منیش تیواری کا دورۂ ریاض

کے این واصف
ہندوستان میں پچھلے کئی روز سے عوام کے بیچ جو سب سے سلگتا موضوع ہے ، وہ کرنسی نوٹوں کی تنسیخ کا ہے۔ اس گمبھیر مسئلہ کی آگ میں ہندوستان کا عام آدمی میں جل رہا ہے۔ حکومت کی ستائی ہوئی مظلوم عوام کے آہوں کی حدت یہاں برسرکار غیر مقیم ہندوستانیوں تک بھی پہنچی۔ این آر آئز یہاں  اپنے اہل خاندان پر آن پڑی آفت سے بے حد پریشان و فکرمند ہیں لیکن ہزاروں میل دور بیٹھے یہ این آر آئیز کی طرح بھی اس مصیبت کی گھڑی میں اپنے اہل خاندان کی مدد سے قاصر ہیں۔ یہاں نہ کوئی ان کی شکایت سننے والا ہے نہ وہ کسی سے نمائندگی ہی کرسکتے ہیں۔ ایسے میں پچھلی جمعرات کو ہندوستان کے سابق مرکزی وزیر اور موجودہ ترجمان کانگریس پا رٹی منیش تیواری علیگڑھ مسلم یونیورسٹی کی دعوت پر ریاض پہنچے جس سے این آر آئیز کی امید بندھی کہ اپوزیشن کا سہی ایک سیاسی قائد تو آیا جس سے اپنا دکھ بیان کرسکیں۔ منیش تیواری نے سر سید ڈے کی اس تقریب میں ملک کے کسی سیاسی موضوع پر کچھ بولنے سے احتراز کیا ۔ مگر تقریب کے بعد مقامی صحافیوں نے کوشش کر کے ان سے ملاقات کا وقت حاصل کیا ۔ صحافت سے اس ملاقات میں انہوں نے کریدنے پر بڑی نوٹوں کی منسوخی کو غیر قانونی عمل قرار دیا اور کہا کہ یہ عوام کے بنیادی حقوق پر قدغن لگانے کے مترادف ہے ۔ انہوں نے کہا کہ ہندوستان میں اس سے قبل 1978 ء میں بھی بڑی نوٹ (ہزار روپئے کی) کو منسوخ کیا گیا تھا لیکن اس پر عملآوری ایک آرڈیننس کے ذریعہ ہوئی تھی جس کو بعد میں پارلیمنٹ سے منظور کرایا گیا تھا ۔ قانون داں منیش تیواری نے 2000 روپئے کے نوٹ کے اجراء کو بھی  غیر قانونی بتایا ۔ انہوں نے یہ بھی کہا کہ ملک میں معاشی ایمرجنسی لاگو کئے بغیر عوام کو بینک سے رقم نکالنے کی حد بھی مقرر نہیں کی جاسکتی۔ منیش تیواری نے عوام کی جائیدادوں سے متعلق کئے گئے حکومت کے اعلان کو بھی غلط اور غیر قانونی قرار دیا ۔ تیواری نے حکومت پر الزام عائد کیا کہ اس نے نوٹوں کی منسوخی سے پیدا ہونے والے حالات کا اندازہ کیا نہ اس سے نمٹنے کی تیاری ہی کی نہ نئی کرنسی کی تقسیم سے متعلق خاطر خواہ انتظامات ہی کئے ۔ نتیجتاً عوام کو ناقابل بیان مسائل کا سامنا کرنا پڑا۔
جیسا کہ ہم نے اوپر ذکر کیا کہ سابق مرکزی وزیر منیش تیواری یوم سر سید تقاریب میں شرکت کیلئے علیگڑھ مسلم یونیورسٹی اولڈ بوائز اسوسی ایشن کی دعوت پر ریاض آئے تھے تو پیش ہے اس تقریب کی روداد بھی۔
یوم سرسید
علیگڑھ مسلم یونیورسٹی اولڈ بوائز اسوسی ایشن ریاض (اموبا) نے حسب روایت امسال بھی شاندار پیمانے پر یوم سرسید کا اہتمام کیا ۔ اس تقریب کیلئے ہر سال اموبا ہندوستان سے کسی نامور شخصیت کو بطور مہمان خصوصی مدعو کرتی ہے۔ اس سال اموبا نے ہندوستان سے سابق مرکزی وزیر اور موجودہ ترجمان کانگریس پارٹی منیش تیواری کو مدعو کیا تھا ۔ ایک پانچ ستارہہوٹل میں منعقد اس تقریب کا آ غاز ڈاکٹر عبدالاحد چودھری کی قرأت  کلام پاک سے ہوا ۔ ناظم تقریب ڈاکٹر عبدالرحیم خاں کے ابتدائی کلمات کے بعد صدراموبا انجنیئر سہیل احمد نے مہمانان کا خیر مقدم کرتے ہوئے کہا کہ بائی جامعہ سر سید احمدخاں قومی اتحاد ، باہمی رواداری ، وطن پرستی اور ملک میں تعلیم عام کرنے کے حامی تھے ۔ وہ لاکھ مخالفتوں کے باوجود اپنے ان مقاصد کی تکمیل پر ڈٹے رہے۔ یہی وجہ ہے کہ آج صرف علیگڑھ اور صرف مسلمان ہی نہیں بلکہ ساری دنیا میں بلا تفریق مذہب و ملت اس مرد مجاہد کا یوم پیدائش منایا جاتا ہے جس سے ہماری نئی نسل مستفید ہوتی ہے اور اس محسن قوم سے متعارف و روشناس بھی ہوتی ہے ۔ سہیل نے کہا کہ سرسید نے غدر بعد ملک کے افراتفری اور جنگ و جدل کے ماحول میں تلوار کے بجائے قلم کو ہتھیار بنایا اور ملک میں تعلیم عام کرنے کی مہم پر انقلابی انداز میں کام کیا ۔ سہیل نے ملک میں امن و اتحاد کے فقدان پر بولتے ہوئے سرسید کے اس کہے کو دہرایا کہ ہندوستان ایک خوبصورت دلہن ہے اور ہند ، مسلمان اس کی دو آنکھیں ہیں۔ نااتفاقی اور عدم رواداری سے انہیں نقصان پہنچایا تو ملک بربادی کے اندھیروں میں چلا جائے گا ۔ سہیل کے خیرمقدمی خطاب کے بعد یارا انٹرنیشنل اسکول ریاض کے طالب علم اور بہترین مقرر اشون پرساد نے سرسید پر پراثر تقریر کی ۔ سینئر علیگ و تقریب کے مہمان اعزاز محمد مکرم خاں نے اپنے مخصوص مزاحیہ انداز میں مخاطب کر تے ہوئے محفل کو زعفران زار کیا۔
مہمان خصوصی منیش تیواری نے اس موقع پر مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ علیگڑھ صرف ایک تعلیمی تحریک نہیں بلکہ اس کی ایک سیاسی تاریخ بھی ہے۔ انہوں نے کہا کہ سر سید احمد خاں کی آنکھوں نے ایک صدی کے آگے کا منظر دیکھا تھا اور آنے والے وقت میں تعلیم کی اہمیت کو پیش نظر رکھ کر اپنا تعلیمی مشن شروع کیا تھا ۔ آج ساری دنیا میں پھیلے ہوئے علیگزین ان کی اپنی کاوشوں کے ثمر ہیں۔ سابق وزیر تیواری نے کہا کہ دنیا کے چند ممالک جنگ کی لپیٹ میں ہیں اور اس آگ کی حدت ساری دنیا کے امن کو متاثر کر رہی ہے ۔ انہوں نے کہا کہ اموبا اور اس جیسی سماجی خدمات انجام دینے والی تنظیم اپنے مقاصد کی تکمیل کے علاوہ اپنے پلاٹ فارم کو امن و بھائی چارگی کے فروغ کیلئے بھی استعمال کریں۔ انہوں نے کہا کہ اموبا ریاض اراکین میں ، میں نے ایک غیر معمولی اتحاد اور بھائی چارگی کا جذبہ دیکھا ہے۔ میں امید کرتاہوں کہ اموبا امن کے فروغ کے لئے بہترانداز میں کام کرسکتا ہے ۔ قانون داں منیش تیواری نے علیگڑھ مسلم یونیورسٹی کے اقلیتی کردار کی بحالی کی طرف ہلکا سا اشارہ کرتے ہوئے کہا کہ ہماری عدالتِ عالیہ ضرور علیگڑھ یونیورسٹی کو اس کا جائز حق دلائے گی۔ تیواری نے افسوس کے اظہار کے ساتھ کہا کہ 70 سال قبل ہم نے برطانوی سامراج سے آزادی حاصل کرلی لیکن آج تک زندگی کے ہر محاذ پر مسلسل جنگ لڑ رہے ہیں۔ انہوں نے آخر میں کہا کہ ہم ملک میں چاہے کتنی سیاسی پارٹیوں اور گروپس میں بنے ہوں لیکن ملک سے باہر ہم ایک صرف ہندوستانی ہیں۔ لہذا میں ایک سیاسی قائد ہونے کے باوجود یہاں سیاسی موضوعات زیر بحث لانا مناسب نہیں سمجھتا۔ صدر جلسہ ڈاکٹر محمد سلیم نے اپنے مختصر خطاب میں کہاکہ علم ، عمل کے بغیر نامکمل ہے ۔ جامعہ علیگڑھ اپنے طلباء کو اسی کا درس دینا ہے ۔ اس بزرگوار نے علیگڑھ میں اپنے دور کے کچھ دلچسپ واقعات بھی بیان کئے۔
اس موقع پرڈاکٹر حفظ الرحمن اعظمی ، سکریٹری سفارت خانہ ہند کو ان کی ملی اور سماجی خدمات کے اعتراف میں مہمان خصوصی کے ہاتھوں ایک مومنٹو پیش کیا گیا ۔ اس کے علاوہ صدر اموبا سہیل احمد  نے مہمان خصوصی منیش تیواری کو بھی ایک یادگاری تحفہ پیش کیا ۔ اموبا کی جانب سے ترانہ ٹیم ، ڈائرکٹری ٹیم اور جواں سال مقرر اشون پرساد کو بھی یادگاری تحفے پیش کئے گئے ۔ نظامت کے فرائض ڈاکٹر عبدالرحیم خاں اور ارشد علی خاں نے انجام دیئے ۔ اس پر وقار تقریب اختتام نائب صدر اموبا سلمان خالد کے ہدیہ تشکر پر عمل میں آیا۔