’مودی شائننگ ‘ بی جے پی کو بھاری نہ پڑجائے!

راج دیپ سردیسائی
وزیراعظم نریندر مودی 24×7 نیوز کے دَور میں سیاسی تماش گاہ کے ماہر ہیں، اُن کی ہر حرکت حیرت میں ڈالنے والی ہوتی ہے۔ یہی وجہ ہے جب انھوں نے گزشتہ ہفتے ٹوئٹ کیا کہ وہ دوپہر میں میڈیا کے تمام گوشوں کیلئے قوم سے خطاب کریں گے، نیوز چیانل جنونی کیفیت میں مبتلا ہوگئے۔ بعض نے قیاس کیا کہ داؤد ابراہیم یا مسعود اظہر کا ہوسکتا ہے ’’صفایا‘‘ کردیا گیا، میرے ممبئی کے اسٹاک بروکر دوستوں کو فکر ہونے لگی کہ آیا 2,000 روپئے کی کرنسی نوٹ بند کی جارہی ہے؟ اسی لئے آخرکار اس اعلان پر کہ ہندوستان نے اینٹی سٹلائٹ (ASAT) میزائل کا کامیابی سے تجربہ کیا ہے، زیادہ تر راحت، فخر، اور ہاں تنازعہ کا ملے جلے ردعمل ظاہر کیا گیا۔ بہرحال کیا وہ واقعی اس قسم کا ڈرامائی لمحہ تھا جو کافی تجسس پیدا کرتے ہوئے وزیراعظم کے ٹیلی ویژن سے نشر کردہ خطاب کا متقاضی تھا؟ اس کے بجائے کیا یہ اعلان ڈیفنس ریسرچ اینڈ ڈیولپمنٹ آرگنائزیشن (DRDO) کے سائنسدانوں کی ٹیم کی طرف سے نہیں کیا جاسکتا تھا؟ یا پھر جیسا کہ مسٹر مودی کے نقادوں کا ماننا ہے کہ اس میں ماقبل انتخابات کچھ مایوسانہ کوشش ہوئی جس سے وزیراعظم نے ادارہ جاتی سالمیت کی قیمت پر سیاسی فائدہ اٹھانے کی سعی کی ہے؟ بہرحال مودی کا قوم سے خطاب راہول گاندھی کے اپنی طرف سے سیاسی رول ادا کرنے کی کوشش میں اس اعلان کے اندرون 48 گھنٹے ہوا، جب غریبوں کیلئے اقل ترین آمدنی کی ضمانت اسکیم کا وعدہ کیا گیا۔ راہول ہوسکتا ہے اپنے انسداد غربت بیانات کے ذریعے کمزور اپوزیشن میں نئی جان ڈالنے کی کوشش کررہے ہیں لیکن مودی کے پاس مضطرب ہونے کی کوئی وجہ نہیں ہے۔

ہر اوپینین پول ظاہر کررہا ہے کہ مودی زیرقیادت این ڈی اے کی اقتدار پر واپسی ہونے والی ہے۔ پھر کیوں، حتیٰ کہ انتخابی ضابطہ اخلاق لاگو ہے، کیا وزیراعظم نے جنگی نوعیت کے سنگ میل کے نام پر اپنے آپ کو نمایاں کرنا ضروری سمجھا؟ کیا یہ وزیراعظم کا شہ سرخیوں میں دوبارہ چھا جانے کا طریقہ ہوا، جو کم از کم پیوستہ دو دنوں سے راہول کے نیونتم آئے یوجنا (NYAY) کے وعدے سے چھائی ہوئی تھیں۔ بہرحال ٹھیک ہمارے سپاہیوں کی طرح ہمارے سائنس داں قومی وقار کے مجسم ہوتے ہیں۔ ایک سائنسی کارنامے کو لگ بھگ خود سے جوڑتے ہوئے وزیراعظم پھر ایک بار ’آزاد‘ اداروں کو استعمال کرنے کے مورد الزام ٹھہرائے گئے ہیں، تاکہ اپنے قوم پرستانہ جذبات کو ووٹروں کے سامنے پیش کیا جائے، اپنی تقریر کے ختم پر مُکہ ہوا میں لہراتے ہوئے بھارت ماتا کی جئے کا نعرہ لگانا انتخابی مہم کے اختتام کا اظہار کرنے کی مانند ہے۔

شخصیت کی انفرادیت لگ بھگ ہر وزیراعظم کی خاص بات رہی ہے۔ ’انڈیا اِز اِندرا‘ اور ’اِندرا اِز انڈیا‘ کا نعرہ شاید کانگریس کو ہمیشہ پریشان کرتا رہے گا اور یہ حقیقت بھی کہ جواہر لعل نہرو نے عہدہ پر رہتے ہوئے ’بھارت رتن‘ حاصل کیا تھا۔ جتنی اسکیمات نہرو۔ گاندھی فیملی سے موسوم کی گئیں وہ سیاسی تذکرۂ اعلیٰ شخصیات کا مزید ثبوت ہے۔ جب اٹل بہاری واجپائی وزیراعظم تھے، اُن کی تصاویر اُن کے پسندیدہ ’گولڈن کواڈریلیٹرل‘ (نیشنل ہائی وے نٹ ورک) پراجکٹ کے تمام نمایاں مقامات پر لگی ہوا کرتی تھیں۔ لیکن مودی نئی کسوٹیاں قائم کررہے ہیں۔ پھر چاہے وہ پٹرول پمپس کے بل بورڈز ہو، ایئر انڈیا اور ریلوے کے ٹکٹس ہو، یا لگ بھگ کوئی بھی گورنمنٹ پراجکٹ ہو، مودی کی تصویر ہمیشہ سب سے نمایاں ہوتی ہے۔ بلاشبہ، آزاد ہندوستان میں کسی حکومت نے تشہیر اور خود کی مارکٹنگ پر اس قدر خرچ نہیں کیا جتنا مودی حکومت نے کیا ہے۔ ایک آر ٹی آئی (رائٹ ٹو انفارمیشن) درخواست نے گزشتہ سال انکشاف کیا کہ وسط 2014ء اور سپٹمبر 2018ء کے درمیان سرکاری اسکیموں کی تشہیر پر خرچ کی گئی رقم تقریباً 5,000 کروڑ روپئے ہے۔ گزشتہ چھ ماہ میں یہ رقم مزید بڑھ گئی ہے، جس سے پتہ چلتا ہے کہ سیاسی پروپگنڈے کیلئے سرکاری مشنری ہر لگ بھگ پوری طرح قبضہ کرلیا گیا ہے۔ زمین سے لے کر سائبر اسپیس تک ہر جگہ موجود رہتے ہوئے مودی نہ صرف ملک کے سب سے مقدم سیاسی لیڈر بن چکے ہیں بلکہ نیشنل ایجنڈہ کو اپنی مرضی کے مطابق طے بھی کیا ہے۔ شاید یہی وجہ ہے کہ انھیں راہول گاندھی کی موافق غریب رسائی کی کوشش سے جھٹکہ لگا اور انھوں نے اس کا جواب ٹی وی پر دیا تاکہ دوبارہ شہ سرخی میں آجائیں۔ اس سے یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ بی جے پی کی مودی پر مرکوز بے تکان مہم دو دھاری تلوار ہے: جہاں یہ پارلیمانی لڑائی کو صدارتی مقابلہ جیسا بناتی ہے، وہیں یہ ووٹر کو بیزار بھی کرسکتا ہے جو فطری طور پر زیادہ گھمنڈ اور زعم کو ناپسند کرتا ہے۔ اسی لئے بی جے پی کے سیاسی منیجروں کو ایسی صورت میں محتاط رہنے کی ضرورت ہے جب وہ اپنی مودی شائننگ مہم کے ذریعہ ووٹر کو متاثر کرنے کی پے در پے کوششیں جاری رکھیں۔ اس میں شک نہیں کہ مودی بدستور بی جے پی کا اس کی 2019ء دوبارہ انتخاب کی سعی کا اصل سرمایہ ہیں، لیکن اُن کے ساتھ یہ جوکھم بھی ہے کہ نوکریاں اور زرعی آمدنی جیسے حقیقی مسائل کو صرف ایک فرد پر مرکوز تشہیر کے ذریعہ ماند کرنے کی غلطی ہوجائے گی۔
اختتامی تبصرہ : جہاں مودی کی گزشتہ پانچ سال میں تعریف و ستائش ہوتی رہی ہے، وہیں اس مدت میں جواہر لعل نہرو کی جتنی بُرائی کی گئی شاید ہی کوئی اور لیڈر کی ہوئی۔ اور اس کے باوجود یہ عجیب حقیقت ہے کہ نہرو کی دوراندیشی کے نتیجے میں ملک کا اسپیس اینڈ ڈیفنس ریسرچ پروگرام قائم کیا گیا۔ ہمارے سائنسی ادارہ جات کو اپنا کارنامہ بتانے کی مسابقت کے ذریعے سیاسی رنگ دینے کے بجائے ہمیں عمدہ وراثت کے تسلسل کی خوشی منانا چاہئے جو ہندوستان کے پہلے وزیراعظم سے جُڑتا ہے اور وہ کئی غیرمعمولی سائنسدانوں کو بھی خراج تحسین پیش کیا جائے، جو اِس ملک کے سپوت ہیں۔
rajdeepsardesai52@gmail.com