مولانا خواجہ شریف علمی نابغۂ روزگار عبقری شخصیت

عمدۃ المحدثین کے سانحہ ارتحال پر مختلف شخصیتوں اور تنظیموں کا اظہارتعزیت

حیدرآباد ۔ 15 ڈسمبر (راست) بانی و مہتمم دارالعلوم سیف الاسلام مولانا ابوعمار عرفان اللہ شاہ نوری نے اپنے تعزیتی پیام میں کہا کہ حضرت علامہ مولانا محمد خواجہ شریف قادری شیخ الحدیث جامعہ نظامیہ بعمر 8 سال جامعہ نظامیہ سے بحیثیت طالب علم داخلہ لیا اور وہیں خدمات کا سلسلہ جاری رکھا بعمر 80 سال ایک عظیم محدث، مفسر، فقہ، خطیب، ادیب، عربی انشاء پرداز مصنف اور بلندپایہ شاعر، عاشق رسول شیخ کامل، ماہر تعلیم و تدریس سے وابستہ رہے۔ جذبہ خدمت خلق سے سرشار، عامتہ المسلمین کے بہی خواہ وغیرہ وغیرہ کے حامل ہوکر سینکڑوں، تلامیدہ، ہزاروں مریدین، لاکھوں معتقدین اور چاہنے والوں کے ایک عظیم گروہ کو غمگسار چھوڑ کر ملک عدم روانہ ہوگئے یقینا وہ اس دور کی عظیم علمی نابغۂ روزگار عبقری شخصیت تھے۔ رب تعالیٰ ان کی مغفرت فرمائے اور اعلیٰ عیلین میں درجات بلند عطا فرمائے اور فرزند دلبند الحاج محمد ولی اللہ ادریس کو صبرجمیل عطا فرمائے۔
00 عالم اسلام کی مایہ ناز علمی شخصیت عمدۃ المحدثین حضرت مولانا خواجہ شریف شیخ الحدیث جامعہ نظامیہ کے سانحہ ارتحال سے دنیائے علم حدیث کا ناقابل تلافی خسارہ ہوگیا ہے۔ خانقاہ قادریہ ابراہیمیہ علمائے نظامیہ، متعلقین و متوسلین اور تلامذہ سے اظہارتعزیت کرتے ہوئے حضرت علیہ الرحمہ کی بلندی درجات کیلئے دعا کی گئی ہے۔
00 حافظ و قاری عبدالقیوم نعمانی امام و خطیب مسجد سدی عنبر بازار نے معروف عالم دین مولانا خواجہ شریف شیخ الحدیث جامعہ نظامیہ کے سانحہ ارتحال پر رنج و ملال کا اظہار کرتے ہوئے اسے عظیم نقصان سے تعبیر کیا۔ مولانا نے کہا کہ حضرت العلامہ نے اپنی ساری زندگی رشد و ہدایت، درس و تدریس، وعظ و نصیحت میں گذاری۔ حضرت علامہ عیش و آرام کی جگہ مشکلات کے راستہ کو پسند فرماتے۔ آپؒ کو مسلمانوں کے مسائل، اسلام اور تعلیم اسلام سے گہرا لگاؤ تھا۔ یہی وجہ ہیکہ آپ بے لوث خدمت خلق فرماتے اس طرح کہ آپ کی زندگی اپنے لئے نہیں بلکہ قوم و ملت کیلئے اور انسانیت کیلئے تھی۔ آپ اسراف کو پسند نہیں کرتے بلکہ غریبوں، بیواؤں اور لاچاروں پر خرچ کرنے کو پسند کرتے۔ حضرت علامہ کے ارشادات اور تصانیف ملت کیلئے عظیم سرمایہ حیات ہے۔ سینکڑوں ہزاروں فرزندان توحید آپ کے علمی فیضان سے مستفید ہوئے۔ آپ کی گراں قدر خدمات ناقابل فراموش ہیں۔ ہمیشہ درس و تدریس میں مشغول رہا کرتے تھے۔ آخر میں مولانا عبدالقیوم نعمانی نے اللہ تعالیٰ سے دعا کی کہ حضرت قبلہ کو جنت الفردوس میں اعلیٰ سے اعلیٰ مقام عطا کرے اور لواحقین کو صبرجمیل عطا کرے۔
00 مولانا خواجہ شریف کی رحلت پر صدر سراج العلماء اکیڈیمی مولانا نعیم الدین حسامی عادل نے اپنے تعزیتی پیام میں کہا ہیکہ عالم دین کی موت عالم کی موت کے برابر ہے۔ مولانا مرحوم شیخ الحدیث جامعہ نظامیہ کی حیثیت سے اپنی ساری عمر حدیث کا درس دیتے ہوئے گزا دی۔ وہ منکسرالمزاج اور تقویٰ اور پرہیزگاری کے لحاظ سے دورحاضر میں ایک مثالی شخصیت تھے۔ ان کا بدل ملنا بہت مشکل ہے۔ اللہ تعالیٰ ان کی روح کو سکون عطا فرمائے اور ان کی قبر کو نور سے بھردے اور جنت الفردوس میں جگہ عطا فرمائے اور پسماندگان کو صبرجمیل عطا فرمائے۔
00 جامع مسجد بارکس میںعمدۃ المحدثین مولانا خواجہ شریف صاحب کے لئے غائبانہ نماز جنازہ اور دعاء کا اہتمام کیا گیا اس کے بعدمولانا حافظ حامد بن محمد قریشی استاذ جامعہ نظامیہ و خطیب جامع مسجد بارکس نے اپنے تعزیتی بیان میں کہا کہ شہر حیدرآباد ایک عظیم علمی و روحانی شخصیت سے محروم ہوگیا،مرحوم نے قرآن و حدیث کے علوم کی ترویج و اشاعت اور درس و تدریس کیلئے اپنی زندگی کو وقف کر رکھا تھا اور آپ سے کسب فیض کرنے والوں کی تعداد ہزاروں میں ہے ،مولانا نے کہا کہ شیخ الحدیث خواجہ شریف صاحب رحمۃاللہ علیہ جامعہ نظامیہ کے قابل فخر اثاثہ تھے،حضرت شیخ الحدیث علمی دنیاکے اُن بلندپایہ کے محدثین میںتھے جنہیں ایک طویل عرصہ تک حدیث کی تدریس کا موقع ملا ،کم و بیش پچاس سال سے زائد کے عرصہ تک آپؒ نے بخاری شریف کا درس دیا جو کہ اپنے آپ میں ایک بڑا امتیاز ہے ،حضرت شیخ الحدیث رحمۃاللہ علیہ جہاں اتنے بڑے محدث تھے وہیں آپ کی زندگی انتہائی سادہ اور زہد وقناعت اور صبر و شکر کا حسین مجموعہ تھی۔ انھوں نے مرحوم کے اہل خانہ سے تعزیت کرتے ہوئے دعاء کی کہ اللہ رب العزت انہیں جنت الفردوس میں اعلیٰ مقام عطاکرے اور انکے پسماندگان اور اُن سے محبت کرنے والوں کو صبر جمیل عطاکرے۔
00 نائبین قضاء ت ویلفیر اسوسی ایشن تلنگانہ اسٹیٹ و گورنمنٹ قضائت قلعہ محمد نگر حیدرآباد و رنگاریڈی کی جانب سے خطیب بے مثال واعظ شرین عمدۃ المحدثین استاذ الاساتذہ حضرت علامہ مفتی خواجہ شریف صاحب شیخ الحدیث جامعہ نظامیہ کے انتقال پر اظہارتعزیت کرتے ہوئے کہا کہ ملت اسلامیہ بالخصوص طلباء و علماء برادری کا عظیم نقصان ہے۔ حضرت شیخ الحدیث کا شمار ہندوستان ہی نہیں بلکہ دنیا اسلام کے مایہ ناز علماء میں ہوتا تھا۔ آج حضرت کا ثانی اس دور میں ملنا مشکل ہے۔ انتہائی خاموش مزاج کے مالک تھے۔ عاجزی و انکساری میں آپ کا ثانی نہیں ہے۔ آپ کے علمی کارناموں و تصنیف و تالیف کی ایک لمبی فہرست ہے۔ حضرت کے انتقال سے جو خلاء پیدا ہوا اس کا پُر کیا جانا مشکل ہے۔ آپ کی شخصیت اور سادگی کا ہر کوئی معترف تھا۔ آپ کے دینی و ملی خدمات کا دائرہ کافی وسیع تھا۔ اللہ تعالیٰ سے دعا ہیکہ آپ کے درجات کو بلند فرمائے اور لواحقین کو صبرجمیل عطا فرمائے۔