ملک کی تاریخی مکہ مسجد

عبدالغفارعمری کرنولی
مکہ مسجد شہر حیدرآباد کی تاریخی عمارتوں میں سے ایک ہے اور عالمی سطح پر شہرت یافتہ مساجد میں سے ایک مسجد ہے اور اس مسجد کی تعمیر ی بنیاد رکھے 400 برس کا عرصہ ہوا ہے یعنی ڈسمبر 1617 میں اس مسجد کا سنگ بنیاد سلطان محمد قطب شاہ نے رکھا تھا۔ تین قطب شاہی حکمرانوں کے دور میں بھی مکمل نہ ہونے والی تعمیر کیلئے کم و بیش 77 برس کا عرصہ لگا اور اس مسجد کی تعمیر میں محبوب نگر، رنگاریڈی، نلگنڈہ علاقوں کے مزدوروں نے بھی حصہ لیا تھا اور اس مسجد کی تعمیر کیلئے شاد نگر علاقہ کے ایک ہی پہاڑ سے پتھر حاصل کئے گئے اور اس مسجد کا نام ’’بیت العتیق‘‘ رکھنا چاہتے تھے مگر اس کی تعمیر میں مکہ مکرمہ کے پتھر بھی شامل کرنے کی وجہ سے بعد ازاں اسے ’’ مکہ مسجد ‘‘ کے نام سے موسوم کیا گیا۔ آخر کار اس مسجد کی تکمیل مغل شہنشاہ اورنگ زیب کے زمانے میں ہوئی۔1591 میں محمد قلی قطب شاہ نے چارمینار کی تعمیر کرکے شہر حیدرآباد کی بنیاد رکھی اور چارمینار کے قریب 1597ء میں جامع مسجد تعمیر کی گئی جو
شہر حیدرآباد کی سب سے پہلی مسجد ہونے کا اعزاز رکھتی ہے اور بتدریج آبادی میں اضافہ کی وجہ سے یہ مسجد ناکافی ہونے لگی اور اس بات کی اطلاع محمد قلی قطب شاہ کو ہونے پر انہوں نے ایک اور مسجد کی تعمیر سے متعلق ڈسمبر 1610 میں حکم جاری کیا۔ مگر مسجد کی تعمیر سے متعلق رپورٹ پیش کرنے سے پہلے ہی وہ 1612 میں انتقال کرگئے۔ بعد ازاں محمد قلی قطب شاہ کے داماد سلطان محمد قطب شاہ نے سلطنت کی باگ ڈور سنبھالی اور انہوں نے آبادی کو مدنظر رکھتے ہوئے ایک بہت بڑی مسجد تعمیر کرنے کیلئے میر فضل اللہ بیگ ، رنگیا چودھری اور خود پر مشتمل سہ رکنی کمیٹی تشکیل دی اور سلطان محمد قطب شاہ نے ڈسمبر 1617 کو مسجد کا سنگ بنیاد رکھا۔ ملک کی تمام تاریخی عمارتوں کی تعمیر میں کم و بیش مٹی کا استعمال کیا گیا ہے مگر مکہ مسجد کی تعمیر میں مٹی کا بالکل استعمال نہیں کیا گیا اور شہر کے مضافات میں موجود تمام پہاڑوں کا جائزہ لینے کے بعد شاد نگر علاقہ میں موجود پہاڑ کے پتھر حاصل کرنے کا فیصلہ کیا گیا اور اس فیصلہ کے مطابق مسجد کی مکمل تعمیر ہونے تک ایک ہی پہاڑ سے پتھر حاصل کئے گئے کیونکہ اس پہاڑ کے پتھر کا رنگ سرخی مائل تھا، یہی وجہ ہے کہ ساری مسجد کے پتھروں کا رنگ یکساں ہے اور اس مسجد کی تعمیر سلطان محمد قطب شاہ کے در میں مکمل نہیں ہو پائی اور 1626 ء میں ان کے فرزند عبداللہ قطب شاہ نے چھوٹی عمر میں سلطنت کی گدی سنبھالی اور ان کے زمانے میں مغل حکمرانوں کے حملوں کا آغاز ہوا اور مؤرخین کے مطابق حملوں کے باوجود مسجد کے تعمیری کام جاری رہے یہاں تک کہ عبداللہ قطب شاہ کے انتقال کے بعد 1672 ء میں ابوالحسن تانا شاہ کے دور حکومت میں تعمیری کام بہت ہی کم ہوا۔ آخر کار1689ء میں قطب شاہوں کی سلطنت مغل حکمرانوںکے قبضہ میں چلی گئی۔ ملک میں سب سے بڑے مینار والی مسجد کے اعتبار سے تعمیر کرنے کا ابتداء میں فیصلہ کیا گیا تھا مگر میناروں کی تعمیر نہیں کی گئی اور 1694 ء میں اورنگ زیب نے بقیہ تعمیراتی کاموں کی تکمیل کراتے ہوئے نماز کی اجازت دے دی۔ اس طرح مکہ مسجد کی تعمیر کیلئے 77برس کا طویل عرصہ لگا۔ تین قطب شاہی حکمرانوں کے دور میں بھی اس مبارک مقام کی تعمیر مکمل نہیں ہوپائی۔
مکہ مسجد عالمی تاریخی عمارتوں میں سے ایک ہے۔ تاج محل کی تعمیر کیلئے 30سالہ عرصہ لگا تو مکہ مسجد کی تعمیر کیلئے 77 برس کا عرصہ لگا۔ مسجد کی اونچائی 170قدم تو نماز کیلئے 67 میٹر طویل اور 54 میٹر چوڑائی کی وسعت فرام کی گئی ہے اور تقریباً 3000 افراد ایک ساتھ با جماعت نماز ادا کرسکتے ہیں اور مسجد کے صحن میں تقریباً 10ہزار افراد ایک ساتھ نماز ادا کرسکتے ہیں۔ اس مسجد کے ایک حصہ میں آصف جاہی حکومت کے پہلے حکمراں میر قمر الدین خان کی تدفین عمل میں لائی گئی اور اس رواج کو برقرار رکھتے ہوئے آصف جاہی سلطنت کے چھٹویں حکمراں میر محبوب علی خاںکی بھی تدفین یہیں عمل میں لائی گئی۔ مسجد کی تعمیر کیلئے پہاڑوں کو کاٹ کر بڑے بڑے پتھر ہاتھیوں کی مدد سے اور چھوٹے پتھر بیل گاڑیوں کی مدد سے منتقل کئے گئے اور ملکی و غیر ملکی فنکاروں کو لایا گیا۔