مولانا آزاد … ایک عظیم مفکر و دیدہ ور

پروفیسر ایس ایم رحمت اللہ
ڈین‘ سٹیلائٹ کیمپسیس،مولانا آزاد نیشنل اردو یونیورسٹی
مولانا ابو الکلام آزاد کی شخصیت ہمہ جہت صلاحیتوں کی حامل ہے۔وہ عالم دین بھی تھے اور مدبر بھی،مفسر قرآن بھی تھے اور مفکر بھی،بیباک صحافی بھی تھے اور شاعرو صاحب طرز ادیب بھی،صف اول کے سیاست داں بھی تھے اور بے مثال مقرر بھی،مکتوب نگار بھی تھے اور انشاپرواز بھی اور مجاہد آزادی بھی تھے اور وزیر تعلیم بھی۔ مزید یہ کہ لسانیات، لغات، اصطلاحات ، ترجمہ،سائنس،تاریخ و جغرافیہ،منطق وفلسفہ، حدیث وفقہ،قیادت و سیاست اور تعلیم و ثقافت وغیرہ جیسے متعدد میدانوں میں ا نہوں نے مقام امتیاز حا صل کیا تھا۔مولانا آزاد کی ہمہ گیر شخصیت کا احاطہ کرنا اور اس کی نمایاں خصوصیات کو ضبط تحریر میں لا نا یقینا جو ئے شیر بہا لانے کے مترادف ہے۔
مختلف میدانوں میں کمال امتیاز حاصل کر دہ مولانا آزاد کی عبقری شخصیت کا احاطہ کر نے کے لئے حسب ذیل امور پر بحث کی گئی ہے۔
۱۔مو لانا آزاد کی خانگی زندگی
۲۔مو لانا آزاد بحیثیت شاعر،ادیب اور صحافی
۳۔مو لانا آزاد بحیثیت مجاہد آزادی او ران کی سیا سی بصیرت
۴۔مو لانا آزاد بحیثیت وزیر تعلیم
مو لانا آزاد کی نجی زندگی
مولانا ابوالکلام آزاد بتاریخ ۱۱؍نومبر 1888 مکہ معظمہ میں پیدا ہوئے ۔ان کے والد محترم کا نام خیر الدین اور والدہ محترمہ کانام عالیہ بیگم تھا۔آزاد کا اصلی نام احمد،تاریخی نام فیروز بخت ،لقب ابو الکلام اور تخلص آزاد تھا۔1857 سے قبل جب علمائے دہلی ہندوستان کی زبوں حالی دیکھ کر ہجرت کر رہے تھے تو اسی وقت مولانا کے والد صاحب بھی اپنے نا نا مولانا منور الدین کے ساتھ تقریباً پچیس سال کی عمر میں ہجرت کر تے ہوئے مکہ چلے گئے اور وہیں سکونت اختیار کر لی۔مولانا خیر الدین عالم دین اور صاحب تصنیف تھے۔ان کی شادی مدینہ منورہ کے عالم شیخ محمد کی بھا نجی سے ہوئی۔
مو لانا آزاداپنے بھائی اور بہنوں میں چھوٹے تھے۔ان کی تین بڑی بہنیں اور ایک بڑا بھائی تھا ۔آزاد اپنے بھائی اور بہنوں کی بنسبت بہت ذہین تھے۔ان کے مزاج میں بچپن سے ہی مولانا جیسی صفات شامل تھیں۔وہ بہت کم دوسرے بچوں کی طرح کھیلا کر تے تھے۔ عربی ان کی مادری زبان تھی اور اس پر ان کی زبردست گرفت تھی۔انہوں نے فارسی اور اردو زبانیں بھی سیکھیں اور ان پر عبور حاصل کیا۔ انگریزی اور فرانسیسی زبانوں سے بھی انہوں نے بخوبی واقفیت حاصل کی تھی ۔مذہبی تعلیم،فقہ،منطق ،علم کیمیا اور فلکیات کا تفصیلی مطالعہ کیا تھا اور ریاضی اور طب کی بھی تعلیم حاصل کی تھی۔تا ہم انہوں نے یہ تعلیم کسی مدرسہ یا کالج جا کر حاصل نہیں کی بلکہ اپنے گھر پر ہی والد صاحب اور دیگر اساتذہ سے حاصل کی تھی۔
مو لانا آزاد چھریرہ بدن و گورہ رنگ کے مالک تھے۔ سگریٹ پیتے تھے اور چائے کا ان کو بہت شوق تھا۔غبار خاطر میں ان کے چائے کے شوق کا تفصیلی ذکر موجود ہے۔مو لانا آزاد حق پرست ،ذہین اور حوصلہ مند انسان تھے۔ اگر مولانا اپنی خاندانی عقائد و روایات کی پیروی کر تے تو ان کی ساری زندگی عیش و آرام میں گزر سکتی تھی مگر وہ وطن سے محبت کی بدولت آزادی کی جد و جہد میں کود پڑے ۔اس طرح اپنے لئے سیاست کے پر خار راستہ کا انتخاب کیا اور تا عمر اسی پہ رہے ۔
مو لانا آزاد بحیثیت شاعر،ادیب اور صحافی
مو لانا آزاد کی ذہنی تر بیت بچپن سے ہی ایسے ماحول میں ہو ئی تھی جہاں ادبی ذوق مزاج کا جز بن جا تا ہے چنا نچہ مولانا کی ادبی زندگی کی ابتداء شاعری سے ہوئی۔عبد الواحد جو کہ اکثر مولانا کے گھر آیا کر تے تھے مولانا کو اکثر اشعار سنا یا کر تے تھے۔ان کی صحبت میں مولانا کو شعر گوئی سے رغبت ہوئی اور ا ن ہی کی تجویز پر مولانا نے تخلص آزادؔ اختیار کیا۔ مولانا نے دس ‘گیارہ سال کی عمر سے اشعار کہنا شروع کیا اور شاعری کی تمام مشہور اصناف سخن میں طبع آزمائی کی۔انہوں نے فارسی و اردو میں شاعری کی ہے۔مو لانا آزاد کی شخصیت کا ایک اور تابناک پہلو ان کی صحافت نگاری ہے۔
مو لانا آزادنے جنوری 1901 ء میں ’المصباح‘کے نام سے ایک ہفتہ وار جار ی کیا۔اس میں مو لانا آزادکے علاوہ دوسروں کے مضامین کی اشاعت بھی عمل میں آتی تھی۔اس ہفتہ وار میں ’’ایڈیٹر کے قلم سے‘‘کے تحت مو لانا آزادایک کالم لکھا کر تے تھے۔یہ اخبار بھی زیادہ دنوں تک چل نہ سکا۔ان دنوں لکھنوسے نوبت رائے نظر کی ادارت میں ایک ماہنامہ ’’خدنگ نظر‘‘1897 ء سے نکلا کر تا تھا جو کہ ایک شعری گلدستہ تھا اور جس میں مختصر سا نثری حصہ بھی ہوا کر تا تھا ۔اس گلدستہ میں مو لانا آزاد کے علاوہ ان کے بڑے بھائی ابوالنصر آہ اور ان کی دونوں بڑی بہنیں فاطمہ بیگم آرزو اور حنیفہ بیگم آبرو چھپا کر تے تھے۔ 1902 میں اس گلدستہ کے نثری حصہ کی توسیع عمل میں آئی اور 1903 ء میں مو لانا آزاد بحیثیت اسسٹنٹ ایڈیٹر اس کی مجلس ادارت میں شامل ہوئے اور نثری حصہ کی ایڈیٹنگ کے فرائض انجام دینے لگے۔تاہم تقریباً سوا سال بعد مو لانا آزاد نے اس ما ہنامہ سے علاحدگی اختیار کر لی اور ایک قلیل مدت کے لئے شاہجہاں پور کے اخبار ’’ایڈورڈگزٹ‘‘کے مدیر کی حیثیت سے خدمات انجام دیں۔ اس کے بعد انہوں نے نومبر 1903 ء میں کلکتہ سے ایک ماہنامہ’’لسان الصدق‘‘جاری کیا۔اس وقت مولانا کی عمر صرف پندرہ سال تھی۔
مو لانا آزادنے کئی ایک اخبارات اور رسائل کے معاون ایڈیٹر او راسسٹنٹ ایڈیٹر کی حیثیت سے نما یاں خدمات انجام دیں۔ان میں احسن الاخبار،تحفۂ احمدیہ،الندوہ،وکیل،دارالسلطنت،اقدام،پیغام اور الجامعہ جیسے اخبارات اہمیت کے حامل ہیں۔اردو صحافت میں ’الہلال‘ایک سنگ میل کا درجہ رکھتا ہے۔ یہ ایک ہفتہ وار رسالہ تھا جو کہ مو لانا آزادکی زیرادارت بتاریخ 13 جولائی1912 ء کلکتہ سے جا ر ی ہوا تھا۔ اس رسالہ کی اشاعت کو 18 جنوری1914 ء کا شمارہ شائع ہو نے کے بعد بند کر دینا پڑا۔کیوں کہ انگریزوں کی حکومت نے اس رسالہ کی دو ہزار روپیوں کی پرانی ضمانت کو ضبط کر تے ہوئے دس ہزار روپیوں کی نئی ضمانت کا مطالبہ کیا تھا۔الہلال کے بند ہو نے کے ایک سال بعد مولانا نے اپنی زیر ادارت الہلال کی ہو بہو نقل کر تے ہوئے ہفتہ وار ’البلاغ‘کو بتاریخ 12 نومبر 1915 ء جار ی کیا۔
انگریزوں کی حکومت کی جانب سے مولانا کے صوبہ بدر کردیئے جانے پر اپریل 1916 ء میں البلاغ کو بھی بند کر دینا پڑا۔تحریک آزادی کی مصروفیات کی بدولت مو لانا آزادکئی سال تک صحافت سے دور رہے۔تا ہم ان کی صحافتی خدمات کا آغاز پھر سے اس وقت ہوا جب کہ الہلال کے دوسرے دور کے پہلے شمارے کی اشاعت بتاریخ 10 جون 1927 ء عمل میں آئی۔مگر انگریزوں کی حکومت کی سازشوں اور مو لانا آزادکی سیاسی مصروفیات کے باعث 9 دسمبر 1927 کے شمارہ کی اشاعت کے بعد اس رسالہ کی اشاعت کو بھی بند کر دینا پڑا۔اس طرح مو لانا آزادکا صحافتی سفر جس کا آغاز 1899 ء میں ہوا تھا 1927 ء میں اختتام کو پہنچا۔
اس مرحلہ پر مو لانا آزاد کی تصنیفات کا ذکر کرنا اشد ضروری ہے۔غبار خاطر ،تذکرہ،آزادی کی کہانی خود آزاد کی زبانی اور تر جمان القرآن مولانا کی اہم کتابیں ہیں۔انڈ یا ونس فریڈم، بھی مولانا کی ہی ایک کتاب ہے جس کو ہما یوں کبیر نے تحریک آزادی سے متعلق مولانا کے دئے گئے ڈکٹیشن پر انگریزی میں تحریر کیا تھا۔اس کے چند اردو تراجم کی شاعت ’’ہماری آزادی‘‘کے نام سے عمل میں آچکی ہے۔مزید یہ کہ مولانا کی چند مختصر تحریروں کو کتابچوں کی شکل میں شائع کیا گیا ہے جن میں اہم اعلان الحق،مسلمان عورت،مسئلہ خلافت اور جزیرۃ العرب، قول فیصل ، داستان کر بلا،الحریت فی الا سلام ،اسلام اور آزادی ، اسلام اور نیشنلزم ،اسلام کا نظریہ جنگ ،میرا عقدیدہ وغیرہ ہیں۔علاوہ ازیں مولانا کے مکتوبات کو بھی کتابوں کی شکل میں شائع کیا گیا ہے۔جن میں غبار خاطر،نقش آزاد ،تبرکات آزاد ،کاروان خیال اور مکتوبات آزاد اہم ہیں۔مزید برآن ما قبل و ما بعد آزادیٔ ہند مختلف موقعوں و مو ضوعات پر دئے گئے مو لانا آزادکے خطبات پر مشتمل ’’خطبات آزاد‘‘نامی کتاب کی اشاعت اردو زبان میں اور ”Speeches of Maulana Azad 1947-58”نامی کتاب کی اشاعت انگریزی زبان میں عمل میں آئی ہے۔یہ کتابیں کا فی مشہور ومقبول ہیں۔
مو لانا آزاد بحیثیت مجاہد آزادی او ران کی سیا سی بصیرت
پہلی وجہ انگریزی حکومت کا تقسیم بنگال کا فیصلہ تھا۔مولانا تقسیم بنگال کے مخالف تھے۔
دوسری وجہ مولانا کا مصر،شام ،ترکی وغیرہ جیسے ملکو ں کا دورہ تھا جہاں پر ان کی ملا قات چند انقلابی قائدین سے ہوئی اور جن کی تحریک سے وہ بے حد متاثر ہوئے اور انہوں نے شدت کے ساتھ محسوس کیا کہ ان کو ہندوستان کی جنگ آزادی میں حصہ لینا چاہیے اور مسلمان ِ ہند کو تحریک آزادی میں پوری طرح شامل ہو نے کی تر غیب دینی چاہیے۔
تیسری وجہ ان کا عالم دین اور مفکر ہو نا تھا جس کی بدولت وہ اس نتیجہ پر پہنچے تھے کہ طلب آزادی دراصل شرعی تقاضہ اور فرض دینی ہے۔جس کی تکمیل کے لئے ملک کی سیاست میں نما یا ں حصہ لینا چا ہیے۔
مذکور ہ وجو ہات سے مو لانا آزاد کی سیاسی بصیرت بھی واضح ہو تی ہے۔اس سے یہ بات پا یۂ ثبوت کو پہنچتی ہے کہ مو لانا آزاد میں سماجی ذمہ داری کا جذبہ موجود تھا اور ان میں یہ احساس بھی تھا کہ وہ مسلمانا ن ہند کو تحریک آزادی کے معاملہ میں کسی سے کم دیکھنا نہیں چا ہتے تھے اور وہ یہ بھی چا ہتے تھے کہ ہندوستان جلد سے جلد آزاد ہو جائے۔جد و جہد آزادی سے متعلق مو لانا آزاد کا ایک اور عظیم کارنامہ یہ تھا کہ انہوں نے تحریک خلافت اور تحریک آزادی کو ایک پلیٹ فارم پر لا تے ہوئے گاندھی جی ‘ لوکما نیہ تلک اور دیگر کانگریسی قائدین کے علاوہ سماج کے اکثر یتی طبقہ کی تائید تحریک خلافت کے حق میں حاصل کی اور مسلمانوں کی تائید تحریک آزادی کے حق میں حاصل کر تے ہوئے انہیں قومی سیاست میں عملی طور پر شامل کیا۔ اس طرح مولانا نے ملک کے دو بڑے فرقوں کو انگریزوں کی استبدادی قوت کا مقابلہ کر نے کے لئے متحد کیا۔یہ ان کا ایک عظیم کارنامہ تھا۔مو لانا آزادکی قومی خدمات کا اعتراف کر تے ہوئے مہاتما گاندھی نے کہا تھا۔’’مولانا ‘‘انڈین نیشنل کانگریس کے سردار ہیں اور ہندوستانی سیاست کا مطالعہ کرنے والے ہر شخص کو چاہیے کہ اس حقیقت کو نظر انداز نہ کرے۔‘‘
مو لانا آزاد بحیثیت وزیر تعلیم
مو لانا آزادنے نہ کسی مدرسہ،کالج یا یونیورسٹی میں تعلیم حاصل کی اور نہ ہی وہ پیشہ کے اعتبار سے معلم تھے۔تا ہم میں یہ بات وا ضح کردو ں کہ وہ ایک منفرد مفکر تعلیم تھے۔مفکر تعلیم ماہر تعلیم سے بھی با لا رتبہ کا حامل ہو تاہے۔کیوں کہ ماہر تعلیم، تعلیمی نظریات سے استفادہ کر تے ہوئے تعلیم کی تر قی کے لئے کوشش کر تا ہے جب کہ مفکر تعلیم،تعلیمی نظام کو ہی متعین کر تا ہے۔مو لانا آزادکا شمار مفکرین تعلیم میں ہو تا ہے کیوں کہ انہوں نے اپنے بلیغ افکار سے ہندوستانی تعلیمی نظام کو ایک نیارخ ‘نئی جہت اور ٹھوس بنیادیں عطا کیں۔مولانا آزاد نے بحیثیت وزیر تعلیم کئی کار ہائے نما یاں انجام دئے۔
مولانا آزاد نے سنٹرل ایڈ وائزری بورڈ آف ایجوکیشن کے چیر مین کی حیثیت سے سنٹرل اور اسٹیٹ دونوں سطحوں پر تعلیمی نظام میں عصری ضروریات کے پیش نظر تبدیلی لانے کی کوشش کی۔مولانا آزاد نے بحیثیت وزیر تعلیم ابتدائی تعلیم،اعلیٰ تعلیم، سائنس اور ٹکنا لو جی کی تعلیم اور ہندوستانی ثقافت کی تر قی کیلئے نما یاں خدمات انجام دیں۔ابتدائی تعلیم اور اساتذہ کی تربیت کے لئے انہوں نے entral Institute of Education کا قیام عمل میں لا یا ۔مادری زبان میں ابتدائی تعلیم کی تدریس کو رائج کیا،14 سال کی عمر تک کے بچوں کے لئے مفت ابتدائی تعلیم فراہم کی اور لڑکیوں کی تعلیم پر توجہ مرکوز کی۔اعلیٰ تعلیم کی تر قی کے لئے انہوں نے UGC کا قیام عمل میں لا یا۔یونیورسیٹوں کو خود مختاری عطا کی اور ان کو Centre for Excellence کے طور پر تر قی پا نے کے مواقع فراہم کئے۔
مولانا آزادنے سائنس اور ٹکنا لو جی کی تر قی کیلئے Centre for Scientific Industrial Research کو قائم کیا اور Indian Council for Cultural Relations کے قیام کو عمل میں لا تے ہوئے ہندوستانی کلچر ،ثقافت،تاریخ اور تہذیب کی ہندوستان اور بیرونی ممالک میں فروغ کے لئے کو شش کی۔علاوہ ازیں مولانا آزادنے سنگیت نا ٹک اکادمی،ساہتیہ اکادمی اور للت کلا اکادمی جیسے ثقافتی ادارے بھی قائم کئے۔اس طرح مولانا آزاد نے بحیثیت وزیر تعلیم اپنی وزارت کے ۱۱ سال کے دوران کئی منفرد کارناموں کو انجام دیتے ہوئے ہمارے ملک کے لئے ایک منظم و مؤثر نظام تعلیم کو متعین کیا۔مولانا آزاد ایک شاعر، ادیب، مفسر، محدث، مفکر، صحافی، مجاہد آزادی اور وزیر تعلیم کی بھر پور ستر سالہ زندگی گزار کر بتاریخ 22فروری 1958 ء دہلی میں وفات پائی۔
prof_rahmatullah@yahoo.com