موصل کو شام سے رسد روکنے کی عراق کی کارروائی

دولت اسلامیہ کے مستحکم گڑھ کی رسد کی شاہراہ کی ناکہ بندی ‘ زمینی فوج کی پیشرفت

القیارہ۔ 30اکٹوبر ( سیاست ڈاٹ کام ) عراقی نیم فوجی تنظیموں نے دولت اسلامیہ کے خلاف کارروائی کا آغاز کردیا تاکہ موصل اور شام کے درمیان رسدکا راستہ منقطع کردیا جائے ۔ موصل کو پڑوسی ملک شام سے رسد سربراہ کی جاتی ہے ۔ اس طرح عراق کی فوج نے دو ہفتہ طویل جارحانہ کارروائی میں ایک نیا محاذ کھول دیا ۔ حاشد الشابی ایک نیم فوجی تنظیم نے ایران کی حمایت یافتہ شیعہ نیم فوجی تنظیموں پر غلبہ حاصل کرلیا ہے ۔ قبل ازیں موصل پر حکومت کا قبضہ بحال کرنے کیلئے جارحانہ کارروائی کا آغاز کیا گیا تھا لیکن کل قصبہ تل افر کو جو شہر موصل کے مغربی راستہ پر ہے زمینی افواج نے حملہ کردیا اور شمال ‘ مشرق اور جنوب کی طرف پیشرفت شروع کردی ‘ جہاں تاحال زمینی فوج تعینات نہیں کی گئی ہے ۔ جارحانہ کارروائی کا مقصد موصل اور رقہ کے درمیان رسد کا راستہ روکنا ہے اور موصل کے محاصرہ کو مزید سخت کردینا ہے ۔ علاوہ ازیں تل افر کو دولت اسلامیہ کے قبضہ سے آزاد کروانا ہے ۔ حاشد کے ترجمان الاحمد الاسدی نے کہا کہ شام میں یہ علاقہ دولت اسلامیہ کا اہم مستحکم گڑھ ہے ۔ انہوں نے کہا کہ کارروائی کا آغاز سندھ الضبان علاقہ سے کیا گیا ہے ‘ یہ موصل کے جنوب میں واقع ہے ۔ اس کا مقصد حترا ‘ تل ابتا اور تل افر پر حکومت کا قبضہ بحال کرنا ہے ۔ تل افر کی سمت پیشرفت سے قدیم شہر حترا کے قریب جنگ شروع ہوسکتی ہے ۔یہ یونیسکوکا تہذیبی ورثاء کے حامل ایک مقام ہے جس میں دولت اسلامیہ نے پہلے ہی توڑپھوڑ شروع کردی ہے حالانکہ اس کا نام نہیں لیا گیا لیکن جارحانہ کارروائی ممکن ہے کہ نمرود کے کھنڈروں کے قریب سے بھی گزرے گی ۔ یہ آثار قدیمہ کا ایک مقام تھا جس پر دولت اسلامیہ نے قبل ازیں حملہ کیا تھا ۔ شیعہ نیم فوجی جنگجو موصل کارروائی میں شامل ہے اور وہ تنازعہ کی بنیاد بن گئے ہیں حالانکہ حاشد کے بعض اعلیٰ کمانڈروں کا کہنا ہے کہ وہ سنی غالب آبادی والے شہر پر قبضہ کرنا نہیں چاہتی ۔ عراقی کُرد اور سنی عرب سیاستدانوں میں اتفاق کیا ہے کہ وہ اس جنگ میں شامل ہیں جب کہ ترکی جہاں موصل کے مشرق میں واقع ہے حکومت عراق کے فوج کو دستبردار کروالینے کے بار بار مطالبات کے باوجود صدر ترکی رجب طیب اردغان نے کل شیعہ جنگجوؤں کے ترکی شہریوں پر قصبہ تل افر میں حملے کا خیرمقدم کیا تھا ۔