موظف مدرس مدرسہ اعزہ شیطان نماز پڑھ رہا ہے

محمد اسد اللہ صدیقی

(طنز و مزاح اور ظرافت کے پیرائے میں)
حیدراباد فرخند بنیاد کے آصف سابع نظام میر عثمان علی خان کے دور میں 1918 ء کو علمی درس گاہ مادر جامعہ عثمانیہ یونیورسٹی وجود میں آئی جس کا شمار دنیا کی مشہور یونیورسٹیوں میں ہوتا ہے ۔ جہاں سے بے شمار طالب علموں نے اپنی علمی پیاس بجھاکر دنیا کے مختلف مقامات پر باوقار زندگی گزار رہے ہیں۔ اس مایہ ناز یونیورسٹی کو یہ اعزاز بھی حاصل ہے کہ وہ مایہ ناز بے شمار طالب علموں کو پیدا کیا جس میں ایک اس یونیورسٹی کے طالب علموں میں عاشق رسولؐ مرزا شکور بیگ صاحب بھی ہیں۔ ان کی پیدائش 15 ستمبر 1907 ء کو ہوئی ۔ آپ یونیورسٹی کے قابل سپوتوں میں شمار ہوتے ہیں، جہاں سے آپ نے بی اے ، ایل ایل بی کی ڈگریاں میرٹ کے ساتھ حاصل کی ۔ نہ صرف ڈگریاں حاصل کیں بلکہ آپ کلچرل پروگرام ، مباحثہ ، مشاعرہ اور ڈراموں میں بھی بڑھ چڑھ کر حصہ لیتے تھے ۔ اس طرح ان کا عثمانیہ یونیورسٹی کے پسندیدہ ذہین مختار طالب علموں میں شمار ہوتا تھا ۔ آپ ویسے کئی ادبی کتابوں کے ادیب بھی رہے ہیں جیسے آپ کی مشہور کتابیں : (1) منتخب مضامین مرزا شکور (2) خوشبوئے درد (نعتیہ کلا) (3) انوار مدینہ (نعتیہ کلام) (4) لذت گریہ (نعتیہ کلام)
عاشق رسولؐ مرزا شکور بیگ صاحب نعت گو شاعر ہونے کے علاوہ وہ طالب علمی کے زمانے میں سدا بہار (مزاحیہ تقاریر و مزاحیہ مضامین (مرزا شکور بیگ) کے مصنف بھی تھے ۔ اس طرح وہ معتبر سنجیدہ مزاح نگار اور نثر نگار بھی رہے ہیں۔ مزاحیہ کلام اور مزاح میں یونیورسٹی میں منفرد اور اعلیٰ مقام رکھتے تھے۔ طنز و مزاح کی جب بات چلی ہے تو ایک ڈرامہ سٹی کالج اعظم ہال میں پیش کیا گیا تھا۔ ایک واقعہ جس کولطیفہ کہہ سکتے ہیں مشہور ہوا تھا ، وہ عثمانیہ یونیورسٹی کے عثمانین خوب جانتے ہیں وہ کچھ اس طرح تھا جوڈرامہ کا حصہ بن گیا ۔
سالانہ کلچرل پروگرام میں ایک ڈرامہ پیش ہورہا تھا ۔ اس ڈرامہ میں مرزا شکور بیگ شیطان کا کردار ادا کر رہے تھے ، جس وقت ان کو اسٹیج پر آنا تھا ، نماز مغرب کا وقت تھا اور مرزا صاحب نماز کیلئے کھڑے ہوچکے تھے ۔ اسٹیج پر شیطان کا انتظار کیا جارہا تھا ۔ ایسے میں اناؤنسر نے اطلاع دی کہ ہمارے ڈرامہ کا کا شیطان نماز پڑ رہا ہے۔ سٹی کالج کا معروف ڈرامہ مرزا شکور بیگ صاحب کا لطیفہ برسوں دیکھنے اور سننے والوں کی زبانوں میں جاری رہا ۔