مولانا جلال الدین رومیؒ

سعید حسین
مثنوی کے اس آغاز اور پہلے شعر پر مثنوی کے شارحین نے کیا کچھ نہیں لکھا ہے۔ کیسے کیسے نکتے پیش کئے گئے ہیں۔ یہ انسان کی داستان اور تمثیل ہے۔ انسان ہی تو اس نیستان وجود یعنی دنیا میں نغمہ سرا ہے۔ وہ بانس جو ہمیشہ نغمے تخلیق کرنے والی بانسری ہے۔ اس کا مسئلہ اس دارالامتحان اور دارالاجسام میں آجانا ہے۔یوں وہ ذات باری تعالیٰ سے بچھڑ گیا اور اب اس کے لب ہیں اور دائمی نغمہ جدائی۔ بانسری دیکھنے میں تو خشک چوب و خشک پوست ہے۔ پھر…
از کجامی آید ایں آواز دوست
(’’آواز دوست تو وجود کی گہرائیوں سے ابھر رہی ہے۔‘‘)
مولانا رومؒ راتوں کو شعر بولتے جاتے اور چلپی حسام الدین تحریر کرتے جاتے اور بڑے دل آویز و دل سوز لہجے میں یہ شعر مولانا کو سناتے رہتے اور بسااوقات پوری رات یوں ہی گزر جاتی۔ پھر وہ ان اشعار کو خوش خط لکھوا کر مولانا کی خدمت میں پیش کرتے اور مولانا نظر ثانی فرماتے۔ یوں مثنوی کا زمانہ تصنیف پندرہ برسوں کی مدت پر محیط ہے۔ مولانا تمثیل و حکایت کے ذریعے اپنے موضوع کو چمکاتے اور ہمارے تجربہ کا حصہ بنادیتے ہیں۔ اس باب میں غالباً عالمی ادب میں ان کا کوئی حریف نہیں۔
مثنو ی مولانا روم کے چند موضوعات:
مثنوی رومی رندگی کی وسعتوں کا ایک اشاریہ ہے۔ کون سا ایسا موضوع ہے جو ان کی نظر اور فکر سے بچا ہو۔مثنوی میں تقدیر اور عقائد اسلامی، جزا و سزاء ’’جبرو اختیار‘‘ سارے ہی بنیادی مباحث ہمیں اس طرح ملتے ہیں کہ دماغ ہی انہیں تسلیم نہیں کرتا بلکہ دل کو بھی سکون اور اطمینان حاصل ہوتا ہے۔
مثنوی کے موضوعات میں شرف انسان اور تکریم آدم کو بڑی اہمیت حاصل ہے۔ اس کے لئے وہ اللہ جل شانہ کی آخری اور محفوظ ترین کتاب قرآن حکیم سے اشارے مستعار لیتے ہیں اور انہیں اپنے بیان میں جگہ دیتے ہیں۔ قرآن حکیم نے فرمایا ہے کہ : ’’ہم نے آدمی کو بحیثیت آدمی واجب تکریم بنایا ہے۔‘‘ اور پھر حضور اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی شان میں‘‘ اعطیناک‘‘ آیا ہے۔ ’’ہم نے آپؐ کو کوثر عطا کیا۔‘‘اور حضور اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم انسانیت کے عظیم ترین نمائندے ہیں۔مولانائے روم کے نزدیک انسان کی عظمت اور اہمیت کا سبب ذوقِ عمل ہے۔ ہمارے دور کی طرح ان کے زمانے میں بہت سے لوگوں نے اپنی بے عملی کو ’’توکل‘‘ کا نام دے دیا تھا۔ مولانا نے مثنوی میں ایسے توکل کو رد کردیا ہے۔
گفت پیغمبرؐ باآواز بلند
باتوکل زانوئے اشتریہ بند
رمز ’’الکاسب حبیب اللہ‘‘ شند
از توکل درکسب کابل مشد
(پیغمبرؐ خدا نے بلند آواز میں وضاحت کے ساتھ فرما دیا کہ توکل کے ساتھ اونٹ کا پیر باندھ دو (یعنی اونٹ کا پیر باندھ دو اور پھر اللہ تعالی پر توکل کرو کہ اونٹ بھاگے گا نہیں) الکاسب حبیب اللہ۔ (کمانے والا اللہ تعالیٰ کا دوست ہے) کا بھید سنو اور سمجھو اور رزق حاصل کرنے میں توکل کا بہانہ کرکے کاہلی نہ کرو۔‘‘)
مولانا نے مثنوی میں عمل کے راز کو سامنے کی مثال سے آشکار کیا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے ہمیں ہاتھ پاؤں اور جسمانی طاقت دی ہے تو کیوں؟ اسی لئے کہ ہم اپنے اعضاء اور قوت سے کام لیں۔ ایک آدمی اپنے ملازم کو کدال دیتا ہے تو کیا زبان سے کہنا ضروری ہے کہ تم زمین کھودو۔مولانا نے مثنوی میں عقل اور اس کے استدلال کو بے وقعت قرار دیا ہے اور ان کا یہ شعر تو فارسی سے حالیہ دوری کے باوجود ہمارے معاشرے میں ضرب المثل کا درجہ رکھتا ہے۔
پائے استدلالیاں چوبیں بود
پائے چوبیں سخت بے تمکیں بود
’’منطقیوں کا پیر، لکڑی کا بنا ہوا پیر ہے اور لکڑی کا پیر سخت کمزور اور بے وقعت ہوتا ہے۔ (لکڑی کے پیروالا کتنی مشکل سے چلتا پھرتا ہے۔‘‘)
ایسی عقل جو ایمان اور یقین سے محروم ہو، اسے مثنوی میں عقل جزوی کہا ہے۔ اس سے یہ بات بھی واضح ہوجاتی ہے کہ مولانائے روم عقل دشمن نہیں بلکہ وہ اس عقل جزوی کے خلاف ہیں جو عشق و یقین سے بیگانہ ہو۔ عقل جزوی آفت، وہم اور ظن و گمان ہے۔مولانائے رومؒ نے مثنوی میں عشق کو ’’عقل ایمانی‘‘ کہا ہے اور اقبالؔ نے ’’دانش نورانی‘‘ کی اصطلاح استعمال کی ہے۔ یہ بھی اقبالؔ پر مولانا کا اثر ہے۔ دانش نورانی کے مطابق ’’دانش برہانی‘‘ ہے جسے مولانائے روم نے ’’عقل جزوی‘‘ کہا ہے۔ مولانا کا ایک شعر ’’عقل ایمانی‘‘ کے بارے میں ملاحظہ ہو۔
عقل ایمانی چوشحنہ عادل است
پاسبان و حاکم شہر دل است
(’’عقل ایمان عقل کرنے والے کوتوال کی طرح ہے جو شہر دل کی باسبان اور حاکم ہے۔‘‘)
جبرو قدر کا مسئلہ انسانی فکر اور فلسفہ و علم کلام کا بے حد مشکل مسئلہ ہے۔ جو لوگ انسان کو مجبور مطلق سمجھتے ہیں، وہ جبریہ کہلاتے ہیں۔ جبرو قدر کا معاملہ مسئلہ تقدیر سے جاملتا ہے جو ہمارے ایمانیات کا حصہ ہے۔ مولاناؒ روم درمیانی راستے پر چلتے ہیں۔ وہ انسان کو مجبور مطلق نہیں مانتے تھے۔ انسان کو مجبور مطلق ماننے کا مطلب یہ ہے کہ وہ اپنے اعمال کے لئے مکلف نہیں رہے گا۔ مولانا اختیار کو انسانی وجود کا حصہ سمجھتے ہیں۔ حکم اسی کو دیا جاتا ہے جو حکم پر عمل کرسکے۔ مجبور مطلق سے اطاعت احکام کا مطالبہ کون کرے گا؟
جملہ قرآں امرونہی است و وعید
امر کردن سنگ مر مر را کہ دید؟
(’’پورے قرآن میں امرونہی کے احکام ہیں اور بداعمالیوں پر وعید کی گئی ہے۔ کس نے دیکھا کہ سنگ مرمر کو کوئی حکم دیا گیا‘‘)
سنگ مرمر کی مثال کتنی جامع اور قائل کردینے والی ہے۔ یہ مولانائے رومؒ کے فن کا ایک اہم حصہ ہے۔
مغرب، میں مشرقی ادبیات کی جن کتابوں کو سب سے زیادہ شہرت حاصل ہوئی، ان میں مثنوی مولانا رومؒ سرفہرست ہے۔ مجموعی طور پر مثنوی کے اثرات مغرب کے انداز فکر پر شاہنامہ فردوسی اور گلستان سعدیؒ سے زیادہ گہرے مرتب ہوئے ہیں۔شاہنامہ ایک تہذیب کی کہانی ہے جو حقیقت اور افسانے کے تار و پود سے بنی گئی ہے۔ گلستان میں یقینا تنوع اور وسعت ہے اور گلستان سے اس عہد کی زندگی اور معاشرت زندہ ہوکر ہمارے سامنے آئی ہے۔ لیکن مثنوی مولانا رومیؒ نے مغرب کے انسان کی بیقرار روح کو اس طرح سکون عطا کیا ہے جس طرح ہماری روحوں کو انگلستان کے مابعد الطبعیاتی شاعر ہو یا عہد حاضر کی مادیت میں گرفتار مغربی انسان نے انہیں مثنوی ابدیت اور سکون سے ہمکنار کیا ہے۔
انگریزی زبان سمیت دنیا کی کئی زبانوں میں مثنوی کے کئی ترجمے ہوئے ہیں اور یہ مثنوی پر کئی کتابیں شائع ہوئی ہیں۔ ون فیلڈ نے مثنوی کا بہت اچھا مطالعہ کیا اور اسے انگریزی میں منتقل کیا۔ سرجمیز ریڈ ہاؤس نے پورے دفتراول کا منظوم ترجمہ کیا ہے۔ پروفیسر ار ۔اے ۔ نکلسن نے مثنوی کی پوری تشریح انگریزی میں لکھی ہے۔حضرت شمس الدینؒ نے ایک مرتبہ مدرسہ میں فرمایا کہ جو شخص انبیاء کو دیکھنا چاہتا ہو وہ مولانا کو دیکھے کہ ان میں سیرت الانبیاء موجود ہے۔ اگر چاہتے ہو کہ ’’العلماء ورثتہ الانبیاء ‘‘کے معنی معلوم ہوں تو مولانا رومی کو دیکھ لو۔نیز فرمایا کہ ’’اس وقت اصول ، فقہ، نحو، منطق کسی فن میں مولانا سے بڑھ کر کوئی نہیں۔ اگر میں سو برس بھی کوشش کروں تو اس حد کو نہیں پہنچ سکتا۔