مولانا آزاد اردو یونیورسٹی اور تحقیقات

غضنفر علی خان
مولانا آزاد اردو یونیورسٹی اہل اردو اور ہماری زبان کے ہمدردوں کی برسوں کی کوششوں کے بعد وجود میں آئی تھی ۔ لیکن ابتدائی مراحل ہی سے یہاں پر مسائل پیدا ہوگئے ۔ یہ مشکلات یہ مسائل کسی اور نے پیدا نہیں کئے ، جو بھی صورتحال دیکھی جارہی ہے وہ ہماری اپنی پیدا کردہ ہے ۔ یہ حالات اردو دشمنوں نے نہیں ان ’’گندم نما جو فروشوں‘‘ نے مولانا آزاد یونیورسٹی میں پیدا کئے ہیں ، جن کے کرتوت پر اردو کے بدترین دشمن بھی نادم ہوجائیں گے ۔ کسی اور نے یہ آگ نہیں دہکائی ، اہل اردو نے خود اپنے خرمن میں آگ لگائی ۔ اب سارے سایہ دار درختوں کو جلا دینے کے بعد یہی لوگ سایہ تلاش کررہے ہیں ۔ یہاں بے حساب بے قاعدگیاں ہوئی ہیں اور طرفہ تماشہ یہ ہے کہ اس کا سلسلہ یونیورسٹی کے قیام کے بعد سے آج تک جاری ہے ۔ اردو یونیورسٹی لوٹ مار رقمی غبن کا ادارہ بن گیا ۔ ساری سیاسی جماعتیں اس تباہ حالی کی خاموش تماشائی بنی رہیں وہ جماعتیں بھی لب کشائی کرنے کی ہمت نہ کرسکیں جن کا کہنا ہے کہ اردو  ہندوستان کی اپنی زبان ہے ۔ ہندوستانیوں کی زبان ہے ، صرف مسلمانوں کی زبان نہیں ہے ۔ ایسے نامساعد حالات میں مولانا آزاد اردو یونیورسٹی میں روا رکھی جانے والی بے قاعدگیوں کے خلاف اردو زبان کے سب سے بڑے اور موقر اخبار ’’سیاست‘‘ نے تحریک چلائی ۔ بے قاعدگیوں اور انکا ارتکاب کرنے والوں کو پوری جرأت کے ساتھ بے نقاب کیا ۔ مقصد صرف یہی تھا کہ زبان اردو کے نام پر قائم کردہ اس یونیورسٹی کو مکمل تباہی سے بچایا جاسکے ۔ سیاست اخبار کی تحریک کبھی بھی کسی فرد واحد کے خلاف نہیں ہوتی ، ہر تحریک کا ایک ملی مقصد ہوتا ہے ۔ اعمال کا انحصار نیتوں پر ہوتا ہے کے اس ارشاد کے مطابق ادارہ ہذا کسی سماجی برائی ، لسانی تنگ نظری کسی بھی قسم کے تعصب کے خلاف آواز اٹھاتا ہے اور جب بھی آواز بلند کرتا ہے اس کی گونج ، اسکی گھن گرج ایوان اقتدار میں سنائی دیتی ہے ۔ کیونکہ ہر تحریک پورے اخلاص نیت کے ساتھ چلائی جاتی ہے ۔ اس لئے قدرت بھی اخبار کا ساتھ دیتی ہے ۔

مولانا آزاد اردو یونیورسٹی کے بارے میں چلائی گئی تحریک میں بھی یہی مثبت جذبہ کار فرما ہے ۔ چنانچہ سیاست اخبار کی تحریک کا نتیجہ ہے کہ صد ہزار رسوائیوں کے ساتھ سابق  وائس چانسلر محمد میاں نے اپنی میعاد پوری کی اور ان کی جگہ ڈاکٹر محمد اسلم پرویز کو وائس چانسلر بنایا گیا ۔ اب ڈاکٹر اسلم پرویز نے یونیورسٹی کی تمام بے قاعدگیوں کی تحقیقات کرنے کے لئے ایک سہ رکنی کمیٹی بنائی ہے جس میں تین ماہرین تعلیم ہیں ۔ ڈاکٹر سلیمان صدیقی کمیٹی کے صدر ہوں گے اور پروفیسر آئی بی پرساد کے علاوہ بی ایس این ریڈی ارکان ہوں گے ۔ یہ کمیٹی تمام متنازعہ امور کی چھان بین کرکے اپنی رپورٹ وائس چانسلر کو پیش کرے گی ۔ کمیٹی نے مبینہ طور پر کام کا آغاز کردیا ہے تاہم اس بات کا انکشاف نہیں کیا گیا ہے کہ کمیٹی اپنی رپورٹ کتنے دنوں میں تیار کرے گی ۔ اگر اس بات کی بھی صراحت کردی جاتی تو یونیورسٹی کے ہمدردوں کو نیا حوصلہ مل جاتا ۔ کمیٹی کا قیام خود ایک قابل تعریف اقدام ہے اگرچیکہ یہ کام بہت پہلے ہوجانا چاہئے تھا ۔ لیکن دیر آید درست آید کے مصداق جو کچھ پیش رفت ہوئی ہے اسکا خیر مقدم کیا جانا چاہئے ۔ حیدرآباد میں اس یونیورسٹی کے قیام کا فیصلہ اس لئے بھی لیا گیا تھا کہ شہر حیدرآباد دنیا کا وہ پہلا شہر تھا ، جہاں زبان اردو کو ذریعہ تعلیم بناتے ہوئے عظیم درسگاہ جامعہ عثمانیہ قائم کی گئی تھی ۔ اردو زبان میں اصطلاحات وضع کرنے میں بھی ہمارے شہر نے پہل کی تھی ۔ اردو ذریعہ تعلیم رکھ کر جامعاتی سطح کی تعلیم دینے کا پہلا کامیاب تجربہ جامعہ عثمانیہ میں کیا گیا تھا۔ مولانا آزاد اردو یونیورسٹی کے لئے حیدرآباد سے زیادہ اور کوئی شہر موزوں نہیں تھا ۔ لیکن دنیا بھر میں اگر کسی یونیورسٹی میں اہل حیدرآباد کے لائق اور قابل اساتذہ کو بری طرح سے نظر انداز کیا گیا تو وہ بدقسمتی سے یہی مولانا آزاد اردو یونیورسٹی ہے ۔

یہ اعتراض تو روز اول سے رہا حیدرآباد کے ’’اہل اور قابل افراد‘‘ کو کیوں نظر انداز کیا گیا اسکی صاف اور واضح وجہ یہ ہے کہ اس یونیورسٹی پر ابتداء سے ہی دوسرے علاقوں کے سیاستدانوں اور بااثر شخصیتوں کا دبدبہ تھا اور آج بھی ہے ، بدقسمتی سے مولانا آزاد اردو یونیورسٹی ’’علاقائی عصبیت‘‘ کی شکار رہی ۔ اس غیر متوازن رویہ نے یونیورسٹی کے ارباب اقتدار کو اعتدال اور عدل و انصاف کی راہ سے ہٹادیا تھا ۔ اردو یونیورسٹی کی بے قاعدگیوں کی فہرست اتنی طویل ہے کہ اگر اس کو قلمبند کرنے کی کوشش کی گئی تو ایک ضخیم کتاب لکھی جاسکتی ہے ۔ اعلی عہدوں پر مامور کئے جانے والے افراد میں غالب اکثریت ان لوگوں کی ہے جو زبان اردو سے اس حد تک نابلد ہیں اور تھے کہ انھیں Urdu illiterate کہا جاسکتا ہے ۔ شعبہ اردو کے علاوہ دیگر جتنے شعبے اور خاص طور پر جرنلزم کے شعبہ کا تو بہت برا حال رہا اور یہ صورتحال آج تک جاری ہے ۔ اس شعبہ میں ایسے افراد کو مامور کیا گیا جنھوں نے کبھی شاید کسی اخبار کا دفتر بھی نہ دیکھا ہو ۔ اتنے اہم اور ذمہ دار شعبے میں تقررات میں کوئی معیار ملحوظ نہیں رکھا گیا تھا ۔ چھان بین میں اس امر کو بھی شامل رکھا جانا چاہئے کہ جرنلزم اور بعض دیگر شعبوں میں کیوں ایسے تقررات کئے گئے تھے ۔

ان تقررات میں جانب داری ، علاقائی عصبیت اور سب سے زیادہ اقربا پروری کا جذبہ کارفرما رہا ۔ اس یونیورسٹی کو سب سے زیادہ نقصان سابق وائس چانسلر محمد میاں نے پہنچایا جن کا تعلق ریاست اترپردیش سے تھا علاقائی تعصب اور اقربا پروری کے ان کے جذبہ نے یونیورسٹی کی عزت خاک میں ملادی ۔ ان کے دور کی تمام بے قاعدگیوں کی مذکورہ کمیٹی تحقیقات کرے گی ۔ بات صرف تدریسی عملہ کے تقررات تک محدود نہیں ہے ۔ غیر تدریس میں بھی ان ہی روایات کو جاری رکھا گیا تھا ۔ بات یہاںختم نہیں ہوئی بلکہ اس سے زیادہ دل شکنی اس وقت ہوئی جبکہ اہم تعلیمی شعبوں میں ایسے طلبہ اور طالبات کو پوسٹ گریجویشن اور ریسرچ کے لئے موقع دیا گیا جو اردو زبان سے قطعی ناواقف ہیں  ۔اردو زبان کی طرز تحریر سے طلبہ کا اردو یونیورسٹی میں داخلہ اور انھیں مختلف قسم کی سہولتیں فراہم کرنا کیسی بڑی بے قاعدگی ہے ۔ یہ ناانصافی اور ظلم کے برابر ہے اور ارباب یونیورسٹی نے ایسی ناانصافی اور ظلم و زیادتی کو دھڑلے سے جاری رکھا ۔ نہ صرف انتظامی معاملات میں اصول شکنی ہوئی بلکہ مالی خورد برد کے بھی واقعات مولانا آزاد یونیورسٹی میں تسلسل اور تواتر کے ساتھ ہوتے رہے اور ہورہے ہیں ۔ وائی فائی کی سہولت کی فراہمی میں کروڑہا روپے کے ہیر پھیر ہوئے ، یونیورسٹی کی کتابوں کی تیاری اور پھر ان کی اشاعت کے معاملہ میں بھی رقمی بدعنوانیوں کا سلسلہ جاری رہا ۔ جب حیدرآباد کے اردو اخبار سیاست نے ان بدعنوانیوں کو طشت ازبام کیا تب بدعنوانیوں کے مرتکب یونیورسٹی کے ارباب اقتدار کی تیوری پر بل پڑنے لگے ۔ چونکہ انھیں خوف تھا کہ بھانڈا پھوٹنے کے بعد جانے کون کون ہوں گے جنھیںاپنے کئے کا خمیازہ بھگتنا پڑے گا ۔ اب جبکہ تحقیقات کی تلوار میان سے باہر آگئی ہے کتنے سر قلم ہوں گے ۔ تحقیقات کا کوئی مقصد پورا نہیں ہوگا اگر گناہ گاروں کو مناسب سزا نہیں دی جائے گی ۔ ان تحقیقات میں کوئی سیاسی دباؤ نہیں ڈالا جانا چاہئے ۔ تحقیقات کا مقصد اگر خاطیوں کو بے نقاب کرکے انھیں کیفر کردار تک پہنچانا ہے تو سخت رویہ اختیار کرنا چاہئے ۔ نقصان اردو زبان کی یونیورسٹی کا ہوا ہے ۔ کم ازکم اب تو انصاف ہونا چاہئے ۔

کچھ ہم اہل اردو کے فرائض بھی ہیں ۔ مولانا آزاد نیشنل اردو یونیورسٹی اردو والوں کو بطور امانت دی گئی تھی ہم نے اس امانت کے تقدس اور پاکیزگی کی حفاظت نہیں کی ۔ آج اردو یونیورسٹی کے جو افسوسناک حالات ہیں ان کے لئے ’’اغیار‘‘ کو ذمہ دار نہیں ٹھہرایا جاسکتا ۔ سب کچھ اپنوں کا کیا دھرا ہے ۔ زبان کے ماننے والے جو اپنے اداروں کا دیانتداری سے تحفظ نہیں کرسکتے وہ کسی کام کے اہل نہیں کہلاسکتے ۔ ابھی بھی ڈر اس بات کا ہے کہ تحقیقات کے بعد یونیورسٹی کا اردو موقف کہیں بدل نہ دیا جائے جو لوگ آج اقتدار پر فائز ہیں ، ان سے اردو دشمنی کی قوی توقع کی جاسکتی ہے ۔ جب سارے حقائق کا انکشاف ہوگا تو کیا عجب ہے کہ مرکزی حکومت کوئی سخت فیصلہ لے جس کے نتیجہ میں اردو یونیورسٹی کو ختم نہ کیا گیا تو کم از کم اس کے دائرہ کار کو محدود کیا جاسکتا ہے ۔ ان خدشات کو نظر انداز نہیں کیا جاسکتا ۔ اللہ کی دعا ہے کہ ہماری زبان کی یونیورسٹی کی وہ حفاظت فرمائے کیوں کہ ہم تو اپنی ذمہ داری پوری کرنے میں ناکام ہوگئے ۔