مودی ہندوستان نہیں

الفاظ کے پیچوں میں اُلجھتے نہیں دانا
غواص کو غرض ہے صدف سے کہ گہر سے
مودی ہندوستان نہیں
ملک بھر میں ایک گوشے اور خاص طور پر میڈیا کی جانب سے یہ تاثر دینے کی کوشش کی جا رہی ہے کہ جاریہ لوک سبھا انتخابات محض نریندر مودی کو دوبارہ ملک کا وزیر اعظم بنانے کیلئے منعقد ہو رہے ہیں۔ ان انتخابات کا ارکان پارلیمنٹ کے انتخاب ‘ ملک اور عوام کو درپیش مسائل ‘ سابق میں کئے گئے وعدوں اور آئندہ کے ایجنڈہ یا منصوبوں سے کوئی تعلق نہیں ہے ۔ مودی کا جو زرخرید میڈیا ہے وہ مسلسل یہی تشہیر اور پروپگنڈہ کرتا جا رہا ہے کہ انتخابات مودی اور اپوزیشن جماعتوں کے مابین ہی ہیں۔ یہ شخصیت پرستی کا عروج اور انتہاء ہے ۔ ایسا کرتے ہوئے یہ گوشے اور خاص طور پر زر خرید میڈیا عوام کے سامنے اور ملک کو درپیش جو حقیقی مسائل ہیں ان سے توجہ ہٹانے کی کوشش کر رہا ہے ۔ بی جے پی کے جو ذمہ دار قائدین ہیں وہ بھی اسی طرح کی روش اختیار کئے ہوئے ہیں۔ ان کا بھی کہنا ہے کہ صرف نریندرمودی کیلئے یہ انتخاب ہو رہا ہے ۔ ان کا کہنا ہے کہ عوام مودی کو دوبارہ وزیر اعظم کے روپ میں دیکھنا چاہتے ہیں جبکہ اپوزیشن جماعتیں انہیں اس عہدہ سے بیدخل کرنا چاہتی ہیں۔ ایک طرح سے یہ تاثر دیا جا رہا ہے کہ ملک میں کوئی مسئلہ ہی نہیں ہے اور انتخابات کا انعقاد بھی محض ضابطہ کی تکمیل کیلئے ہو رہا ہے اور مودی کو بہرصورت ملک کا آئندہ وزیر اعظم بھی بنادیا جائیگا ۔ یہ ملک کی جمہوریت کی نفی کے مترادف ہے ۔ یہ ہماری جمہوریت کے ساتھ مذاق ہے ۔ یہ جمہوریت کی جڑیں کھوکھلی کرنے والا عمل ہے ۔ اس کے ذریعہ سے بی جے پی اپنے عزائم کو واضح کرتی جا رہی ہے جن سے یہی تاثر ملتا ہے کہ اگر بی جے پی کو 2019 میں اقتدار حاصل ہوجائے تو پھر آئندہ انتخابات نہیں کروائے جائیں گے ۔ یہ اندیشے مختلف جماعتوں کی جانب سے پہلے بھی ظاہر کئے گئے ہیں اور اب بی جے پی اور اس کے زر خرید میڈیا کی جو تشہیر اور پروپگنڈہ ہے اس سے بھی یہ اندیشے مزید تقویت حاصل کرتے جا رہے ہیں۔ ان اندیشوں کو اس لئے بھی تقویت ملتی ہے کہ بی جے پی کے صدر امیت شاہ نے چند ماہ قبل کہا تھا کہ بی جے پی ہندوستان پر آئندہ 50 سال تک حکومت کرے گی ۔ اس سے بھی پارٹی کے عزائم کا پتہ چلتا ہے ۔
افسوس کی بات یہ ہے کہ خود وزیر اعظم بھی بارہا یہی راگ الاپ رہے ہیں کہ اپوزیشن صرف انہیں اقتدار سے بیدخل کرنا چاہتی ہے ۔ یقینی طور پر اپوزیشن کا ایجنڈہ یہی ہے لیکن یہ بات صرف مودی تک محدود نہیں ہے بلکہ اس نظریہ کو شکست دینے کی ہے جس کو مودی اپنائے ہوئے ہیں۔ وہ ملک میں فاشسٹ طاقتوں کو تقویت دے رہے ہیں۔ وہ ملک میں جمہوری اور دستوری اداروں کی آزادی اور ان کی خود مختاری کو ختم کرتے جا رہے ہیں۔ ہر اہم ادارہ پر سیاسی تسلط کو یقینی بناتے جا رہے ہیں۔ ہر ادارہ کے کام کاج میں مداخلت کی جا رہی ہے اور اسے حکومت کے اشاروں پر ناچنے کیلئے مجبور کیا جا رہا ہے ۔ اپوزیشن کے وجود کو برداشت کرنے کو حکومت یا وزیر اعظم تیار نہیں ہیں۔ ان سے سوال کرنے والوں کو ملک دشمن قرار دینے کی روش چل پڑی ہے ۔ ہر شہری سے اس کے مذہب کی بنیاد پر حب الوطنی پر سوال ہو رہا ہے ۔ قوم پرستی کے سرٹیفیکٹ بانٹے جارہے ہیں۔ اپنی ناکامیوں کو چھپاتے ہوئے صرف ایک جھوٹے پروپگنڈہ کا سہارا لے کر انتخابات میں کامیابی حاصل کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے اور یہ صورتحال ملک کی جمہوریت کیلئے صحت مند نہیں ہے ۔ جس طرح مودی خود پسندی کا شکار ہیں اسی طرح ان کے حواری بھی شخصیت پرستی میں ایک دوسرے پر سبقت لیجانے کی کوشش کر رہے ہیں اور ان کیلئے ملک اور عوام کو درپیش مسائل کی کوئی اہمیت نہیں رہ گئی ہے ۔
سارے ملک اور اس کے جمہوری ‘ دستوری اور قانونی اداروں پر ایک شخصیت کی بالادستی کی مہم اور پروپگنڈہ کیا جا رہا ہے ۔ یہ پروپگنڈہ محض مودی کی چاپلوسی کیلئے کیا جا رہا ہے اور ملک کی اہمیت کو کہیں پس پشت ڈال دیا گیا ہے ۔ یہ ایک خطرناک رجحان ہے ۔ یہ آمرانہ اور ڈکٹیٹر شپ والی روش ہے ۔ یہ ہندوستان کیلئے ایک نئی روش ہے اور خطرناک بھی ہے ۔ ہندوستان ایک جمہوری ملک ہے یہاں جمہوری اور دستوری اداروں کی اپنی اہمیت ہے ۔ یہاں عدلیہ ہے ‘ مقننہ ہے اور بھی دوسرے ادارے ہیں جو حکومت پر لگام کسنے کا اختیار رکھتے ہیں اور عوام کی توقعات کو پورا کرتے ہیں لیکن خود عوام کے ذہنوں سے مسائل کو محو کرکے ملک پر مودی کو ترجیح دینے کی کوشش کی جا رہی ہے جو قابل مذمت اور افسوسناک ہے ۔