مودی حکومت کے غیر معمولی کارنامے !!

محمد ریاض احمد

ہندوستان میں بی جے پی حکومت میں ہندوتوا جذبات کو فروغ نہیں دیا جارہا ہے بلکہ بھڑکایا جارہا ہے، حالانکہ پچھلے تین برسوں سے جو واقعات سامنے آئے ہیں ان سے جنت نشان ہندوستان کی عالمی سطح پر کافی بدنامی ہوئی ہے۔ حال ہی میں راجستھان میں مغربی بنگال کے ایک مسلم مزدور افراز الاسلام کو ایک ہندو فاشسٹ نے جس درندگی سے قتل کیا ہے اس نے ہر محب وطن ہندوستانی کا سر شرم سے جھکا دیاہے۔ کوئی بھی انسان یہ ہرگز نہیں چاہے گا کہ کسی دوسرے انسان کو مزدوری دینے کے بہانے بلائے اور اسے انجانے میں اور وہ بھی پیچھے سے کلہاڑی سے حملہ کرکے شدید زخمی کرے اور پھر اس مجبور و بے بس کو پٹرول چھڑک کر زندہ جلادے۔ افراز الاسلام کو شہید کرنے والے ہندوتوا کے درندے نے صرف اپنی اس شیطانیت کا مظاہرہ نہیں کیا بلکہ اس عمل کی فلمبندی بھی کرائی۔ سارے ہندوستان اور دنیا کے مختلف ملکوں میں سوشل میڈیا کے ذریعہ وہ خطرناک ویڈیو جنگل کی آگ کی طرح پھیل گیا جس سے ہندوتوا طاقتوں کے نظریات ان کی پالیسیاں اور ایجنڈہ آشکار ہوگیا ہے۔ ہندوستان کے عام ہندو انسانیت دوست ہیں وہ ہندوستان کی گنگا جمنی تہذیب میں یقین رکھتے ہیں۔ انہیں مذہب کے نام پر ہندوستان کی تباہی و بربادی ہرگز ہرگز پسند نہیں لیکن افسوس کے چند گندی مچھلیاں سارے تالاب کو ہی گندہ کرنے پر تلی ہوئی ہیں۔ وہ ہندوستان کو ہندو راشٹرا بنانے کا خواب دیکھ رہی ہیں اور اس کے لئے ملک کے یہ غدار (ہندوستان کو تباہ و برباد کرنے والوں کو غدار نہیں تو اور کیا کہا جائے گا) اپنی سرپرست تنظیم کے خفیہ ایجنڈے پر بڑی سنجیدگی اور دلجوئی سے کام کررہے ہیں انہیں اندازہ نہیں کہ اگر وہ ملک کو تباہ و برباد کرنے کا سامان کریں گے تو وہ بھی تباہی و بربادی کے گہرے دلدل میں دھنس جائیں گے۔ ہندوستان میں آج فرقہ پرستی کا جوزہر تیزی کے ساتھ پھیلایا جارہا ہے ہے اس کا کریڈٹ بلا شک و شبہ ہماری نریندر مودی حکومت کو جاتا ہے۔ مودی حکومت کی مجرمانہ خاموشی ہی موجودہ خطرناک حالات کی ذمہ دار ہے۔ اس کے مئی 2014 ء میں اقتدار سنبھالنے کے بعد ملک میں ’’سب کا ساتھ سب کا وکاس‘‘ کے
نعرہ پر عمل کرنے کی بجائے ’’اپنا وکاس سب کا وناش‘‘ (اپنی ترقی سب کی بربادی) پر عمل کیا گیا۔ یہ اور بات ہے کہ مودی حکومت نے ہندوستان کی ترقی و خوشحالی کے بلند بانگ دعوے کئے حالانکہ حقیقت کا جائزہ لیا جائے تو بخوبی اندازہ ہوتا ہے کہ ہندوستان میں فرقہ پرستی کا فروغ، ذبیحہ گاو پر امتناع، تحفظ گاو کے نام پر انسانوں کا قتل (بے قصور مسلمانوں کا قتل) گھر واپسی کے نام پر غنڈوں کو درندگی کی کھلی چھوٹ، لو جہاد کے بہانے مسلمانوں پر حملے انہیں ڈرانے دھمکاکے واقعات، انسانیت کے حامی اور فرقہ پرستی پر سیکولرازم کو ترجیح دینے والے صحافیوں، دانشوروں، ماہرین تعلیم ادیبوں و شعراء پر حملے اور ان کے قتل (صحافی گوری لنکیش، نریندر دابھولکر اور ایم ایم گلبرگی کے سینوں میں گولیاں اتارنے کے سانحات) لالو پرساد یادو جیسے سیاسی مخالفین سے سیاسی انتقام، خواتین پر جنسی حملوں میں اضافہ، نوٹ بندی اور اس کے باعث بینکوں اور اے ٹی ایمس کی قطاروں میں ٹھہرنے والے زائد از 150 مردو خواتین کی اموات، حالیہ دنوں میں جی ایس ٹی کا نفاذ اور اس پر عمل آوری سے تاجرین و عوام کو ہورہی مشکلات کے علاوہ مسلم پرنسل لا میں مداخلت کی کوششوں کے ساتھ ساتھ طلاق ثلاثہ پر مسودہ قانون کی منظوری مودی کے وہ بدترین کارنامے ہیں جنہیں انہوں نے اپنے تقریباً تین سال 7 ماہ اقتدار کے دوران انجام دیئے۔ ان کارناموں میں پٹرول کی قیمتوں میں مسلسل اضافہ، وزیر اعظم و دامود نریندر مودی کے غیر معمولی بیرونی دورہ، (انہوںنے اقتدار سنبھالنے کے بعد تاحال تقریباً 60 ملکوں کے دورے مکمل کرلئے ہیں) اور سرحد پر بے شمار ہندوستانی فوجیوں کی ہلاکتیں بھی شامل ہیں۔ جون 2017ء میں عین عیدالفطر کے ایک دن قبل ہریانہ کے ایک کمسن حافظ قرآن محمد جنید کا چلتی ٹرین میں ہندوتوا غنڈوں کے ہاتھوں ہوا قتل انصاف پسندوں کی رائے میں شاید مودی حکومت کے سینے پر ناکامی کا سب سے بڑا تمغہ (معاف کرنا فرقہ پرستوں کی کامیابی کا سب سے بڑا تمغہ ہے) جس وقت حافظ جنید کو ظالموں نے چھرا گھونپ کر شہید کردیا تھا اس وقت ان کی ماں سائرہ بانو کی چیخوں اور آہوں سے سارا ہندوستان دہل گیا تھا۔ محب وطن ہندوستانیوں میں غم و اندوہ کی لہر دوڑ گئی۔ بلالحاظ مذہب و ملت کیا ہندو کیا مسلمان کیا سکھ کیا عیسائی ہر ماہ کی آنکھوں سے سائرہ بانو کی اجڑی گود نے آنسوؤں کی ایک لڑی جاری کردی۔سائرہ بانو نے زاروقطار روتے ہوئے جو الفاظ ادا کئے وہ آج بھی ہماری سماعت سے ٹکرا رہے ہیں۔ اس غم زدہ ماں نے کہا تھا ’’وہ لوگ ظالم ہیں ظالم کی طرح سزا ہونی چاہئے ان کو مسلمان سے دشمنی ہے‘‘ شاید سائرہ بانو کا اشارہ صرف ان کے بیٹے کے قاتلوں کی طرف ہی نہیں بلکہ ان درندوں کی جانب تھا جنہوں نے اقتدار پر فائز ہوتے وقت یہ حلف لیا کہ دستور کی پامالی نہیں کریں گے۔ ایسے کوئی کام نہیں کریں گے جس سے ملک و قوم کا نقصان ہو یا اس کی بدنامی ہو۔ ان لوگوں نے بلالحاظ مذہب و ملت رنگ و نسل اور ذات پات کے تمام ہندوستانی شہریوں کے یکساں خدمت بجالانے کا عہد بھی کیا تھا، لیکن انہیں اپنے عہد کا کوئی خیال رہا نہ انہوں نے دستور کی پاسداری کی صرف اور صرف اقتدار پر برقراری اور اس کے حصول کی خاطر مذہب کے نام پر ہندوستانیوں کے درمیان نفرت کی تخم ریزی موت کی سوداگری اور اقتدار کی دلالی کے خطرناک طریقوں کو اپنایا ۔ اگرچہ اس سے ان کا عارضی فائدہ ضرور ہوا لیکن ملک و قوم کا بڑے پیمانے پر نقصان ہوا۔ آج ہمارے ملک کے نوجوانوں میں صلاحیتوں کی کوئی کمی نہیں قدرت نے اس ملک کو قدرتی وسائل سے مالا مال کر رکھا ہے۔ انفارمیشن ٹکنالوجی، خلائی سائنس کے شعبہ، طب و تعلیم کے شعبوں میں ہندوستان نے غیر معمولی کامیابیاں حاصل کی ہیں لیکن فرقہ پرست طاقتیں اپنی ملک دشمن سرگرمیوں کے ذریعہ ہندوستان کی ترقی و خوشحالی کے عمل کو روک رہی ہیں۔ حیرت اس بات پر ہے کہ فرقہ پرستوں کے خلاف کہیں بھی کوئی کارروائی نہیں کی جاتی۔ الٹا چور کوتوال کو ڈانٹے کے مصداق شہید مسلمانوں کے خلاف مقدمات درج کئے جاتے ہیں۔ قاتلوں کی تائید و حمایت میں جلوس نکالے جاتے ہیں۔ قاتلوں کی نعشوں کو قومی پرچم سے لپیٹا جاتا ہے جو سراسر قومی پرچم کی بے حرمتی ہے۔ سوشل میڈیا پر احتجاج کرنے والے نوجوانوں کو جیلوں میں ڈال دیا جاتا ہے۔ بی جے پی کی زیر اقتدار ریاستوں کے چیف منسٹرس اور وزراء کے ساتھ ساتھ اس کے ارکان پارلیمنٹ اور کچھ مرکزی وزراء تک برسر عام فرقہ پرستی کا زہر گھولنے سے نہیں شرماتے۔ وہ علی الاعلان قانون اور دستور کی دھجیاں اڑاتے ہیں اور ان سب پر ہمارے مودی جی غیر معمولی بھولے پن کا اظہار کرتے ہوئے مجرمانہ خاموشی اختیار کرلیتے ہیں۔ تمام اپوزیشن قائدین نے انہیں بار بار اپنی خاموشی توڑنے پر زور دیا لیکن ڈاکٹر منموہن سنگھ کی خاموشی پر ہمیشہ طنز کرنے والے مودی کی زبان پر خاموشی کا تالا پڑا رہا۔ حقیقت یہ ہے کہ بی جے پی ملک میں صرف فرقہ پرستی کو ہوا دے کر اپنی سیاسی روٹیاں سیک رہی ہے۔ اس کا مقصد ہندو آبادی کو مسلمانوں کے نام پر ڈراتے ہوئے اپنا الو سیدھا کرنا ہے۔ مودی حکومت کو مسلم خواتین سے کوئی ہمدردی نہیں وہ مسلم خواتین کی ہمدردی کے بہانے دراصل شریعت میں مداخلت کرنا چاہتی ہے۔ ملک میں یکساں سول کوڈ کے نفاذ کی خواہاںہے۔حالیہ عرصہ کے دوران لوک سبھا میں طلاق ثلاثہ کے خلاف مسودہ قانون کو منظوری دی گئی اس کے تحت ایک ہی نشست میں طلاق ثلاثہ دینے والے مرد کو تین سال قید کی سزا ہوگی۔ مودی جی نے تو یہ قانون منظور کروانے میں کوئی کسر باقی نہیں رکھی لیکن اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اُن مردوں کا کیا ہوگا جو بیویوں سے فرار اختیار کرچکے ہیں۔ اس طرح انھوں نے اپنی بیویوں پر نفسیاتی ظلم کیا ہے۔ مودی حکومت نے جو کچھ بھی کیا صرف مسلمانوں کے خوف سے کیا ہے۔
یہاں ایک بات اہم ہے انگریزوں کے دور میں بھی ان کے اقتدار کے لئے مسلمانوں کو خطرہ سمجھا جاتا تھا آج بھی بی جے پی حکومت میں مسلمانوں کو ہی نشانہ بنایا جارہا ہے۔ اگر مودی حکومت کی نیت اور ارادے نیک ہوتے تو سب سے پہلے گجرات کی اُس خاتون کو انصاف ملتا جسے اس کے اپنے شوہر نے شادی کے فوری بعد چھوڑ کر اپنی ازدواجی زندگی سے راہ فرار اختیار کی۔ تقریباً 5 دہوں سے اس خاتون کے ارمانوں اور امنگوں کا خون ہو رہا ہے، لیکن اس کی حالت پر رحم کرنے والا کوئی نہیں۔ اس خاتون کے شوہر کو اپنی زندگیوں میں خوش مسلم خواتین کی فکر تو ہے لیکن ہر روز مر مر کر جینے والی اپنی بیوی کی فکر نہیں۔ وہ دردر کی ٹھوکریں کھارہی ہے اسے آگے بڑھ کر تھامنے کی بجائے اس کا شوہر ملک میں ’’بھائیو بہنو‘‘ کی رٹ لگائے ہندوستانیوں کو شاید بے وقوف بنا رہا ہے۔
mriyaz2002@yahoo.com