ممتاز نعت گو شاعر مولانا مفتی حافظ محمد وجیہہ اللہ سبحانی وجیہہؔ : فن اور شخصیت

قاضی فاروقؔ عارفی
سرزمین ہند میں حیدرآباد دکن کو بھی اعزاز حاصل ہے کہ اس سرزمین پر اولیائے کرام، علمائے دین، مشائخ عظام، مفتیان کرام، ادبا و شعراء، بالخصوص نعت گوشعراء پیدا ہوئے ہیں۔حیدرآباد کی سرزمین پر نعت گوئی کا پرچم بلند کرنے والوں میں جن شعرائے کرام نے اہم مقام حاصل کیا، ان میں قابل ذکر شیخ الاسلام حضرت علامہ حافظ محمد انوار اللہ فاروقی فضیلت جنگ علیہ الرحمہ بانی جامعہ نظامیہ، حضرت معلی ، حضرت صفی اورنگ آبادی، حضرت امجد حیدرآبادی، حضرت اوج یعقوبی، حضرت قدر عریضی، حضرت بندے صاحب ، مولانا کامل شطاری، حضرت مفتی شائق، حضرت شاہ کریم اللہ عاشق، مفسر قرآں مولانا معز الدین قادری ملتانی، حضرت خواجہ شوق، حضرت روحی قادری وغیرہ شامل ہیں۔

حیدرآباد کے ایک جواں سال ممتاز عالم دین جو بیک وقت مفتی بھی ہیں، حافظ قرآن بھی ہیں اور ساتھ ساتھ ایک نعت گو شاعر بھی ہیں۔ اس قافلہ میں شامل ہوئے ہیں اور خود کو نعت گوئی کے لیے وقف کرچکے ہیں۔ میری مراد مولانا مفتی حافظ محمد وجیہہ اللہ سبحانی وجیہہؔ نقشبندی قادری سے ہے۔ /6 مارچ 1976ء ایک علمی گھرانے میں پیدا ہوئے۔ آپ کی پرورش مکمل دینی طرز پر ہوئی۔ والد بزرگوار مفسردکن حضرت علامہ شاہ قاضی محمد عطاء اللہ نقشبندی قادری مجددی رحمۃ اللہ علیہ جامعہ نظامیہ کے باوقار قابل فخر سپوت تھے اور علمی شہرت یافتہ ادارہ تحقیق دائرۃ المعارف (عثمانیہ یونیورسٹی) میں مصحح کی حیثیت سے ایک طویل عرصہ تک آپ کی خدمات رہیں۔ اور کٹل گوڑہ چادر گھاٹ حیدرآباد میں بھی قضاء ت کی خدمات ایک طویل عرصہ تک بحسن خوبی انجام دئیے۔ میرے والد بزرگوار حضرت انجم عارفی قبلہ رحمۃ اللہ علیہ سے بھی قضاء ت کے حوالہ سے گہرے مراسم تھے۔ یہ دونوں حضرات ایک دوسرے کو بڑی قدر کی نگاہ سے دیکھتے اور قضاء ت کے امور میں بہت ہی سنجیدگی و اخلاص کے ساتھ تبادلہ خیال و مشاورت فرماتے۔ اپنے والد محترم کی زیرسرپرستی مولانا مفتی وجیہہ اللہ کی تعلیمی و ادبی نشو و نما ہوئی انہی کے زیرسرپرستی منعقد ہونے والے علمی ادبی اجلاسوں میں ادبی و شعری صلاحیتوں کو پروان چڑھنے کا خوب موقع ملا۔ آپ کے نانا محترم شہر حیدرآباد ہی کے ممتاز عالم دین رئیس المفسرین عمدۃ العلماء حضرت علامہ مولانا مفتی محمد رحیم الدین نور اللہ مرقدہ شیخ الجامعہ النظامیہ تلمیذ خاص شیخ الاسلام حضرت العلام عارف باللہ الحافظ محمد انوار اللہ فاروقی فضیلت جنگ خان بہادر نور اللہ مرقدہ تھے۔

مولانا وجیہہ اللہ کی ابتدائی تعلیم شاہ گنج کے ایک سرکاری اسکول میں ہوئی، ابھی آپ پنجم ہی میں تھے کہ 1986ء میں شیخ الحفاظ حضرت علامہ ڈاکٹر حافظ شیخ احمد محی الدین شرفی صاحب قبلہ مدظلہ کے مدرسہ دار العلوم النعمانیہ میں بغرض حفظ قرآن داخل کروایا۔ بحمد اللہ مولانا مفتی وجیہہ اللہ نے 1989ء میں حفظ قرآن کی تکمیل کی۔ تب سے تاحال آپ ہر سال نماز تراویح میں قرآن پاک سنانے کی سعادت حاصل کررہے ہیں۔ مدرسہ نعمانیہ میں سہ سالہ کورس ایک سال کی مدت میں کروایا جاتا ہے، مولانا نے اس میں داخلہ لیا ، ایک سال کی تکمیل کے بعد امتحان کامیاب کرنے پر جامعہ نظامیہ میں مولوی اول میں 1990-91ء میں داخلہ ہوا۔ درجہ بدرجہ کامیابی حاصل کرتے ہوئے کامل الفقہ میں مولانا امتیازی کامیابی سے ہمکنار ہوئے۔ بدرجہ امتیازی کامیاب ہونے پر جامعہ نظامیہ کی جانب سے طلائی تمغہ (گولڈ میڈل) موسوم بہ محدث دکن ابوالحسنات عطا کیا گیا۔ جامعہ میں تعلیمی سلسلہ جاری ہی تھا کہ ایس ایس سی کا امتحان بدرجہ اول کامیاب کیا۔ اس کے بعد اردو آرٹس ایوننگ کالج سے انٹر وڈگری وغیرہ کی تکمیل ہوئی۔آپ کے پیر و مرشد پیر طریقت حضرت مولانا سید شاہ دستگیر علی قادری صاحب قبلہ دامت برکاتہم نے مولانا مفتی وجیہہ اللہ کے دادا پیر حضرت سید شاہ قدرت اللہ قادری علیہ الرحمہ کے عرس کے موقع پر خلعت و خلافت سے سرفراز فرمایا۔  شاعری کا ذوق ان کو اپنی مادر علمی جامعہ نظامیہ ہی سے ملا۔ طالب علمی کے دور سے ہی شعرو سخن کی طرف ان کا میلان رہا، مشاعرے، علمی مذاکرے، توسیعی لکچرس میں باضابطہ شریک ہوتے تھے۔ استاذان شعر و سخن اور صاحبان علم وقلم کی تحریروں کا مطالعہ کیا کرتے تھے۔ خود ان کے گھر میں علمی ادبی ماحول ہوتا ۔ آپ کا ایک مجموعہ کلام موسوم بہ ’’عطائے قدرت‘‘ 2014ء میں منظر پر آچکا ہے اور خوب مقبولیت حاصل کرچکا ہے۔ ’’عطائے قدرت‘‘ میں موجود کلام کا اکثر و بیشتر حصہ طرحی مشاعروں کی زینت بن چکا ہے۔
غالباً 1997 ء کی بات ہے حیدرآباد کے ایک نعتیہ مشاعرہ میں اچانک ایک مترنم شاعر بارگاہ رسالت میں نذرانہ عقیدت پیش کررہا تھا، جب میری نظر اس شخصیت پر پڑی تو وہ کوئی اور نہیںبلکہ وہ مولانا سبحانی وجیہہ نقشبندی قادری کی تھی۔ اس کے بعد مولانا مفتی وجیہہ اللہ حضرت خواجہ شوق کے تلامذہ میں جب شامل ہوئے تو شاعری کے حوالے سے مولانا  سے ہمارے روابط اور مضبوط ہوئے۔ حضرت خواجہ شوق علیہؒ کے تلامذہ میں حضرت جلال عارف، اظہر قادری مرحوم، ڈاکٹر طیب پاشاہ قادری، اطہر شرفی، کے علاوہ مولانا مفتی حافظ محمد وجیہہ اللہ سبحانی وجیہہ نقشبندی قادری کو ایک خاص مقام حاصل تھا۔ حضرت علی احمد جلیلی کے بعد راقم نے بھی حضرت خواجہ شوق علیہ الرحمہ کے آگے زانوئے ادب تہہ کیا۔ مولانا مفتی وجیہہ اللہ کمپیوٹر کتابت کے فن سے بھی بہت اچھی طرح واقف ہیں۔ آپ نے حضرت خواجہ شوق علیہ الرحمہ کے نعتیہ مجموعے صل علیٰ کے دوسرے ایڈیشن اور سلموا تسلیما  کی کمپیوٹر کتابت و سرورق بھی بہت ہی ہی خوبصورتی و سلیقے کی۔

مولانا کی شاعری سے متعلق شہر حیدرآباد فرخندہ بنیاد کے اجلہ علمائے کرام ، مشائخ عظام ، ادباء و دانشوران ملت کے احساسات ذیل میں قلمبند کئے جارہے ہیں، جس سے مولانا کی علمی و فکری اور شاعرانہ صلاحیتوں کا بخوبی اندازہ کیا جاسکتا ہے۔ مولانا مفتی وجیہہ اللہ کے پیر و مرشد فرماتے ہیں : ’’مولانا حافظ محمد وجیہہ اللہ سبحانی وجیہہؔ نقشبندی قادری شہر حیدرآباد کے ایک پاکباز گھرانے سے تعلق رکھتے ہیں، ان کے نانا حضرت مولانا مفتی محمد رحیم الدین صاحب علیہ الرحمہ سابق شیخ الجامعہ النظامیہ شہر کے جید اور عظیم المرتبت عالم دین رہے ہیں۔خود ان کے والد بزرگوار حضرت مولانا قاضی محمد عطاء اللہ نقشبندی قادری علیہ الرحمہ سابق مصحح دائرہ المعارف العثمانیہ وقت کے عظیم مفسر کہلاتے تھے، جن کے حلقہ تفسیر میں اہل علم اور شائقین تفسیر کی کثیر تعداد شریک رہتی۔ موصوف میرے حلقہ ارادت میں شامل ہیں ،میں نے انہیں خرقہ خلافت سے بھی سرفراز کیا ہے۔ اسی علمی و روحانی سرفرزایوں نے انہیں نعت گوئی کی طرف مائل کیا۔ آج وہ شہر میں ایک باکمال نعت گو شاعر بن کر ابھرے ہیں، ان کی نعتیں اور منقبتیں ان کی دلی محبتوں کی آئینہ دار ہیں‘‘۔

مفتی محمد عظیم الدین صدر مفتی جامعہ نظامیہ مولانا وجیہہ ؔکے بارے میں یوں فرماتے ہیں:     ’’عطائے قدرت‘‘ کے شاعر، محترم پھوپی زاد برادر کے فرزند خورد، عزیز القدر مولوی حافظ و قاری محمد وجیہہ اللہ سبحانی زاد عمرہ‘ دکن کے ایک علمی گھرا نہ کے چشم و چراغ، دانش گاہ نظامیہ کے تعلیم یافتہ، خانقاہ کے تربیت یافتہ، فیض نسبت کے حامل، خوش خصال ، خوش گلو و خوش کلام شاعر ہیں۔ دبستان نظامی کے نمائندہ شعراء کی فہرست میں ان کو شمار کیا جاسکتا ہے‘‘۔ مفتی خلیل احمد شیخ الجامعہ ،نظامیہ فرماتے ہیں :’’مولوی حافظ محمد وجیہہ اللہ سبحانی سلمہ ایک دینی گھرانے سے تعلق رکھتے ہیں۔ جامعہ نظامیہ کے فارغ التحصیل ہیں۔ ان کی تعلیم و تربیت علمی اور دینی ماحول میں ہوئی ہے۔ عشق نبوی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم آباء و اجداد سے ورثہ میں ملا ہے۔ اسی جذبہ نے انہیں نعت گوئی کی طرف راغب کیا۔ الحمدللہ اچھا کلام کہتے ہیں۔ اپنے کلام کا ایک مجموعہ ’’عطائے قدرت‘‘ کے نام سے مرتب کرکے شائع کررہے ہیں۔ میں نے ان کے کلام کو سنا بھی ہے اور پڑھا بھی ہے۔ کلام میں موزونیت، سلاست پائی جاتی ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ عشق کا اظہار بھی ملتا ہے‘‘۔ عمدۃ المحدثین حضرت علامہ محمد خواجہ شریف شیخ الحدیث جامعہ نظامیہ اسطرح فرماتے ہیں :’’عزیزم مولوی حافظ محمد وجیہہ اللہ سبحانی جامعہ نظامیہ کے ہونہار اور لائق فارغ التحصیل ہیں۔ انہوں نے یہاں سے فراغت کے بعد مختلف علمی و تدریسی مصروفیتوں کے ساتھ باوصف فن شاعری اور خصوصاً نعت گوئی میں طبع آزمائی کی اور بارگاہ نبوی میں نذرانہ عقیدت و محبت پیش کرنے کے لیے شاعری کو وسیلہ بنایا۔ آج ان کا نعتیہ اور منقبتی مجموعہ ’’عطائے قدرت‘‘ زیور طباعت سے آراستہ ہوکر آپ کے ہاتھوں میں ہے۔ الحمد للہ وہ اپنی کوششوں میں کامیاب ہیں‘‘۔ شیخ الحفاظ حضرت علامہ ڈاکٹر حافظ شیخ احمد محی الدین شرفی بانی و مہتمم دار العلوم النعمانیہ مولانا مفتی وجیہہ کے متعلق رقمطراز ہیں : ’’عزیز القدر مولانا حافظ و قاری محمد وجیہہ اللہ سبحانی وجیہہؔ نعمانی مولوی کامل جامعہ نظامیہ موصوف حافظ قرآن بھی ہی اور قاری کلام رحمن بھی، مقرر بھی ہیں اور خطیب بھی، عالم بھی ہیں اور حمد و ثنائے الٰہی و تعریف و توصیف مصطفائی میں رطب اللسان شعراء میں ایک اُبھرتے ہوئے باصلاحیت نوجوان و مترنم شاعر بھی ہیں۔ عہد شباب کے آغاز ہی سے ان کے مزاج میں نعت گوئی رچ بس گئی اور رفتہ رفتہ ان کی اس شعر گوئی بہ سمت نعت و منقبت نے انھیں ایک صاحب مجموعہ کلام بنادیا۔ ان کی خوش آوازی سے تلاوت قرآن اور ترنم سے نعت گوئی و نعت خوانی ماحول میں نورانی کیفیت کو دوبالا کردیتی ہے اور سامعین حد درجہ محظوظ ہوتے ہیں‘‘۔

آپ کے ماموں محترم حضرت مولانا محمد رضی الدین معظم فرماتے ہیں : ’’یہ اظہر من الشمس ہے کہ مولانا حافظ محمد وجیہہ اللہ سبحانی صاحب حفظہ اللہ نے نہ صرف دینی علوم سے بہرہ ور ہوکر شریعت مطہرہ کو پروان چڑھایا بلکہ خوش الحانی سے نعت گوئی کو بھی اپنا مشغلہ بناکر خاص و عام میں بے پناہ داد تحسین سے مجمع عام کو دم بخود کردیتے ہیں۔ اللہ ذوالجلال والاکرام ان کی دینی صلاحیتوں و نعت گوئی کے مقدس شغف کو قبول فرماکرحرفاً حرفاً اجر عظیم سے ممتاز کرے آمین ثم آمین‘‘۔
حضرت علامہ قاضی سید شاہ اعظم علی صوفی القادری یوں رقمطراز ہیں: وجیہہؔ صاحب ایک خوش گو اور خوش گلو شاعر ہوتے ہوئے دیگر شعراء میں اپنی ایک انفرادی وجاہت رکھتے ہیں۔ نعت و منقبت لکھنے میں وہ زیادہ تر اپنی توانائیاں صرف کرتے ہیں۔ مشاعروں میں اپنے دلگداز ترنم کے ذریعہ وہ اپنا کلام سناکر اکثر داد تحسین حاصل کرتے ہیں کیونکہ ان کے اشعار نہ صرف سامعین کے ذہن پر اپنے نقوش چھوڑتے ہیں بلکہ ان کے حافظہ میں بھی اپنی جگہ بنا لیتے ہیں۔ شاعر موصوف کا ایک علمی گھرانے سے تعلق ہے جہاں دینی ماحول میں پروان چڑھنے کا انھیں موقع ملا۔ کامل جامعہ نظامیہ ہونے کے علاوہ عثمانیہ یونیورسٹی کے وہ پوسٹ گریجویٹ ہیں۔ قدرت نے انھیں علمی و ادبی صلاحیتوں سے نوازا ہے۔ جملہ نعوت و مناقب صنف غزل میں کہے گئے ہیں۔ قرآن و حدیث کی تلمیحات کے علاوہ خوبصورت تشبیہات نے اشعار کی معنویت میںاضافہ کردیا ہے۔ مثلاً اس تشبیہ میں ندرت و نزاکت صاف جھلکتی ہے   ؎

کسی بچے کے آنسو ماں کا آنچل پونچھ دے گویا
شہِ طیبہ کی رحمت یوں گناہوں کو مٹاتی ہے
ڈاکٹر عقیل ہاشمی فرماتے ہیں: ’’حافظ وجیہہ اللہ وجیہہؔ نقشبندی کی علمی استعداد میں کوئی کلام نہیں انہوں نے اپنی اسی صلاحیتوں کی روشنی میں شاعری خصوصاً نعتیہ شاعری کی جانب توجہ کی،اس سلسلے میں انہوں نے عاشق رسول قلندر صفت استاد وقت حضرت خواجہ شوقؒ سے تلمذ اختیار کیا جن کی بجا رہنمائی اور اصلاح سے بہت جلد حیدرآباد کے ابھرتے ہوئے نعت گو شعراء میں شمار کئے جانے لگے ہیں۔ حضرت علامہ شاہ محمد فصیح الدین نظامی مہتمم کتب خانہ جامعہ نظامیہ لکھتے ہیں: ’’مولانا حافظ محمد وجیہہ اللہ سبحانی وجیہہؔ نے اسلامی ادبی تاریخ کے نقوش کو اپنے نگاہ و قلب میں جگہ دیتے ہوئے اس سے جو مثبت اور ایجابی تاثر لیا ہے وہ ان کے شعری سفر کا اہم سنگ میل ثابت ہوا اور انہوں نے حضرت کعب بن رواحہؓ حضرت حسان بن ثابتؓ اور دیگر ہمدمان رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی پیروی میں دوسری اصناف سخن کے ساتھ حسیں صنف میں اپنی جولانی طبع کا نہایت ادب و احترام اور سلیقہ و قرینہ سے اظہار کیا ہے وہ نعت رسالت مآب صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم ہے۔ دیگر اصناف سخن کی طرح صنف نعت نے بھی دنیا کی زبانوں کے عالمی ورثہ کو نئی تب و تاب اور تازگی و شادابی بخشی، مضامین نو کے انبار لگے، حد و ادب کے دائرے اور واجب و ممکن کے تعینات کے ساتھ عشق و محبت کے روشن روشن چراغ جگمگانے لگے۔ شیخ الاسلام بحر القمقام حضرۃ العلام الشاہ محمدانوار اللہ الفاروقی رحمۃ اللہ علیہ بانی جامعہ نظامیہ کے ۶۲ بند پر مشتمل نعتیہ مسدس کے مطابق
رفعِ ذکرِ پاک ثابت ہے کلام اللہ سے
مطمئن ہوتے ہیں دل ذکرِ شہِ لولاہ سے
وحشت آدم گئی نامِ حبیبِ پاک سے
مردہ زندہ ہوگئے تاثیرِ نامِ پاک سے
مولانا حافظ محمد وجیہہ اللہ سبحانی وجیہہؔ نے اغلباً اسی تاثیر و تاثر کی کیفیات و برکات سے اپنے دامن حیات و ممات کو مالا مال کرنے عمداً و قصداً نعت گوئی کو اپنایا۔ انہیں ان کے کامل اساتذہ نے بھی اس نکتہ سے آگاہی بخشی تھی کہ نعت سہ حرفی لفظ ہے، ن۔ع۔ت : ن سے مراد نبی، ع سے مراد عصمت، ت کا مطلب تعریف، اگر اس کو ذرا سی تقدیم و تاخیر کے ساتھ جوڑ دیا جائے تو یہ قرینۂ محبت ظاہر ہوگا کہ ’’عصمتِ نبی کی تعریف‘‘ ایک امتی کے لیے اس سے بڑھ کر اور کیا خوش نصیبی ہوگی کے اس کے حصہ میں مدح ِنبی کا شعور، لکھنا پڑھنا، سننا، سنانا اور اس کو عام کرناآئے اس کو ’’عطائے قدرت‘‘ کے سوا اور کیا عنوان دیا جاسکتا ہے‘‘۔
حضرت جلال عارف لکھتے ہیں: ’’عطائے قدرت ‘‘ مولانا حافظ محمد وجیہہ اللہ سبحانی وجیہہؔ نقشبندی قادری کا پہلا مجموعہ نعت ومنقبت ہے، جس کے مشمولات سے ہی شاعر کی صلاحیتوں کا بخوبی اندازہ ہوجاتا ہے۔ عنوانِ مجموعہ سے عطائے قدرت و فیضانِ نبوت کا اشارہ ملتا ہے۔
ہر ایک نعت مرصع ہے عشق رسول صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم  میں ڈوبے ہوئے اشعار دل کی دُنیا کو مست وسرشار بنادیتے ہیں۔خاص طور پر ہرنعت کا مقطع عجب رنگ دکھاتا ہے۔چند مثالیں پیش ہیں۔
مہکیں گے کیوں نہ جسم وجگر جان و دل وجیہہؔ
یادوں میں جب کہ مہکا پسینہ نبی کا ہے
ہم سے اے وجیہہؔان کی مدح ہو بیاں کیسے
آپ کا قصیدہ گو جب کہ حق تعالیٰ ہے
وجیہہؔ اللہ ہمیں تاریکیوں کا خوف کیا ہوگا
کہ نور پائے آقا جب دلوں کے غار تک پہنچے
یہ فیضِ شاہِ مدینہ نہیں تو کیا ہے وجیہہؔ
ہوا کبھی نہ کہیں کم جو مرتبہ اپنا
اس کم عمری میں اُن کی نعتیہ ومنقبتی شاعری قابل تحسین ہی نہیں بلکہ مبالغہ سے دور حضرت حسانؓ کے قول کی تصدیق کرتی ہوئی نظر آتی ہے۔اس مجموعہ کو دیکھتے ہوئے یہ بھی کہا جاسکتا ہے کہ یہ سفر یہیں پر ختم نہیں ہوگا اُمید ہے کہ آئندہ کئی مجموعے منظر عام پر آئیں گے ۔