مودی پر بیروزگاروں کا موقف‘ اہم سوال

رویش کمار

کیا آپ جانتے ہو کہ حالیہ برسوں میں ہندوستان سے 36 بزنسمین ملک چھوڑ کر فرار ہوگئے؟ کیا آپ ان تمام کے نام جانتے ہو؟ اُن کے جرائم اور اسکینڈلز کی شدت سے واقف ہو؟ میڈیا کے ذریعے ہمیں دو چار نام معلوم ہوجاتے ہیں جیسے وجئے مالیا، نیروو مودی، سندیشر بندھو، میہول چوکسی ۔ انفورسمنٹ ڈائریکٹوریٹ کا کونسل سوشان موہن گپتا کیلئے ضمانت کی مخالفت کرتا رہا، جو آگسٹا ویسٹ لینڈ ہیلی کاپٹر کی خریداری معاملے کا ملزم ہے۔ ایڈوکیٹس سے کہا گیا کہ اپنے دلائل کو مضبوط بنائیں کیونکہ حالیہ عرصے میں مالیا اور مودی جیسے 36 بزنسمین بھاگ چکے ہیں۔ یہ بھی اندیشہ ہے کہ وہ وطن واپس نہیں آئیں گے۔ اسی وجہ سے کہا جارہا ہے کہ 36 بزنسمین مفرور ہیں۔ یہ ’ٹائمز آف انڈیا‘ کی حالیہ اشاعت کی نمایاں رپورٹ ہے۔ عوام کی حیثیت سے ہم کتنی جانکاری رکھتے ہیں۔ حکومت میں موجود افسران عوام اور صحافت کی لاعلمی پر ہنستے ہوں گے۔
اخبار ’بزنس اسٹانڈرڈ‘ میں مہیش ویاس کا کالم روزگار کے بارے میں شائع ہوتا ہے۔ نوجوانوں کا بڑی کمپنیوں میں نوکریاں کرنے کا خواب ہوتا ہے۔ صرف وہی کمپنیاں جو Sensex (حساس اشاریہ) اور Nifty (نیشنل اسٹاک ایکس چینج 50) میں درج ہیں، آپ کو بتائیں گی کہ کتنے نئے لوگوں کو جاب دیا گیا ہے۔ کتنے لوگ جاب کرتے ہیں؟ یہ قاعدہ 2014-15ء میں ہی بنایا گیا۔ مہیش ویاس کا کہنا ہے کہ اس قاعدہ کو تمام کمپنیوں کیلئے لاگو کیا جانا چاہئے۔ ان کمپنیوں کے ڈیٹا کا جائزہ لینے کے بعد مہیش کا تجزیہ ہے کہ نوکریاں کم سے کم تر ہورہی ہیں اور تنخواہیں بھی گھٹتی جارہی ہیں۔ 2012-13ء میں تغیر (تنخواہوں وغیرہ سے متعلق) 25 فیصد بڑھا ہوا تھا۔ 2014-15 میں یہ نصف ہوگیا، اور 2016-17ء میں 11 فیصد تک گھٹ گیا۔ 2017ء میں یہ شرح 8.4 فیصد درج کی گئی۔ یہ واضح ہے کہ کارپوریٹ سیکٹر اب نئے رکروٹمنٹس میں کٹوتی لارہا ہے۔ اُس کی قوت گھٹ رہی ہے۔ 2017-18ء میں گزشتہ آٹھ برسوں کی اقل ترین بڑھوتری 7.7 فیصد ریکارڈ کی گئی۔ مہیش کے اعداد و شمار بتاتے ہیں کہ سرمایہ کاری اور جاب دونوں محاذوں پر نقصان ہورہا ہے۔ یہ گراوٹ شدید ہے۔ مہیش ویاس نے لکھا ہے کہ اگر ملازمین کی تنخواہوں میں کمی کی شرح افراط زر کے اثر سے گھٹا دی جائے تو اُن کی تنخواہیں 2017-18 میں 4.6% بڑھ جائیں گی، اگرچہ یہ تین برسوں میں بدترین اوسط ہے۔ سرویس سیکٹر جس میں تنخواہیں بڑھ رہی تھیں، اب جمود دیکھنے میں آرہا ہے۔
بڑے کارپوریشنس میں جابس اور انوسٹمنٹس میں تیزی سے گراوٹ آئی ہے۔ اس کے باوجود نریندر مودی کو معاشی پالیسیوں کے معاملے میں گریٹ سمجھا جارہا ہے۔ یہ ممکن ہے کہ مودی بے روزگاری کیلئے اہم ہے، جاب کیلئے نہیں۔ ’نو جاب‘۔ کئی جرنلسٹس جو الیکشن کی رپورٹنگ کیلئے گئے، انھوں نے بھی لکھا ہے کہ بے روزگار نوجوان کہتا ہے کہ اُس کیلئے قومی سلامتی بڑا معاملہ ہے۔ کوئی بیروزگاری نہیں ہے۔ بیروزگاری کوئی بھی مقبول عام لیڈر کو خائف کردیتی ہے، اُس کی مقبولیت گھٹا دیتی ہے۔ اگر میڈیا رپورٹس درست ہیں کہ نوجوانوں نے ایسا ہی کچھ کہا ہے تو پھر نریندر مودی کا یہ عظیم ترین کارنامہ سمجھا جائے گا کہ انھوں نے بیروزگاری کے مسئلہ کو بیروزگاروں کے درمیان ہی ختم کردیا۔ بہت کم لیڈر ہیں جو ایسا کرنے میں کامیاب ہوں گے۔ کچھ تعریف تو بیروزگاروں کی بھی کرنی چاہئے کہ وہ ان سخت حالات میں اپنی سیاسی وفاداری نہیں بدل رہے ہیں، جو آسان کام نہیں ہے۔
میری ملاقات کئی بینکروں سے ہوئی۔ ان کے کام کاج کے حالات بگاڑ دیئے گئے ہیں۔ تنخواہ نہیں بڑھ رہی ہے۔ بلاشبہ، کئی بینکرس اس کیلئے مودی کو مورد الزام ٹھہراتے ہیں، لیکن کئی بینکرس ایسے بھی ہیں جو ہنوز مودی، مودی کا راگ الاپ رہے ہیں۔ اس نوعیت کی مقبولیت چند ایک سیاستدانوں کو حاصل ہوتی ہے۔ اپنی سیاسی تائید و حمایت کو معاشی مشکلات پر مقدم رکھنا کچھ اور ہی بیان کرتا ہے۔ اگر مودی جیتے تو یہ وجوہات کا بھی بڑا حصہ رہے گا۔ ویسے عام طور پر مانا جاتا ہے کہ اگر جاب چلا جائے تو مخالف مودی عنصر کام کرے گا۔ اگر آپ کو جاب نہ ملے تو مودی عوام دشمن ہوجائیں گے اور اگر تنخواہوں میں اضافہ نہ ہونے لگے تو مودی خود مخالف مودی کہلائیں گے۔ سروے اور جرنلسٹس رپورٹ میں بیروزگاروں کے مابین مودی کی بڑھتی یا اب تک کی زیادہ مقبولیت کی وجہ یہ ہوسکتی ہے کہ اس طرح کے ووٹروں کے ذہنوں میں مال و اسباب کا شاید کوئی تصور ہی نہیں اُبھرا ہے۔ اگر ایسا ہے تو پھر یہ لمحہ فکر ہے۔
ravish@ndtv.com