کہاں بات اب کے
پھر ایک بار تو ایسا ہوا جنگل میں
ابھی نکل ہی رہا تھا کہ ڈھل گیا سورج
پروفیسر جیب ضیاء نے مومن خان شوق کے شعری مجموعہ’’کرن کرن اجالا‘‘ میں تعارف کرواتے ہوئے لکھا کہ مومن خان شوق نے اپنی خداداد شعری صلاحیتوں کے جوہر دکھانے کیلئے جہاں مختلف اصناف شاعری کا انتخاب کیا ہے وہیں بحروں کے انتخاب میں اپنا جواب نہیں رکھتے ۔ چھوٹی اور بڑی ہردو بحروں میں انہوںنے بہت عمدہ شعر کہے ہیں۔ان میں رومانی، اخلاقی ، سماجی ، سیاسی اور دیگر کئی موضوعات شامل ہیں۔ جیسے
ایک حسینہ جو پاس آتی ہے
کتنی یادوں گو ساتھ لاتی ہے
ایک لڑکی دکن میں ملی شوق کو
غالب و میر کی شاعری کی طرح
روز بڑھتی ہوئی یہ مہنگائی
ہر ضرورت کو جیسے ڈستی ہے
یہ دکن کی سرزمین کا سب سے روشن وصف ہے
جو بھی آتا ہے یہاں ، وہ لوٹ کر جاتا نہیں
ایسی آندھی چلی ہے فیشن کی
ہر طرف جیسے بے لباسی ہے
مومن خان شوق نے جہاں غزل گوئی کے ذریعہ شعر و ادب میں خوشگوار اضافہ کیا ہے وہیں بہترین نظمیں لکھ کر یہ ثابت کر دکھایا ہے کہ وہ اس صنف پر بھی کامل عبور رکھتے ہیں۔ المختصر یہ کہ شوق نے اپنے مخصوص طرز سخن کی بنیاد پر میدان شاعری میں اس مقام پر پہنچ چکے ہیں جہاں تعارف کی کوئی گنجائش باقی نہیں ۔ ان کا کلام ہی ان کا تعارف ہے۔
پروفیسر میر تراب علی نے اپنے مضمون ’’مومن خان شوق کی تخلیقی جہات‘‘ میں یوں رقمطراز ہیں کہ مومن خان شوق حیدرآباد کے بزرگ شاعر اور مجاہد اردو ہیں، انہوں نے اپنے عمر عزیز کا ایک بڑا حصہ اس دشت کی سیاحی میں گزارا ہے ۔ان کا تعلق حیدرآباد کے ایک مہذب علمی ، ادبی اور مذہبی گھرانے سے رہاہے ، ان کے خاندان کے ادبی ماحول اور حیدرآباد کی شاعرانہ فضاء نے ان کو شاعری کے آسمان پر پر واز کا ہنر بخشا ۔ابتداء میں کئی نامور اساتذہ سخن سے اصلاح لی اور بہت جلد حیدرآباد کے شعری منظر نامے میں محترم شاعر کی حیثیت سے منظر عام پرآئے۔ شوق صاحب دراصل حیدرآباد کی تہذیب کی جمالیات کا تسلسل ہے ں۔ مومن خان شوق نے کئی اصناف سخن میں طبع آزمائی کی لیکن غزل میں ان کی قوت تخلیق بھرپور سانس لیتی ہے ۔ ان کی شاعری دراصل اس انسانیت نواز انسان کی شاعری ہے جو زندگی کی ساری آرائشوں اور آلودگیوں میںگھرا رہنے کے باوجود اپنی شناخت نہیں کھو تی ۔ یہ تہذیبی متانت اور احترام آرئیت ان کا زاویہ نظر کی دین ہے ۔ ان کا انداز ملاحظہ فرمائیے۔
مروت ، سادگی اخلاص و الفت
ہماری زندگی میں اور کیا ہے
جب بھی نشاط غم سے ہوا اپنا سامنا
پلکوں پہ قطرہ قطرہ الم بولنے لگا
یہ کیسا دور ہے کیا جہاں ہے
جسے دیکھو امیر کارواں ہے