منموہن سنگھ کی بنائی سڑک پر مودی کا سفر

محمد علیم الدین
ایسے وقت میں جبکہ نریندر مودی حکومت اپنی معیاد کا پہلا نصف مکمل کرنے والی ہے اس کی معاشی منطق واضح ہو رہی ہے ۔ ایک طرف حکومت کچھ اہم ادارہ جاتی تشکیل کو یقینی بنانا چاہتی ہے تو وہیں وہ معاشی طاقتوں کو اپنے طور پر کام کرنے کی چھوٹ دے رہی ہے ۔ بڑے معاشی استحکام کا جو تعین ہے وہ افراط زر کو ایک شرح میں رکھنے کیلئے تیار کیا گیا ہے اور اس پہلو کو بھی معاشی منطق کا اصل جز سمجھا جا رہا ہے ۔ ہندوستان کی معیشت میں خانگی عوامل بھی اہمیت کے حامل ہیں ۔ اس شعبہ کو بھی حکومت اپنی مداخلت کے ذریعہ بہتر بنانے پر توجہ دے سکتی ہے ۔ تاہم یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ ہندوستان میں معاشی ترقی کا سفر سست رفتار ہوگیا ہے ۔ کہا یہ جاتا ہے کہ معاشی امور میں حکومت جس قدر کم مداخلت کریگی اور حکمرانی کو جس قدر زیادہ ترجیح دی جائیگی اتنا ہی معیشت کو سدھارا جاسکتا ہے ۔ سوال یہ کہا جاسکتا ہے کہ ایسا کرنے سے معیشت کس طرح بہتر ہوگی ۔ ہم کو ترقی کے سفر کا جائزہ لینے کی ضرورت ہے ۔ مئی 2014 سے ترقی کا سفر تیز ہوا ہے لیکن اس کی رفتار بہت کم ہے ۔ یہ بھی کہا جاسکتا ہے کہ 2013 – 14 میں جس تیزی سے ترقی ممکن ہو رہی تھی اتنی تیزی فی الحال دکھائی نہیں دیتی ۔ حکومت کی ساری توجہ معیشت کو سدھارنے پر مرکوز کرنے کی ضرورت ہے ۔ اندرون ملک کاروبار کا ماحول بہتر بنانے پر توجہ کرنے کی ضرورت ہے ۔ سرمایہ کاری میںاضافہ کیلے اقدامات کئے جانے چاہئیں ۔ ایسے فیصلوں کی ضرورت ہے جس کے نتیجہ میں معیشت کو واقعتا بہتر بنانے کی سمت پیشرفت ہوسکے ۔ ایسے اقدامات کئے جانے چاہئیں جن کے نتیجہ میں روزگار کے مواقع دستیاب ہوں۔ ملک میں خوشحالی کے راستے کھل سکیں اور جہاںترقی کا سفر تیز ہو وہیں ملازمین کے مفادات کا بھی تحفظ ہوسکے ۔ حکومت نے اس سلسلہ میں اپنے طور پر اقدامات کئے ہیں لیکن ایسا لگتا ہے کہ اس نے نیا کچھ خاص نہیں کیا ہے اور وہ ابھی تک انہیں اصلاحات کے عمل کو آگے بڑھانے میں جٹی ہے جو سابق میں منموہن سنگھ کی زیر قیادت حکومت نے شروع کئے تھے ۔ حکومت نے اپنے ابتدائی نصف میں جی ایس ٹی بل کو تو منظور کروالیا ہے لیکن ابھی اس پر عمل آوری کیلئے کچھ وقت درکار ہے اور اس سمت میں بھی حکومت کو خاصی محنت کرنے کی ضرورت ہے ۔

جس طرح بی جے پی یا خود نریندر مودی نے الزام عائد کیا تھا کہ منموہن سنگھ کے دور حکومت میں پالیسی سازی کا عمل مفلوج ہوکر رہ گیا تھا اسی طرح اب این ڈی اے دور میں اور نریندر مودی کی قیادت میں بھی فیصلہ سازی اتنی تیزی سے نہیں ہو رہی ہے جتنی امید کی جا رہی تھی ۔ اصلاحات کا عمل جو منموہن سنگھ کے دور میں چل رہا تھا اسی رفتار سے چل رہا ہے اور اس میں کوئی جدت یا شدت کچھ بھی پیدا نہیں ہوسکی ہے ۔ بلکہ اعداد و شمار سے واضح ہوجاتا ہے کہ یہ عمل قدرے سست بھی ہوگیا ہے ۔ نریندر مودی حکومت کے ابتدائی نصف کی تکمیل کے بعد واضح ہونے لگا ہے کہ حکومت اپنے وعدوں میں تو بہت آگے ہے لیکن حقیقت میں ان وعدوں کی تکمیل نہیں ہو پار ہی ہے اور اس معاملہ میں حکومت کی کارکردگی توقعات سے کافی کم ہے ۔ حکومت نے جو بڑے منصوبوں کا اعلان کیا تھا ان میں میک ان انڈیا ‘ ڈیجیٹل انڈیا ‘ اسمارٹ سٹیز وغیرہ بھی شامل ہیں۔ ان فیصلوں پر عمل آوری سست رفتار ہے ۔ ان کو پالیسی اقدامات کی ضرورت ہے ۔ جب تک کمپنیوں کو اسپیکٹرم دستیاب نہیں ہوگا اور انفرا اسٹرکچر فراہم نہیں کیا جائیگا اس وقت تک ڈیجیٹل انڈیا کی مہم کس طرح پیشرفت کر پائیگی ؟ ۔ اسی طرح اگر میک ان انڈیا کے منصوبہ کو کامیاب بنانا ہے تو حکومت کو اس کیلئے بھی کافی کوشش کرنے کی ضرورت ہے ۔ اسے برقی فراہمی ‘ حصول اراضیات ‘ ٹیکس انتظامیہ اور منظوریوں کو عمل کو سہل اور آسان بنانے کی ضرورت ہے ۔ اس میں نہ صرف مرکزی حکومت کو کوشش کرنے کی ضرورت ہے بلکہ ریاستی حکومتوں کا بھی اسے تعاون درکار ہوگا اور یہی ہمارے تعاون پر مبنی وفاقی ڈھانچے کا تقاضہ بھی ہے ۔

حکومت افراط زر کی شرح پر قابو پانے اقدامات کر رہی ہے اور اس کو کچھ حد تک کامیابی بھی حاصل ہوئی ہے لیکن معیشت کا منظر نامہ ابھی اس حد تک تبدیل نہیں ہوا ہے جتنا اسے ہونا چاہئے تھا ۔ شائد یہی وجہ ہے کہ ترقی کا سفر بھی اس رفتار پر نہیںآسکا ہے جتنی توقع کی جا رہی تھی ۔ اس کی وجہ یہی ہے کہ حکومت دعوے ضرور کر رہی ہے لیکن اس پر عمل کے معاملہ میں اب بھی اتنی آسانیاں نہیں ہوسکی ہیں جتنی ہونی چاہئے تھیں۔ مودی حکومت نے کاروبار کو سہل بنانے کیلئے اقدامات کرنے کا اعلان کیا ہے اور اس کیلئے کوشش بھی ہو رہی ہے لیکن اس کے نتائج ابھی سامنے آنے شروع نہیں ہوئے ہیں یا پھر اس کیلئے مزید وقت اور حکومت کی پالیسی میں مزید استحکام کی ضرورت ہے ۔ کاروبار میں رکاوٹوں کو کم سے کم کرنے کیلئے اقدامات کی ضرورت ہے ۔ صنعتیں جو مراعات اور سہولیات چاہتی ہیں وہ بھی انہیں فراہم کرنے کیلئے حکومت کو مزید تیزی دکھانے کی ضرورت ہے ۔ ملک میں روزگار کے مواقع فراہم کرنے پر بھی توجہ کرنے کی ضرورت ہے ۔ خانگی شعبہ کی معاشی سرگرمیوں میں حکومت اپنا رول کم سے کم کرتے ہوئے انہیں پوری آزادی دینا چاہتی ہے اور ملک کی معیشت کو تیزی سے ترقی دلانے کیلئے حکومت کو اپنے طور پر اقدامات بھی کرنے کی ضرورت ہے ۔ اس معاملہ میں ایک طرح کا توازن ضروری ہے اور اس پر ابھی تک مودی حکومت پوری طرح کامیاب نہیں ہوسکی ہے ۔

حکومت کو جہاں اندرون ملک معاشی سرگرمیوں میں تیزی پیدا کرنے کی اور کاروبار کو سہل بنانے کے اقدامات کی ضرورت ہے وہیں اس کو بیرونی عوامل اور عناصر پر بھی توجہ کرنی ہوگی ۔ مختلف ممالک میں اور عالمی سطح پر ایک اجمالی تاثر یہ ہے کہ معاشی سرگرمیاں انحطاط کا شکار ہیں۔ کئی ممالک اس صورتحال سے پریشان ہیں اور خاص طور پر چین میں معاشی سست روی سے اور دنیا بھر کی مارکٹوں کے حالات کا بھی ہندوستان کی معیشت پر اثر ہوسکتا ہے اور اس صورتحال سے نمٹنے کیلئے بھی فوری اقدامات کی ضرورت ہے ۔ جہاں یہ صورتحال ہندوستان کیلئے فکر کا باعث ہے وہیں اگر فوری اقدامات کئے جائیں اور اختراعی کوششیں کی جائیں تو اس صورتحال کو ہندوستان اپنے لئے ایک موقع میں تبدیل کرسکتا ہے تاکہ دوسرے ممالک سے زیادہ اور تیز رفتار سے ترقی کی جاسکے ۔