مودی کابینہ سے بنڈارودتاتریہ کی علیحدگی

 

تلنگانہ ۔ اے پی ڈائری خیر اللہ بیگ
مرکزی کابینہ میں تلنگانہ کی کوئی نمائندگی نہیں ہے۔ بنڈارودتاتریہ کو مودی حکومت سے ہٹادینے کے بعد تلنگانہ بی جے پی قائدین میں احساس کمتری پیدا ہوتا دکھائی دے رہا ہے۔ بی جے پی نے تلنگانہ کیلئے 2019 کی پالیسی مرتب کی ہے مگر بی جے پی مرکزی قیادت نے جیسے وزیر اعظم نریندر مودی اور صدر پارٹی امیت شاہ کے فیصلے تلنگانہ بی جے پی قائدین کیلئے ناقابل فہم ہیں تاہم آئندہ عام انتخابات و اسمبلی چناؤ کی تیاری کرنے والے ریاستی بی جے پی کیڈر کو دتاتریہ کی علیحدگی کا جھٹکہ لگا ہے۔ تلنگانہ میں اس وقت بی جے پی کے 5 ارکان اسمبلی اور واحد ایم پی ( دتاتریہ ) ہیں۔ سکندرآباد حلقہ لوک سبھا سے دتاتریہ کی کامیابی کے بعد سے ہی یہاں بی جے پی کے وجود کو مضبوط بنانے میں مدد ملی تھی۔ لیکن مودی اور امیت شاہ نے ریاست کے سیینئر لیڈر کو نظرانداز کرکے شاید تلنگانہ حکمراں پارٹی تلنگانہ راشٹرا سمیتی کی قیادت کو قریب کرنے کی راہ ہموار کی ہو۔ جبکہ پارٹی کی مقامی قیادت کا دعویٰ ہے کہ وہ تلنگانہ میں آئندہ عام انتخابات کا تنہا مقابلہ کرے گی۔ مرکز میں اب تلنگانہ کی کوئی نمائندگی نہیں ہے جبکہ آندھرا پردیش سے تعلق رکھنے والے چار قائدین کو مرکزی وزارت دی گئی ہے ان میں اشوک گجپتی راجو اور وائی ایس چودھری تلگودیشم سے تعلق رکھتے ہیں اور بی جے پی کے سریش پربھو اور نرملا سیتا رامن ہیں۔

آندھرا پردیش کے ایک اور سینئر لیڈر ایم وینکیا نائیڈو کو کابینہ سے نکال کر نائب صدر جمہوریہ کا عہدہ دیا گیا اور تلنگانہ کو یکسر نظرانداز کیا گیا۔ اس حقیقت کے باوجود ریاستی بی جے پی یونٹ کے صدر کے لکشمن نے ریاست بھر میں ایک ہفتہ طویل یاترا نکالی ہے تاکہ پارٹی کیڈر کو متحرک کیا جاسکے اور عوام سے راست طور پر ملاقات کرکے پارٹی کو مضبوط بنانے کوشاں ریاستی قائدین کو تلنگانہ یوم آزادی کے نام پر 17ستمبر کو جشن منانے کا بھی فیصلہ کیا گیا اور ریاستی حکومت پر دباؤ ڈالا گیا کہ وہ اس دن سرکاری طور پر جشن یوم آزادی تلنگانہ منائے۔ تلنگانہ کے لئے بی جے پی کا گیم پلان کیا ہے اس سے مقامی قائدین ہنوز ناواقف معلوم ہوتے ہیں کیونکہ بی جے پی کی مرکزی قیادت نے اس گیم پلان کے تحت وینکیا نائیڈو کو مرکزی کابینہ سے ہٹایا اور اب دتاتریہ سے قلمدان چھین لیا گیا۔ اگر یہ سب کچھ تبدیلی تلنگانہ حکمراں پارٹی ٹی آر ایس کو کابینہ میں نمائندگی دینے کا اشارہ ہے تو پھر چند دنوں میں نمایاں تبدیلیاں دیکھنے کو ملیں گی۔ تاہم کابینہ میں تلنگانہ راشٹرا سمیتی کو جگہ ملنے کی اُمید نہیں کی جاسکتی کیونکہ چیف منسٹر کے چندر شیکھر راؤ نے ایک سے زائد مرتبہ واضح کیا ہے کہ ان کی پارٹی سیکولرازم کا ساتھ نہیں چھوڑے گی۔

ٹی آر ایس کی قیادت پر کوئی شبہ نہیں کیا جاسکتا مگر وہ بی جے پی کے دباؤ میں آجائے تو پھر 17ستمبر کو تلنگانہ لبریشن ڈے منانے والی بی جے پی قیادت کو کھلی چھوٹے دی گی تو ریاست میں فرقہ پرستی کا محاذ مضبوط ہوگا۔ سقوطِ حیدرآباد کو فرقہ وارانہ رنگ دینے کی ایک عرصہ سے کوشش کرنے والی بی جے پی اپنے مقاصد میں اب تک کامیاب نہیں ہوسکی تھی مگر اب حالات سے ظاہر ہورہا ہے کہ بی جے پی کی مرکزی قیادت نے اپنی توجہ اس ریاست کی جانب مبذول کی ہے۔ مرکز نے ایک طرف تلنگانہ کو خصوصی زاویہ میں رکھا ہے تو دوسری طرف تلنگانہ کی حکمراں پارٹی کے لیڈروں کے خلاف کارروائی شروع کی ہے۔ مرکزی وزارت داخلہ نے تلنگانہ راشٹرا سمیتی کے رکن اسمبلی چنا منانی رمیش کی ہندوستانی شہریت کو منسوخ کردیا ہے۔ وہ ویملواڑہ سے ریاستی اسمبلی کے لئے منتخب ہوئے تھے۔ مرکزی وزارت داخلہ نے یہ احکام جاری کئے ہیں تاہم 30 دن کے اندر اس فیصلہ پر نظرِ ثانی کا موقع بھی رکھا گیا ہے۔ یہ سب ٹی آر ایس پر دباؤ ڈالنے اور سودے بازی کرنے کی ایک کوشش بھی ہوسکتی ہے۔ ٹی آر ایس لیڈر نے اس فیصلہ پر نظرِ ثانی کرنے کی درخواست کرنے کا ارادہ ظاہر کیا ہے۔

سپریم کورٹ نے حال ہی میں ٹی آر ایس رکن اسمبلی کی دوہری شہریت کی تحقیقات کا حکم دیا تھا وہ جرمن کی بھی شہریت رکھتے ہیں۔ ٹی آر ایس کو ہر موڑ پر پریشان کرنے کی کوشش کرتے ہوئے تلنگانہ میں بی جے پی کے لئے امکانات کو مضبوط بنایا جارہا ہے لیکن تلنگانہ کا سیکولر رائے دہندہ اپنے سیکولر موقف سے ہرگز پیچھے نہیں ہٹے گا۔ ٹی آر ایس سے اپنی مضبوط وابستگی کا ثبوت اگلے انتخابات میں دیا جائے گا۔ شمالی تلنگانہ کے انچارج اور بی جے پی قومی جنرل سکریٹری رام مادھو نے ٹی آر ایس کے گڑھ سمجھے جانے والے اضلاع عادل آباد، نظام آباد، کریم نگر، میدک، ظہیر آباد میں بی جے پی کو مضبوط بناکر عام انتخابات سے قبل کامیابی کے تمام امکانات کو قوی بنانے کی مہم شروع کی ہے۔ بی جے پی جنرل سکریٹری رام مادھو کو ذمہ داری دی گئی ہے کہ وہ ٹی آر ایس کے اہم قائدین جیسے بی ونودکمار( کریم نگر) اور کے کویتا ( نظام آباد ) دختر چیف منسٹر کے چندر شیکھر راؤ کے حلقوں میں بی جے پی کو کامیاب بنانے کی کوشش کریں۔ لیکن ظاہری طور پر ٹی آر ایس کا سیاسی مقابلہ کرتے دکھائی دینے والی بی جے پی کے داخلی ذرائع یہ مان رہے ہیں کہ ٹی آر ایس کے ساتھ بی جے پی کی ظاہری لڑائی کچھ اور ہے اور اندرونی دوستی کچھ اور ہورہی ہے کیونکہ چیف منسٹر کے چندر شیکھرر اؤ نے اب تک وزیر اعظم نریندر مودی کی کوئی مخالفت نہیں کی بلکہ مرکز کے ہر فیصلے کی حمایت کی ہے اور وقتاً فوقتاًوہ وزیر اعظم مودی کی ستائش کرتے ہوئے ان کی کارکردگی کی تعریف ہی کی ہے اس کے علاوہ کے سی آر نے نوٹ بندی اور جی ایس ٹی کیلئے مودی حکومت کے فیصلوں کی حمایت بھی کی ہے۔ صدر جمہوریہ اور نائب صدر جمہوریہ کے عہدوں کے لئے بی جے پی کے امیدواروں کے حق میں ووٹ دیا ہے تو ایسے میں بی جے پی کو ٹی آر ایس کے اندر ایک مضبوط حلیف پارٹی دکھائی دی ہے۔ اسی قیاس کے تحت یہ بھی کہا جارہا ہے کہ ٹی آر ایس نے خفیہ طور پر فیصلہ کرلیا ہے کہ وہ اپنے سینئر ارکان اسمبلی کو ٹکٹ نہیں دے گی ۔

عموماًیہ ہوتا ہے کہ حکمراں پارٹی ایک انتخاب کے بعد دوسرے انتخابات کے دوران تمام ارکان اسمبلی کو زیادہ ٹکٹ دیتی ہے لیکن اس مرتبہ ٹی آر ایس میں بڑے پیمانے پر تبدیلی ہوگی۔ ٹی آر ایس کے تقریباً 30 موجودہ ارکان اسمبلی کو ٹکٹ نہیں دیا جائے گا کیونکہ چیف منسٹر کے مسلسل کروائے جارہے سروے میں غیر کارکرد ارکان اسمبلی کی فہرست میں اضافہ ہوتا جارہا ہے۔ چیف منسٹر نے کئی مرتبہ وارننگ بھی دی ہے کہ جو رکن اسمبلی اپنے حلقہ میں غیر کارکرد ہونے کا ثبوت دے گا تو اس کے خلاف سخت قدم اٹھایا جائے گا۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ اس ملک میں مرکزی حکمرانی کے ساتھ رہنا ضروری ہے ورنہ آپ کے خلاف کوئی بھی تحریک کسی بھی وقت شروع کی جاسکتی ہے۔ مودی حکومت اپنے مخالفین کو ہرگز نہیں بخشتی جو کوئی مودی حکومت پر اُنگلی اٹھائے گا اس کا مستقبل تباہ کن ہوگا جیسا کہ بنگلور میں ایک کنڑا صحافی گوری لکیش کا حشر سب کے سامنے ہے ۔ بی جے پی اپنے مخالفین کو سبق سکھانے کسی بھی حد تک پہنچ رہی ہے تو یہ جنگل راج کہلائے گا۔جمہوری ہندوستان میں جنگل راج کی کوئی جگہ نہیں ہوتی، عوام کو اپنے مستقبل کی فکر ہوتی ہے اور وہ اپنے ووٹ کے استعمال میں باربار غلطی نہیں کرسکتے۔
kbaig92@gmail.com