مولانا عبدالماجد دریابادی کی ادبی نگارشات

نافع قدوائی

جید عالم دین، بے مثل ادیب، مرثیہ نگار، آب بیتی نگار، عظیم کالم نویس، صحافی، مفسر قرآن مولانا عبدالماجد دریابادی ایک ایسے نابغہ روزگار شخصیت کے مالک تھے جنھوں نے جس موضوع پر قلم اُٹھایا حق ادا کردیا۔ مولانا دریا بادی جیسی عظیم شخصیات بہت کم پیدا ہوتی ہیں جن کے قلم کا اعتراف پورے برصغیر نے کیا۔ ان کے ہفتہ وار کالم ’’سچی باتیں‘‘ جو ان کے ہفتہ وار اخبار ’’سچ‘‘ 1925 ء سے لے کر 1974 ء تک ہفتہ وار صدق جدید کی مقبولیت کا اندازہ اسی سے لگایا جاسکتا تھا کہ ادھر یہ کالم مولانا کے اخبار میں شائع ہوا اُدھر یہ کالم ہندوستان، پاکستان کے تمام بڑے اخبارات نقل کرکے اپنے قارئین تک جلد از جلد پہونچانے میں باقاعدہ مقابلہ کرتے نظر آتے تھے۔

بارہ بنکی کے ایک چھوٹے سے قصبہ دریا آباد کو مولانا عبدالماجد دریابادی نے اپنے نام کے جز کے استعمال پر علمی، ادبی، صحافتی، دینی، مذہبی حلقوں میں ایسا متعارف کرایا کہ آج بھی دریاآباد کی اگر کوئی شخصیت بیرون یوپی اور بیرون ملک جاکر اپنا تعارف دریا آباد سے کراتی ہے تو اس سے پہلے پوچھا جاتا ہے کہ کیا اس کا تعلق مولانا عبدالماجد دریابادی کے آبائی وطن سے ہے اور یہ بتانے پر اس کی خاطر تواضع بھی بڑھ جاتی ہے۔ متعدد اُردو صحافیوں نے کالم لکھے لیکن جو مقبولیت مولانا عبدالماجد دریابادی کے کالم ؍ اداریہ ’’سچی باتیں‘‘ کو حاصل ہوئی وہ آج تک کسی کو نہیں ملی۔ مولانا دریابادی نے 1925 ء سے سچی باتیں اپنے اخبار سچ میں لکھنی شروع کی جس کا سلسلہ صدق جدید 1974 ء تک جاری رہا۔ 1974 ء میں مولانا پر فالج کا حملہ ہوا جس کے بعد مولانا نے باقاعدہ اعلان کرکے اپنا صحافتی قلم رکھ دیا تھا۔ مولانا دریابادیؒ کے حقیقی بڑے بھتیجے اور داماد حکیم عبدالقوی دریابادی جنھوں نے اپنی صحافتی زندگی کا سفر مولانا دریابادی کی تربیت میں شروع کیا تھا اور مولانا کی زندگی ہی میں صدق جدید کے شذرات وغیرہ لکھنے شروع کردیئے تھے۔ مولانا دریابادی کے اخبار کا اختتامی کالم سچی باتیں ہوتا تھا اس کالم میں دینی، اخلاقی، علمی، ادبی، فکری، تہذیبی، تاریخی، سیاسی، معاشرتی موضوع کو تحریر کے لئے منتخب کیا جاتا تھا۔ سچی باتیں کا ایک نمونہ پیش ہے۔

’’آپ نے اپنی عمر میں خدا کے فضل سے نمازیں بہت سی مسجدوں میں ادا کی ہونگی، بدآواز، خوش آواز، ہر قسم کے مؤذنوں کی آوازیں سنی ہونگی۔ یہ ارشاد ہو کہ اپنے سارے تجربہ میں آپ نے کسی بیرسٹر کو بھی اذان دیتے سنا ہے؟ کسی انجینئر کی زبان سے حی علی الصلوٰۃ ، خیر من النوم کی پکار آپ نے سنی ہے؟ کسی ہائی کورٹ کے جج کو منبر پر چڑھ کر نماز کی دعوت دیتے آپ نے دیکھا ہے؟ کوئی کونسل اور اسمبلی کے ممبر بحیثیت مؤذن کے آپ کے تجربہ میں کبھی آیا ہے؟ کسی خان بہادر، کسی سی ایس آئی، کسی راجہ، کسی نواب، کسی ایل ایل بی، کسی ایم اے، کسی بی ایس سی کو آپ نے کبھی اس ہیئت میں دیکھا ہے کہ ہاتھوں کی اُنگلیاں کان پر ہوں اور حلق سے اللہ کے نام کی پکار بلند ہورہی ہو؟ کیا اِن عہدوں کے حامل ہوتے ہی ، ان مرتبوں پر فائز ہوتے ہی ان امتحانات کو پاس کرتے ہی خدانخواستہ آواز اور حلق کو کوئی صدمہ پہنچ جاتا ہے؟ اگر ایسا ہے تو کونسلوں کے ہال میں گرج گرج کر تقریریں کون کرتا ہے؟

کالج کے ’’کلب‘‘ اور یونیورسٹی کی ’’یونین‘‘ کے در و دیوار کن کی پرزور تقریروں سے گونج اُٹھتے ہیں؟ ہر کانگریس میں ہر کانفرنس میں، ہر لیگ میں، ہر کمیٹی میں، ہر انجمن میں، چندہ کے لئے چیخ چیخ کر اپیلیں کون کرتا رہتا ہے؟ خدمت گاروں پر یا چپراسیوں پر، ادنیٰ ماتحتوں پر گرجنے اور برسنے کی آوازیں جو اپنی قوم کی، اپنے ملک، اپنے ’’سرکار‘‘ کی، اپنے جتھے کی، اپنی پارٹی کی، اور سب سے بڑھ کر خود اپنی ذات کی بڑائی کے پکارنے میں اس قدر بلند رہتی ہیں؟ جب اللہ کی بڑائی کے پکارنے کا وقت آتا ہے تو معاً پست ہوجاتی ہیں؟ یہ کیا خدا کا غضب ہے کہ ہر چھوٹے کی بڑائی کو پکارنے میں ہم اپنی عزت سمجھیں، اپنی وقعت سمجھیں، لیکن ایک اور اکیلے بڑے کی بڑائی کے پکارنے کے وقت ہم شرمانے لگیں۔ اس میں اپنی توہین محسوس کرنے لگیں؟ بندوں کی غلامی کرنا ہمارے لئے باعث فخر، کافروں کی نوکریاں اور کافروں کے دربار میں عزت و رسوخ حاصل کرنا ہمارے لئے موجب مسرت و مشرف لیکن اللہ کی وحدانیت اور حضرت محمد ﷺ کی رسالت کا علی الاعلان گواہی دینا ہمارے لئے باعث توہین و شرم!! انجمنوں اور مجلسوں کے سکریٹری ناظم معتمد بننے کے ہم حریص، کسی میٹنگ اور جلسہ کے لئے اپنے نام سے دعوتی کارڈ جاری کرنے کے لئے ہم بیتاب، لیکن اللہ کے آگے سر جھکانے والوں کو جمع ہونے کی دعوت دینا ہماری خودداری کے منافی، ہمارے آئین، تہذیب سے خارج! لیکچروں اور کتابوں میں حضرت بلالؓ کے فضائل و مناقب پر دریا بہادینے کو تیار لیکن روزانہ کی زندگی میں قدم قدم پر عمل حضرت بلالؓ کی تذلیل اور تقلید بلالؓ اپنے لئے باعث ننگ و توہین! عزیزو اور دوستو سوچو !

کیا زمانے میں پنپنے کی یہی باتیں ہیں
اپنے اس طرز عمل پر یہ دعویٰ کہ مسلمان ترقی کریں گے! اپنی جھوٹی عزت دکھانے والو! اور اللہ کی بڑائی پکارنے میں کسر شان سمجھنے والو، دیکھو کہ عزت اور کبریائی والا خدا دنیا کی حقیر سے حقیر اور ذلیل سے ذلیل قوموں کے ہاتھ سے آج ہمیں کیسا ذلیل و خوار کررہا ہے!

مولانا عبدالماجد دریابادی نے درجنوں تعزیتی مضامین لکھے ہیں۔ تعزیتی مضامین یوں تو متعدد ادباء نے لکھے ہیں لیکن مولانا دریابادی نے تعزیتی مضامین میں جو ندرت بیان ، حزن و ملال اور غم سے مملو ہیں۔ مولانا دریابادی کے تقریباً 62 تعزیتی مضامین کا انتخاب کرکے عم محترم حکیم عبدالقوی دریابادیؒ نے کتابی شکل میں وفیات ماجدی یا نثری مرثیے کے نام سے شائع کی تھی۔ یہ ادارہ انشائے ماجدی نے شائع کیا ہے۔ مولانا دریابادی نے 28 فبروری 1958 ء میں مولانا ابوالکلام آزاد کے انتقال پر لکھا :

آج وہ اُٹھ گیا!
-1 جو اُردو ادب و انشاء میں ایک ممتاز ترین مقام رکھتا تھا جس کا اس میدان میں کوئی سہیم و شریک نہ تھا اور وہ جس نے اپنا کوئی جانشین نہیں چھوڑا۔
-2 جو اُردو زبان کا ایک بہترین مقرر و خطیب تھا۔
-3 جو مدتوں دین و قرآن کی خدمت اپنی بصیرت اور ادراک کے مطابق کرتا رہا۔

-4 جو ملکی سیاسیات کے صف اول میں 30 ،35 سال سے رہا کیا۔
-5 جس نے اُردو صحافت میں ایک بالکل نیا اور شاندار باب کھول دیا۔
-6 جو عظیم الشان تحریک خلافت کے اکابر کی کہنا چاہئے اب آخری یادگار رہ گیا۔
-7 جو اب پیکر شرافت بن گیا اور 47 ء کے بعد سے خدا معلوم کتنے بے سہاروں کا سہارا بنا رہا۔

اللہ بال بال مغفرت فرمائے ! اللھم اغفرلہ و ارحمہ
مولانا محمد علی جوہر کے انتقال پر مولانا دریابادی نے جو مضمون لکھا اس کی آخری سطریں اس طرح ہیں :

بدنصیب قوم رو، اور ساری عمر روتی رہ، آج تُو بیوہ ہوگئی، تیرا والی وارث چل بسا، تیرا سہاگ لُٹ گیا، صبر کر جس طرح غمزدہ رانڈیں اور سوگوار بیوائیں صبر کیا کرتی ہیں! خفتہ بخت ملت آج تو یتیم ہوگئی تیرے سر سے سایۂ پدری اُٹھ گیا، شفقت پدری سے تُو محروم ہوگئی، صبر کر جس طرح بے کس اور بے بس یتیم صبر کرتے ہیں! اللہ ہی سب قدرت ہے ہر نیست کو ہست اور ہر ناممکن کو ممکن کر دکھا سکتا ہے لیکن ہم گرفتار اسباب بندے اب کیا کہہ کر اپنے دل کو سمجھائیں اور کس چیز سے اپنے کو تسکین دیں؟
اپنی والدہ کی یاد میں ’’ماں کے قدموں پر‘‘ مولانا مرحوم کی یہ آخری مناجات بے حد متاثر ہے۔
اے مالک و مولیٰ ! آج تیرے حضور میں وہ بندی آرہی ہے جس نے 85 سال کی عمر تک روزہ حتی الامکان قضا نہیں ہونے دیا، نماز ایک وقت بھی ناغہ نہ ہونے دی، تیری مخلوق سے محبت کرتی رہی، خود بعد کو کھایا دوسروں کو پہلے کھلایا، جو پایا اس میں دوسروں کو شریک کیا، مئی جون کی لپٹ اور تپش میں روزے رکھے، ڈسمبر جنوری کی کڑکڑاتی راتوں میں اُٹھ کر نماز پڑھی، عزیزوں کی، قریبوں کی، بستی والوں کی غم خوار تھی۔ تیرے نام کی عاشق، تیرے رسول ﷺ کے نام کی دیوانی تھی، میں گواہی دیتا ہوں کہ اس نے میرے ساتھ دنیا میں جو آخری کلام کیا وہ تیرے ہی کلام کے پڑھنے کا حکم تھا۔

آج بیوائیں اس کے نام پر ماتم کررہی ہیں، یتیم اس کے لئے سر پیٹ رہے ہیں، اس کی موت اس مہینے میں آئی جو تیرے رسول برحق ﷺ کی وفات کا مہینہ ہے، اس وقت آئی جب شب دوشنبہ شروع ہوچکی تھی۔ اس مرض (بخاری) میں ہوئی جو تیرے رسول ﷺ نے شہادت کی موت بتائی۔ پھر پردیس میں ہوئی جو تیری رحمت کو جوش میں لانے کا ایک ذریعہ ہے۔ ابدی نیند کی جگہ اس نے ڈھونڈ کر تیرے گھر کے جوار میں پائی تاکہ تیرا نام اس کے کانوں میں پڑتا رہے۔ تیری رحمت تو کسی سہارے کی کسی بہانے کی محتاج نہیں اور پھر اس کے لئے تو اتنے بہانے موجود ہیں۔ اے میرے کریم و شفیق آقا اس کی لغزشوں کو درگزر کیجیو، اس کی خطاؤں پر خطِ عفو پھیر دیجیو، اس کے حسنات کو بڑھائیو اور اس کے ساتھ وہ معاملہ کیجیو جو شایان شان ہو تیری رحمت کے، تیری صفت ستاری کے، تیری صفت غفاری کے‘‘۔

مولانا دریابادی نے اپنی اہلیہ کے انتقال پر 10 جنوری 1969 ء کو ’’بوڑھی محبوبہ‘‘ کے عنوان سے جو مضمون لکھا اس کا ایک اقتباس پیش ہے:
2 جنوری 1969 ء (جمعرات) کو قریب شام ایک لاری 25، 30 مسافروں سے بھری ہوئی نکلی، باندے جارہی تھی، اس وقت کانپور کے حدود میں داخل ہورہی ہے سفر تفریحی نہیں ماتمی ہے،تین لڑکیاں جو ابھی چند گھنٹے ہوئے ماں کے سایہ سے محروم ہوئی ہیں اور جس کا جنازہ اپنی بچیوں کا انتظار کررہا ہے ایک 75 ، 76 سال کا بوڑھا ہے جو اس دنیا کے عزیز ترین متاع سے محروم ہوچکا ہے اس طرح چھوٹے بڑے دوسرے عزیز و اقارب ہیں کسی کی زبان پر کلمہ شہادت اور کسی کسی زبان پر قرآن کی سورتیں اور اکثر کی آنکھوں سے آنسو رواں ہیں۔ وقت سوا پانچ سے گزر چکا ہے۔ آفتاب زرد پڑچکا ہے۔ ہر منٹ پر بلکہ سکنڈ ڈوبتا ہی چلا جارہا ہے۔ کھلے میدان میں جب کبھی غروب آفتاب کا منظر دیکھنے کا اتفاق ہوا ہے دل ہمیشہ اس سے متاثر ہوا ہے۔ رفیقہ زندگی ہی کے آخری لمحات حیات کا نقشہ نگاہوں کے سامنے کردیا۔ آج یہ خیال نہیں واقعہ ہے قال نہیں حال ہے اپنی دنیوی زندگی کے لطف و سکون و راحت کا آفتاب ڈوب رہا نہیں بلکہ واقعتاً ڈوب چکا ہے‘‘۔

مولانا عبدالماجد دریابادی نے ’’آپ بیتی‘‘ لکھ کر گویا آپ بیتی کے ادب کا حق ہی ادا کردیا۔ مولانا نے آپ بیتی کے دیباچہ میں لکھا ہے کہ ’’عزیزوں، دوستوں، مخلصوں کی ایک چھوٹی سی جماعت کا اصرار ہے کہ 74 ،75 سال کی عمر کا ایک پیر نابالغ اپنی آپ بیتی دوسروں کو سنائے اور نادانیوں، سفاہتوں کی بھی سرگزشت دنیا کے سامنے اپنی زبان سے دہرائے اللہ جانے انسان کو انسان کی پستیوں، رسوائیوں، فضیحتوں کی داستان سننے میں کیا مزہ آتا ہے اور یہاں تو خیریت سے سادہ دل بندوں کا ایک جم غفیر اس دھوکے میں پڑا ہوا ہے کہ جلوے کسی عالم، فاضل، اہل اللہ کے ان صفات میں دیکھنے میں آئیں گے اور موعظے کسی حکیم و عارف باللہ کے سننے میں آئیں گے۔ اللہ اللہ اس عالم آب و گل میں کسی کی صفت ستاری سے کیسے کیسے پردے، عیبوں، مجرموں، خاطیوں کے چہرے پر اور اچھے اچھے دانش و بصیرت رکھنے والوں کا فہم و نظر پر ڈال رکھے ہیں؟

بہرحال خوش فہمیوں میں مبتلا رہنے والے اپنے کو خوش گمانیوں میں ڈالے رکھنے والے اپنے فضل و عمل کے ذمہ دار و مختار ہیں۔ یہاں تو صرف یہ دعا اپنے پیدا کرنے والے سے ہے کہ جو کچھ آپ بیتی ہے اسے بشری حد تک بے کم و کاست سپرد کر ڈالنے کی توفیق اس بدہمت کو ہوپائے۔ ’’حد بشری‘‘ کی قید اس لئے ضروری ہے کہ راست گوئی کا جو حق ہے اسے زبان قلم سے اپنے حق میں ادا کرنا بجز نبیؐ معصوم کے اور کس کے بس کی بات ہے؟ اہم ایسوں کے لئے بھی بہت ہے کہ قلم کا دامن کذب صریح و افتراء بینی سے آلودہ نہ ہونے پائے۔ بہرحال آرزو و کوشش کے ساتھ دعا ہی بندے کی یہی ہے اور اس کا قبول کرنا اس کے ہاتھ میں ہے جس کے ہاتھ میں سب کچھ ہے… حسب روایت شیخ سعدیؒ لوگوں نے لقمان سے پوچھا کہ یہ تمیز و دانش کس سے سیکھی جواب ملا کہ بدتمیزوں اور بے ہنروں سے، جو حماقتیں ان میں دیکھی تھیں ان سے احتیاط برتیں۔

عجیب کیاکہ اللہ کے بعض بندے کچھ اسی نوعیت کے سبق اس خرافات نگاری سے حاصل کرلیں اور اس کوڑے بلکہ گھوڑے کے ڈھیر کر کرید کر عبرت کے کچھ موتی اس سے چن لیں اور جس نے ساری عمر تباہ کاری کی نذر کردی اس کے بگاڑے، اپنے بناؤ کا کچھ سامان فراہم کرلیں‘‘۔ مولانا نے اپنی ’’بسم اللہ‘‘ کے واقعہ کو یوں بیان کیا ہے ’’بسم اللہ اب کیا بتایا جائے کہ یہ متبرک رسم اس وقت بھی ہے ان اوراق کی قسمت میں دیکھئے کب شائع ہونا ہے خدا معلوم اس وقت تک مسلمانوں میں ہی کتنے اس رسم کے جاننے والے اور سمجھنے والے رہ جائیں گے! اُنیسویں صدی کے آخر، بلکہ بیسویں صدی کے بھی ربع اول تک یہ دستور ہر پڑھے لکھے گھرانے میں تھا کہ بچہ ادھر پانچ سال کا ہوا اُدھر اسے عام پڑھائی شروع کرانے سے قبل ایک چھوٹے سے مجمع میں اسے بٹھاکرقواعد بغدادی سنائے ایک پرانی و دُھرانی کتاب اس کے ہاتھ میں دے۔ لفظ بسم اللہ پر اس کی ننھی سی اُنگلی رکھا کسی متبرک شخص کی زبان سے پوری بسم اللہ الرحمن الرحیم اس سے دہروادی جاتی تھی۔ مولوی صاحب ایک ایک ٹکڑا الگ الگ کہہ کر کہتے جاتے اور بچہ اسے دہراتا جاتا۔

ابھی ابھی فقرہ زبان قلم سے ادا ہوا ہے کہ ’’بوا نے مجھے گود میں اُٹھالیا‘‘ فقرہ آج 74 ، 75 سال کی پیر سال خوردہ کی زبان سے ادا ہوا ہے۔ ہائے وہ دایہ کے گود میں جانے کی لذت ! اب کیا بیان ہو؟ وہ لذت جس کا بدل نہ کبھی جوانی کی گرمیاں دے سکیں نہ کبھی بڑھاپے کی خنکیاں!مولانا عبدالماجد دریابادیؒ کے تعلقات کا دائرہ بہت وسیع تھا۔ وہ تمام خطوط کے جوابات بڑی پابندی سے دیتے تھے۔ 1953 ء سے مولانا نے اپنے خطوط کو نقل کرنے کا نظم کیا۔ مولانا کے خطوط کی نقل مولانا مرحوم کی منجھلی صاحبزادی (اہلیہ حبیب احمد قدوائی) جو راقم السطور کی والدہ تھیں، کرتی تھیں کئی ہزار خطوط جو نقل کی بناء پر محفوظ ہیں ان کو عم محترم جناب ڈاکٹر محمد ہاشم قدوائی نے مکتوبات ماجدی کی کتابی شکل میں مرتب کئے ہیں۔ مع حواشی مکتوبات ماجدی کے بیشتر خطوط ادبی چاشنی لئے ہوئے ہیں۔ مولانا نے 17 جولائی 1953 ء کو سید آل عبا صاحب مار ہروری آوارہ کو خط لکھا تھا۔

17 جولائی 1953 ء
برادرم! وعلیکم السلام
’’آوارگی‘‘ کے پردے میں یہ ’’ردائے آل عبا‘‘ خوب نکلی۔ سبحان اللہ۔
ہماری کم نگاہی تم کہاں تھے ہم کہاں سمجھے۔دل نے کہا ’’فرقہ ملامتیہ‘‘ ابھی زندہ ہے کل اٹھارہ جولائی کی شب میں وقت نکال کر ضرور آپ کی پیش کردہ ’’بی بھٹیاری‘‘ سے دل بہلاؤں گا اور جی میں آئی تو پھر آپ کے اسٹیشن ڈائرکٹر کو اپنے تاثرات بھی بھیج دوں گا۔والسلام دعا گو دعا خواہ۔
مولانا دریابادیؒ جیسی ہمہ گیر علمی، ادبی، بہترین مفسر قرآن اور بے مثل صحافی شخصیت کا پیدا ہونا ایک طرح سے بند ہی ہوگیا ہے۔ مولانا کی شخصیت کے اتنے پہلو ان کے کارناموں کی اتنی طویل فہرست ہے کہ کہ جن پر بلا مبالغہ کئی سو صفحات پر مشتمل کتاب لکھی جاسکتی ہے۔ 15 مارچ 1892 ء میں مولانا نے آنکھ کھولی اور 6 جنوری 1977 ء کو لکھنو میں اس دار فانی سے کوچ کیا۔ ان کی زندگی کے 85 سال آج بھی مشعل راہ ہیں۔