مودی آئین کو ماننے پر مجبور

ظفر آغا
وزیراعظم نریندر مودی نے ایک بار پھر سارے ملک کو چونکادیا ہے۔ یہ وہ موقع تھا جب کہ وہ ایوان پارلیمنٹ میں صدر جمہوریہ کے خطبہ کا اپوزیشن پارٹیوں کو جواب دے رہے تھے ۔ یہ وہ رسم ہے جو ہر وزیراعظم کو ہر سال بجٹ سیشن شروع ہونے پر ادا کرنی پڑتی ہے ۔ رسم کے مطابق بجٹ سیشن کا افتتاح صدر جمہوریہ کے خطبے سے ہوتا ہے جس میں صدر جمہوریہ اپنی حکومت کی پالیسیوں کی نشاندہی کرتے ہیں ۔ پھر اس خطبے پر بحث ہوتی ہے ۔ ظاہر ہے اپوزیشن پارٹیاں حکومت وقت کے طرز عمل پر نکتہ چینی کرتی ہیں ۔ بحث کے اختتام پر وزیراعظم اپوزیشن پارٹیوں کے اعتراضات پر صفائی پیش کرتے ہوئے اپنی جوابی تقریر کرتے ہیں چنانچہ 27 فروری کو پارلیمنٹ میں صدر جمہوریہ کے حالیہ خطبے پر بحث ہورہی تھی اپوزیشن پارٹیوں نے چاروں طرف سے اس موقع پر وزیراعظم کو گھیرنے کی کوشش کی۔ طرح طرح کے اعتراضات اٹھے جن میں سب سے زیادہ شور جس بات پر ہوا وہ یہ تھی کہ آخر حکومت ہند ’’گھر واپسی‘‘ اور چرچ پر حملوں جیسے اقلیت مخالف معاملات پر خانموشی کیوں اختیار کئے ہوئے ہیں۔ اس بحث میں اپوزیشن پارٹیاں حکومت اور بالخصوص وزیراعظم سے جو جواب طلب کررہی تھیں وہ یہ تھاکہ آیا مودی حکومت ملک کے آئین کی سیکولر بنیاد سے منحرف ہورہی ہے ؟

یہ وہ سوال تھا جس پر اپوزیشن پارٹیوں کو یہ امید تھی کہ وزیراعظم سنگھ پریوار کے بعض عناصر کے دباؤ کے تحت بات کو ٹال جائیں گے اور پھر اپوزیشن کو نریندر مودی کے خلاف بولنے کا موقع ملے گا ۔ اپوزیشن کا یہ قیاس کچھ غلط بھی نہیں تھا ۔ گجرات فسادات کے معاملات میں وزیراعظم پر طرح طرح کے اعتراضات موجود تھے اور یہ معاملہ عدالت تک پہنچا تھا ۔ اسی لئے کسی کو امید نہیں تھی کہ وزیراعظم ’’گھر واپسی‘‘ اور چرچوں پر حالیہ حملہ کے معاملہ میں کسی قسم کی صفائی پیش کریں گے ۔ لیکن نریندر مودی نے 27 فروری کو ایوان میں اس معاملہ پر اپنی حکومت کی جانب سے خود صفائی پیش کی اور صفائی بھی ایسی کہ ہر کوئی چونک اٹھا ۔ بات کچھ چونکادینے والی تھی ۔ راقم الحروف ذیل میں وزیراعظم کی تقریر کا وہ اقتباس پیش کررہا ہے جو انہوں نے اس سلسلہ میں کہا تھا:

’’یہ ملک محض آئین کے اصولوں کے تحت ہی چلایا جاسکتا ہے ۔ یہ (آئین) اس ملک کی صدیوں پرانی تہذیب و تمدن کا آئینہ دار ہے اور اس ملک کے عام آدمی کی امیدوں اور خواہشوں کی غمازی کرتا ہے ۔ ہندوستان اس (آئین) کے اصولوں کو برطرف کرکے نہیں چلایا جاسکتا ہے ۔ کوئی بھی فرد قانون اپنے ہاتھوں میں نہیں لے سکتا اور کوئی بھی فرد کسی بھی شہری کے مذہب اور عقیدے کی بنیاد پر اس کے خلاف کوئی قدم نہیں اٹھاسکتا ہے ۔ وہ لوگ جو غیر ذمہ دارانہ (گھر واپسی جیسے) بیان دے رہے ہیں ان کو یہ یاد رکھنا چاہئے کہ یہ میری ذمہ داری ہے کہ میں یہ طے کروں کہ ہندوستان کن اصولوں پر چلے گا اور وہ اصول آئینی ہوں گے…‘‘
گو اس سلسلے میں وزیراعظم نے دو ہفتے قبل عیسائیوں کی ایک محفل میں اقلیتوں کے خوف کو دور کرنے کے سلسلے میں ایک بیان دیا تھا لیکن 27 فروری کو پارلیمنٹ میں وزیراعظم کا بیان اقلیتوں کے لئے ایک مرہم ثابت ہوگا ۔ کیونکہ اس بیان میں محض یہ نہیں دہرایا گیا ہے کہ مودی حکومت ملک کے آئین کی محافظ ہے اور وہ ہندوستان کے سیکولر نظام کے ساتھ چھیڑ چھاڑ نہیں کرے گی بلکہ وزیراعظم کے اس بیان کا سب سے اہم نکتہ یہ ہے کہ وہ ہندوستانی آئین کو ملک کی صدیوں پرانی گنگا جمنی تہذیب کا آئینہ دار مانتے ہیں اور خود کو اس تہذیب کا محافظ قرار دے رہے ہیں ۔ اس نقطہ نگاہ سے اصولی سطح پر یہ بیان وزیراعظم کا عہدہ سنبھالنے کے بعد سے نریندر مودی کا سب سے اہم بیان کہا جاسکتا ہے ۔ کیونکہ انہوں نے اس بیان میں ہندوستان کی صدیوں پرانی گنگا جمنی تہذیب کو نہ صرف تسلیم کیا ہے بلکہ خود کو اس کا محافظ بھی قرار دیا ہے

اور یہی ہندوستان کی سب سے بڑی تاریخی اور سماجی حقیقت ہے ۔ ہندوستان ابتداء سے ہی تہذیبوں کا سنگم رہا ہے ۔ بقول جسٹس مارکنڈے کاٹجو ہندوستان میں دنیا بھر سے ہر تہذیب کے ماننے والے آئے اور یہیں رچ بس گئے ۔ کبھی آرین آئے تو اس سے قبل یہاں قبائلی رہے ۔ پھر ہن آئے تو پھر کبھی پارسی آئے ۔ کبھی یہاں بدھ مذہب کا ڈنکا بجا تو کبھی حضرت عیسیٰؑ کے ماننے والوں کے گرجا کے گھنٹوں کی گونج نے ہندوستان کو منور کردیا ۔ اسی طرح جب مسلمان آئے تو گلی گلی کوچے کوچے سے صدائے لاالہ الاللہ اٹھی جو آج بھی گونج رہی ہے ۔ ایسے ہی جب گرونانک کھڑے ہوئے سکھ گردواروں نے بھی اسی ہندوستان میں اپنی جگہ بنالی ۔ الغرض اس ہندوستان نے ہر مذہب کو اپنے دامن میں سمولیا ۔ یہاں ہر قسم کی زبان پنپی ، ہر قسم کا لباس پہنا گیا ، ہر قسم کے تہوار منائے گئے اور ہر طرح کے کھانے کھائے گئے ۔ یہ وہ ملک ہے جہاں نہ کوئی مندر ختم کرسکتا ہے اور نہ ہی مسجدوں کو مٹاسکتا ہے اور نہ چرچ اور گردوارے توڑے جاسکتے ہیں ۔ اس ملک کی بقا اسی بات میں ہے کہ ہر عقیدے کا ہر کوئی احترام کرے ۔ اسی اصول اور خمیر پر ہندوستانی تہذیب کی بنیاد رکھی گئی ہے اور بقول وزیراعظم ہندوستانی آئین اسی اصول کی غمازی کرتا ہے ۔ ہمارے یہاں یوروپ کی طرح سیکولرازم کے یہ معنی نہیں ہیں کہ حکومت مذہبی معاملات سے بالکل ہاتھ کھینچ لے ۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ حکومت ہند کا کوئی ایک مذہب نہیں ہوسکتا ہے ۔ لیکن ہمارے سیکولرازم کے معنی یہ ہیں کہ حکومت ہند کا یہ فریضہ ہے کہ وہ ہر عقیدے اور ہر مذہب کی محافظ رہے تاکہ ایک عقیدے کے ماننے والے دوسرے عقیدے کے ماننے والوں کے خلاف کسی قسم کی زور زبردستی نہ کرسکیں اور ہر عقیدے والے کو ترقی کے برابر حقوق ملیں اور ان کے ساتھ پوری طرح انصاف ہو ۔

یہی ہندوستانی تہذیب کی بنیاد ہے اور یہی ہندوستانی آئین کا نچوڑ ہے ۔ وزیراعظم نریندر مودی نے 27 فروری کو ایوان پارلیمنٹ میں انہی خطوط پر بیان دے کر نہ صرف بہت سارے شک وشبہات دور کرنے کی کوشش کی بلکہ اقلیتوں کے دلوں میں جو خوف تھا اس کو بھی بہت حد تک ختم کرنے کی کوشش کی ہے۔ ہندوستان کوئی پاکستان نہیں کہ اس کی تہذیبی روایت کو بدل کرکوئی بھی شخص اس ملک کو ایک ’ہندو پاکستان‘ بنادے ۔ خود یہاں کا ہندو یہ نہیں برداشت کرسکتا کہ ہندوستان کی بنیاد مذہبی بنیاد ہو ۔ سیکولرازم یہاں ایک آئینی رسم نہیں بلکہ سیکولرازم ہندوستانی تہذیب کی روح ہے جس کو برقرار رکھنے میں اس ملک کی ہندو اکثریت کا انتہائی اہم رول رہا ہے اور ہمیشہ رہے گا۔ ہر ملک میں چند سرپھیرے افراد ہوتے ہیں ۔ کیا یوروپ میں آج تک انتہا پسند افراد نہیں ہیں ؟ کیا مسلمانوں میں آج جہادی اور طالبانی طاقتیں موجود نہیں ہیں ؟ اسی طرح ہمارے ملک میں بھی کچھ افراد گھر واپسی اور غیر ہندو عبادت گاہوں پر حملہ کررہے ہیں لیکن اسکے معنی یہ نہیں ہیں کہ وہ ہندوستان کی تہذیبی روح کو بدل سکتے ہیں۔ وزیراعظم نریندر مودی نے اپنے حالیہ بیان سے اسی بات کی تصدیق کی ہے جو سارے ملک کے لئے عموماً اور اقلیتوں کے لئے خصوصاً ایک انتہائی اہم بیان ہے ۔ کیونکہ اس بیان کے بعد یہ طے ہوگیا کہ اس ملک میں پارٹیاں خواہ کسی بھی ایجنڈے کے تحت اقتدار حاصل کرلیں لیکن ایک بار اقتدار میں آنے کے بعد ان کو ہندوستان کے آئین کو تسلیم کرنا ہی پڑے گا ۔ یہی وہ حقیقت ہے جو ہندوستان کو ہمیشہ ایک ہندو پاکستان بننے سے روکتی رہے گی ۔ نریندر مودی نے اس حقیقت کو کھل کر تسلیم کیا ہے جو انتہائی خوش آیند بات ہے ۔