مولانا محمد علی جوہر کے تعلیمی افکار

ڈاکٹر محمد فیض احمد
محمد علی جوہر کی علمی صلاحیتوں کے پیش نظر ان کے بڑے بھائی انہیں اعلی تعلیم دلوانے کے خواہشمند رہے ۔ اس لئے مولانا کو علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کی تعلیم کے بعد آکسفورڈ بھی بھجوایا ۔ وہاں سے ڈگری کے حصول کے بعد وہ رامپور میں انسپکٹر جنرل تعلیمات اور رامپور ہائی اسکول کی پرنسپلی کے فرائض انجام دیئے ۔ بعض وجوہ کی بنا پر مستعفی ہو کر بڑودہ چلے گئے اور وہاں بھی مختلف اعلی عہدوں پر خدمات انجام دیں لیکن انہیں ملازمت کی پابندیاں زیادہ وقت باندھے رکھنے میں ناکام رہیں اور پھر انھوں نے کلکتہ سے کامریڈ اخبار نکالا ۔ دارالحکومت کی تبدیلی کے بعد دہلی سے اردو اخبار ہمدرد جاری کیا ۔ اسی دوران انگریزوں کی بربریت سے چھٹکارہ کے لئے جد وجہد شروع کی اور قید و بند کی صعوبتیں بھی برداشت کیں ۔ 1919ء خلافت اور تحریک ترک موالات شروع کی تھی ان کی ایماء پر طلبہ نے سرکاری اور سرکاری امداد سے چلنے والے تعلیمی ادارے چھوڑدیئے تھے ۔ اور ان کے لئے خالص قومی تعلیمی ادارہ جامعہ ملیہ اسلامیہ دہلی میں قائم کیا تھا، جو آج بھی اپنی علمی خدمات سے اہل ملک کے طلباء کے مستقبل کو روشن و منور کررہا ہے ۔ اس ادارے کے لئے مولانا محمد علی جوہر ہی نے ایک تعلیمی اسکیم مرتب کی تھی جس میں اپنے اور قوم کے عقائد کے علاوہ ماحول اور ضروریات پیش نظر تھیں نا کہ کسی معروف ماہرین تعلیم کے افکار کا چرچا تھا ۔ مولانا چاہتے تھے کہ قوم میں تعلیم کا مقصد صرف روزگار تک محدود نہ رہے بلکہ ان کے اندر روشن خیالی اور خود شناسی کے اوصاف جاگزیں ہوں ، یعنی زندگی اور آخرت دونوں میں سرخروئی کے سامان کی تعلیم میں ضرورت ان کے پیش نظر رہی ، بنیادی طور پر مولانا محمد علی جوہر کے تعلیمی افکار یہ ہیں :
۱ ۔ طلبہ میں دینی جذبہ پیدا کیا جائے اور انہیں دین سے واقف کیا جائے ۔
۲ ۔ تعلیم کو موثر و کارآمد بنانے کے لئے ذریعہ تعلیم مادری زبان خصوصاً اردو بنایا جائے ۔
۳ ۔ پیشہ ورانہ تعلیم کو تعلیمی اسکیم کا لازمی جز بنایا جائے ۔
اگر ہم پہلے نکتہ پر غور کریں تو یہ احساس ہوگا کہ اس کی اہمیت آج بھی اتنی ہی ہے جتنی مولانا محمد علی جوہر کی زندگی (1878-1931) میں تھی وہ اس لئے کہ ان دنوں ملک میں مذہبی انتشار کا ماحول ہے اگر کسی فرد میں اسلامی جذبہ کے حقیقی روح سے سرشار ہوگا تو وہ ضرور حالات کا مدبرانہ انداز میں مقابلہ کرسکتا ہے ۔ اس مقصد کے حصول کے لئے وہ قرآن کی تعلیم کو ضروری قرار دیتے تھے ۔ تعلیم کے اولین منازل می قرآن مجید، ناظرہ مع اردو ترجمہ ، ثانوی منزل میں دینیات کی تعلیم جس میں عبادات ، عقائد ، فقہی مسائل ، اخلاق اور سیرت کے بارے میں معلومات بہم پہنچائی جائیں اور یونیورسٹی کے مرحلہ میں اسلامی تعلیمات میں ایک ڈگری کورس بھی ہو آج کے دور کا (Islamic Studies) کا شعبہ ہے جسے مولانا محمد علی جوہر نے ہی وضع کیا تھا ۔
تعلیم کو عام کرتے ہوئے صنعتی مدارس قائم کئے جاسکتے ہیں ۔ جس کی بابت حکومت پر سرکاری ملازمتوں کی فراہمی کا بوجھ کم ہوتا چلا جائے گا اور نوجوانوں میں محنت کی عزت اور اس کی اہمیت کا احساس بھی ہوگا ، جو فی زمانہ تعلیم یافتہ نوجوانوں کا عام رجحان دکھائی دیتا ہے ۔ دراصل یہ وہ نظریہ ہے جس کو مخلصانہ انداز میں اپنایا جائے تو دوسرے ترقی یافتہ ممالک کی طرح ہمارے ہاں بھی پیشہ کی قدر و منزلت کا احساس بڑھتا اور ہر ملازمت پر کسی پیشے کو اپنے لئے باعث ذلت نہ سمجھتے ۔

مندرجہ بالا تعلیمی افکار کے علاوہ مولانا محمد علی جوہر عام تعلیم کو مقدم گردانتے وہ اس لئے کہ وہ جدید علوم کے پرزور حامی تھے ۔ ابتدائی جماعتوں میں مختلف مضامین کو پڑھانے کے بجائے ان کا نظریہ تھا کہ ایسی ریڈرس تیارکروائی جائیں جن میں مضامین کے اسباق مناسب تناسب کے ساتھ شامل ہوں ، اس قسم کی ریڈرس مولوی محمد اسماعیل میرٹھی نے تیار کی تھیں جس سے سبق آموز کہانیاں ، قصور کے علاوہ تاریخ اور جغرافیہ کی بھی اچھی معلومات بہم پہنچائی گئی تھیں ۔ان میں موسمیات ، کانکنی ، حفظان صحت ، (ANATOMY) اعضاء کی شناخت اور اس کی ماہئیت اور زراعت سے متعلق بھی اسباق شامل تھے ۔ یہ اصول جدید تعلیمی نفسیات اور اصول کے مدنظر بچہ یہ جانے بغیر کہ وہ کوئی نیا مضمون یا سبق پڑھ رہا ہے ۔ وہ اپنے تئیں معلومات حاصلہ اور مضمون میں فراہم کی گئی معلومات کا موازنہ کرتا جاتا اور نئے امور سیکھتا چلا جاتا ہے ۔
ثانوی جماعتوں میں مولانا محمد علی جوہر عام تعلیم کے قائل تھے اور مضامین کی تلخیص کو یونیورسٹی کے مرحلہ سے قبل مسترد کردیا کرتے اور ثانوی جماعتوں میں علاقائی زبان ، عربی اور دینیات کے علاوہ مزید کوئی تین مضامین پڑھانا ضروری قرار دیتے جوکچھ حد تک موجودہ ، تعلیمی نظام میں رائج فارمولہ کے مساوی ہے ۔ یعنی زبانوں کے لئے سہ لسانی فارمولہ اور مزید تین مضامین پڑھائے جارہے ہیں یہ تمام نظریات مولانا محمد علی جوہر کے تعلیمی افکار پر دلالت کرتی ہیں ۔ جس میں ملک کے نونہالوں کو زیور تعلیم سے آراستہ کرنے کے لئے ضروری تعلیمی امور پر کس قدر انہوں نے کام کیا تھا ۔

اوپر کی گئی بحث میں شعبۂ سائنس کا ذکر نہیں ہے ۔ اس سے قاری کو یہ تاثر ملتا ہوگا کہ مولانا کے ہاں جدید سائنسی تعلیم کے لئے کیا نظریہ تھا اس سوال کے جواب میں کہوں گا کہ مولانا محمد علی جوہر سائنسی علوم کی تحصیل یوروپ سے کسی قدر بہتر اور موثر انداز میں عمل آوری کے متمنی تھے ۔ یعنی سائنسی تعلیم کی غرض و غایت نسل انسانی کی اصلاح و فلاح ہونی چاہئے نہ کہ اس کی تباہی و بربادی اور فلاکت و ہلاکت فی زمانہ مولانا محمد علی جوہر کے اسی خوف کی سچائی ہمارے سامنے ہے ۔ ادھر عراق ، شام ، فلسطین اور اسرائیل میں اسی سائنسی ترقی کی ہولناکیاں دیکھنے کو مل رہی ہیں جس میں انسان کی فلاح کے  بجائے بربادی پنہاں ہے ۔ مولانا محمد علی جوہر کے تعلیمی افکار میں ملک و قوم کے ہر فرد کے لئے جگہ تھی ۔
جہاں تک ہمارے ملک کے عوام کی تعلیمی معاشی صورتحال کا تعلق ہے آزاد ہندوستان میں بھی ہمارے سماج میں امیری اور غریبی کے تناسب میں تبدیلی نہیں آئی ہے جس کے پیش نظر ملک میں آج بھی قابل لحاظ طبقہ مذہب کی تخصیص کے بغیر غربت کی زندگی گذارنے پر مجبور ہے ۔ ان کے لئے تعلیمی سہولتوں کی فراہمی کے لئے مولانا محمد علی جوہر آزادی سے قبل ہی ایک لائحہ عمل بنارکھا تھا ۔ جس میں غریب طبقہ کے لئے اسکولوں میں ایک معیار مقرر کرنا تھا تاکہ ہر طبقہ کے بچے اس میں داخلے کے متحمل ہوسکیں ، مجھے محسوس ہوتا ہے کہ یہی نظریہ آج کے تعلیمی نظام میں رائج ہے ۔ غرض مولانا محمد علی جوہر نے اپنے تعلیمی افکار کو کسی پیچیدہ فلسفہ کے تحت پیش نہیں کیا وہ ملک اور قوم کی ضروریات کی تکمیل کے لئے تھا ۔ جو بہت حد تک سودمند ہے ۔ جس میں بہت سے امور پر عمل آوری ہورہی ہے ۔