ملک میں بڑھتے ہوئے سنگین جنسی جرائم حل کیا ہے… ؟

مولانا سید احمد ومیض ندوی
گذشتہ دنوںجموں میں آٹھ سالہ معصوم بچی کی عصمت ریزی کا جو دردناک واقعہ پیش آیا، اس کی گونج سارے ملک میں سنائی دے رہی ہے ، ملک بھر میں اس واردات کو انجام دینے والے درندوں کے خلاف اور ان کو کیفر کردار تک پہنچانے کے لیے زبردست احتجاج ہورہا ہے ، ہر سطح پر اس کی مذمت کی جارہی ہے ، حتی کہ ملک کے صدر جمہوریہ نے بھی اس پر اپنے گہرے رنج کا اظہار کیا ہے ، ایسا محسوس ہوتا ہے کہ ہندوستان آئے دن ’’ریپ استان ‘‘میں تبدیل ہوتا جارہا ہے اسی طرح اناؤ کے اندر بھی عصمت ریزی کا ایک دردناک واقعہ پیش آیا، ان واقعات نے ڈسمبر 2012ء میں پیش آئے نربھیا عصمت ریزی کے واقعہ کی یاد تازہ کردی ، جس میں کچھ انسان نما درندوں نے چلتی بس میں ایک طالبہ کے ساتھ منہ کالا کیا تھااور آخر کار وہ اس دنیا سے چل بسی ، حالیہ آصفہ کا واقعہ اس سے بدترین واقع ہے ، جس نے سارے ملک کو جھنجھوڑ کر رکھ دیا ہے ، اب سارے ملک میں یہ مسئلہ موضوع بحث بن گیا کہ عصمت ریزی اور عورتوں کے ساتھ جنسی تشدد کے واقعات پر کیسے روک لگائی جائے اس کے لئے کیسے قوانین بنائے جائیں کس قسم کی تدابیر اختیار کی جائیں۔ ملک کی مختلف سیاسی جماعتوں اور مختلف شعبوں سے تعلق رکھنے والی شخصیات کی جانب سے مختلف تجاویز سامنے آئیں ۔ بعض شخصیات نے ایسے درندوں کو پھانسی پر لٹکانے کا مطالبہ کیا کسی نے کہا کہ انہیں ہمیشہ کے لئے نا مرد بنادیا جائے کسی نے عمر قید سزا کی تجویز پیش کی۔ ہندوستان میں جنسی تشدد کوئی نئی بات نہیں ۔ ملک میں ایسے واقعات آئے دن پیش آتے رہتے ہیں۔ ہمارا ملک اس معاملہ میں پوری دنیا میں تیسرے نمبر ہے۔ خواتین کے ساتھ جنسی تشددمیں سب سے پہلا نمبر امریکہ کا ہے۔ دوسرے نمبر پر جنوبی آفریقہ اور تیسرے نمبر پر وطن عزیز ہے۔ یہاں کوئی گھنٹہ ایسا نہیں گذرتا جس میں سے کسی نہ کسی خاتون کی عزت نہ لوٹی جاتی ۔ قومی کرائم بیورو کے اعداد و شمار سے پتہ چلتا ہے کہ ہر سال عصمت ریزی کے واقعات میں اضافہ ہی ہوتا جارہا ہے۔ جہاں تک پسماندہ اور دلت خواتین و طالبات کی عصمت ریزی کی بات ہے تو آزادی کے بعد سے تا حال ایک کروڑ دلت خواتین کی چادرِ عصمت کو تار تار کردیاگیا ہے۔ ڈسمبر 2012ء میں پیش آئے نربھیا واقعہ کے خلاف ایک حیرت انگیز بات نوٹ کی گئی وہ یہ کہ بعض انتہائی کٹر فرقہ پرست تنظیموں سے تعلق رکھنے والے اکثریتی فرقہ کے مذہبی قائدین نے حکومت سے مطالبہ کیا تھا کہ وہ ملک سے عصمت ریزی جیسے واقعات پر کنٹرول پانے کے لئے سعودی عرب جیسے اسلامی قوانین نافذ کرے۔ زنا کے مرتکب مجرموں کو اگر وہ شادی شدہ ہوں سنگسار کرکے قتل کیا جائے اور غیر شادی شدہ ہونے کی صورت میں انہیں سو (100) کوڑے لگائے جائیں ۔ حتیٰ کہ اس قسم کے مطالبات سے ایوان پارلیمنٹ تک گونج اٹھا۔ یہ گویا اس بات کا اعتراف ہے کہ جنسی جرائم کے سد باب کے لئے اسلامی نظام کو اپنائے بغیر چارہ کار نہیں جو لوگ اسلامی سزائوں کو انتہائی وحشیانہ قرار دیا کرتے تھے آج وہ خود ان سزائوں کے نفاذ کا مطالبہ کرتے نظر آرہے ہیں۔ جہاں تک عصمت ریزی کے سدباب کے لئے اسلامی طریقہ کار کی بات ہے تو وہ صرف سنگساری میں محدود نہیں ہے بلکہ اسلام ذہن سازی اور پاکیزہ معاشرہ کی تشکیل کے لئے عفت و پاکدامنی کا مکمل نظام رکھتا ہے ۔

کسی بھی انسانی معاشرہ کے لئے عفت و پاکدامنی کلیدی حیثیت رکھتی ہے۔ جان و مال کے تحفظ کی طرح انسان کی عزت و آبرو کا بھی تحفظ ضروری ہے۔ عفت کے معنی ہر اس چیز سے اپنے آپ کو بچانے کے ہیں جو حلال نہیں یا جو انسان کو زیب نہیں دیتی۔ لوگوں سے سوال کرنے سے بچنے کو بھی عفت اور استعفاف کہتے ہیں۔ پاکدامن اور عفت مآب خاتون کو امرأۃ عفیفہ کہا جاتا ہے۔ جو مرد نفقہ کی صلاحیت نہیں رکھتے انہیں پاکدامنی اور عفت کی تاکید کرتے ہوئے فرمایا گیا : ’’ ولیستعفف الذین لا یجدون نکاحاً حتی یغنیھم اللہ من فضلہ ( النور ۔ ۳۳) جو لوگ نکاح کے لئے استطاعت نہیں رکھتے وہ پاک دامن رہیں تا آنکہ اللہ تعالیٰ اپنے فضل سے انہیں غنی نہ فرمادے۔ ‘‘ عفت و پاکدامنی کے لئے کوشش اللہ تعالیٰ کو اس قدر پسند ہے کہ اللہ تعالیٰ ایسے افراد کو ضرور غنی فرماتا ہے۔ ایک حدیث میں ایسے تین لوگوں کا ذکر کیاگیا ہے جن کی مدد اللہ نے اپنے ذمہ لے لی ہے جن میں سے ایک وہ شخص ہے جو پاکدامن رہنے کے لئے نکاح کا خواہشمند ہے۔

عفت و پاکدامنی کے اسباب وذرائع پر روشنی ڈالنے سے پہلے مناسب معلوم ہوتا ہے کہ پاکدامنی سے حاصل ہونے والے معاشرتی فوائد کی نشاندہی کی جائے۔ اس کا سب سے بڑا فائدہ یہ ہے کہ اس معاشرہ کافحاشی اور عریانیت اور ہر قسم کی بے حیائی سے محفوظ رہتا ہے۔ پاکدامن نہ صرف بدکاری اور بے حیائی سے دور رہتا ہے بلکہ زنا و بدکاری کے مقدمات سے بھی محفوظ رہتا ہے۔ نا محرم پر نظر ڈالنا باہم گفتگو اور اس کے ساتھ خلوت اختیار کرنا وغیرہ چیزوں سے بھی باحیاء انسان گریز کرتا ہے۔ اور یہ مزاج آدمی کو زندگی میں قلبی سکون عطا کرتا ہے۔ ایسے لوگ کامیاب اور خوشگوار ازدواجی زندگی گزارتے ہیں اسی طرح عفت و پاکدامنی انسان کو فحاشی و عریانیت کے تباہ کن نقصانات سے محفوظ رکھتی ہے۔ ایسے لوگوں پر خدا کا عذاب نازل نہیںہوتا وہ دنیا میں بدنامی اور آخرت کی رسوائی سے محفوظ رہتے ہیں ۔ نیز فحاشی و بے حیائی آدمی کو مہلک امراض میں مبتلا کردیتی ہے جس سے پاکباز افراد عافیت میں رہتے ہیں ۔ علاوہ ازیں جب معاشرہ کے سارے اقدار پاکدامن ہوں گے تو انہیں پاکیزہ رشتہ میسر آئے گا ۔ عبادات میں یکسوئی اور حلاوت نصیب ہوگی۔ معاشرہ میں تقویٰ و پرہیزگاری کی عمومی فضا قائم ہوگی ۔ نیز عفت و پاکدامنی سے آدمی میں قوت ارادی پیدا ہوگی اور قوت ارادی تقویٰ میں بہت معاون ثابت ہوتی ہے۔ اس سے آدمی فضائل سے آراستہ اور رزائل سے پاک ہوجاتا ہے۔ عفت و پاکدامنی کا اخروی فائدہ یہ ہے کہ ایسے شخص کو قیامت کے دن عرش کا سایہ نصیب ہوگا ۔ چنانچہ حدیث میں جن سات افراد کے لئے روز قیامت عرش کا سایہ نصیب ہوگا ان میں ایک وہ شخص بھی ہوگا جسے حسب و نسب اور صاحبِ حسن و جمال عورت نے اپنی طرف بلایا ہو مگر اس نے یہ کہہ کر انکار کردیا ہو کہ میں اللہ سے ڈرتا ہوں ( متفق علیہ) علاوہ ازیں پاکباز لوگوں کو آخرت میں دہرے ثواب سے نوازا جائے گا چونکہ فسق و فجور اور بے حیائی کے چلن میں پاکدامن رہنا بڑے مجاہدہ کا کام ہے۔ حدیث میں ارشاد ہے فتنہ و فساد کے زمانہ میں عبادت کرنا میری طرف ہجرت کرنے کے برابر ہے۔ اسی طرح عفت و پاکدامن آدمی کے ایمان میں مضبوطی کا ذریعہ ممکن ہے۔ ارشاد ربانی ہے ’’ یقینا جو لوگ خدا ترس ہیں جب ان کو کوئی خطرہ شیطان کی طرف سے آجاتا ہے تو وہ یاد میں لگ جاتے ہیں سو یکایک ان کی آنکھیں کھل جاتی ہیں ( آل عمران ۔ ۲۰۱) گویا فتنہ اور برائی کے ماحول میں وہی شخص اس سے بچ سکتا ہے جس کا ایمان مضبوط ہو۔ عفت و پاک دامنی دنیا میں شرافت اور آخرت میں آگ سے نجات کا ذریعہ ہے۔ پاکباز انسان کو ہر شخص احترام کی نگاہ سے دیکھتا ہے، جبکہ ایسا شخص شدید مجاہدہ نفس کی بنا پر اللہ کا مقرب بن جاتا ہے اور اللہ تعالیٰ اس پر جہنم کی آگ کو حرام کردیتے ہیں ۔ احادیث شریفہ کی رو سے پاکبازی ان اعمال میں سے ہے جن کا وسیلہ لے کر اللہ تعالیٰ سے دعا مانگی جاسکتی ہے۔ اور اس وسیلہ کی اللہ ضرور لاج رکھتے ہیں۔ بخاری شریف میں ان تین افراد کا واقعہ مذکور ہے جو غار میں پھنس گئے تھے ، ایک بڑی چٹان ڈال کر غار کو بند کردیاگیا ۔ اپنے اپنے نیک اعمال کے وسیلہ سے دعا مانگنے والوں میں ایک وہ شخص بھی تھا جس نے ایک عورت کی دعوت زنا کو محض اس لئے ٹھکرایا کہ اللہ اسے دیکھ رہا ہے۔ باعفت اور پاکدامن خواتین اپنے شوہروں کے لئے مثالی بیوی ثابت ہوتی ہیں جبکہ شادی سے قبل غیروں سے تعلق رکھنے والی خواتین کے لئے یہ ممکن نہیں ۔ایسی خواتین کبھی شوہر کی فرمانبردار نہیں بن سکتی۔ نیز باعفت مرد چونکہ اپنی قوت مردی کی حفاظت کرتے ہیں اس لئے شادی کے بعد وہ ایک کامیاب شوہر ثابت ہوتے ہیں۔ بے حیا اور جنس زدہ شہوت کے پجاری شادی سے قبل ہی سب کچھ ضائع کردیتے ہیں۔ پاک دامن نوجوان جوانی میں کسی بری لت میں مبتلا نہیں ہوتا۔ عفت و پاکدامنی دراصل آدمی کے صابر ہونے کی دلیل ہے چونکہ شہوات کے وقت آدمی کو سب سے زیادہ اپنے نفس کو کنٹرول کرنے کی ضرورت ہوتی ہے جسے علماء صبر عن المعصیہسے تعبیر کرتے ہیں اور گناہوں سے بچنے میں صبر کو بڑا دخل ہے۔ عفت کا فوری بدلہ یہ ہے کہ اس سے اپنے خاندان اور اہل خانہ کی حفاظت ہوتی ہے۔ جو لوگ دوسروں کی عزت پامال کرتے ہیں اللہ تعالیٰ ان کی خواتین کی عصمتوں پر دوسروں کو مسلط کردیتے ہیں۔

معاشرہ کو پاک دامن و پاکباز رکھنے کے لئے اسلام انسان کو مختلف تربیتی مراحل سے گذارتا ہے۔ جب تک اسلام کے اس مکمل تربیتی نظام کو نہ اپنایا جائے گا فحاشی عریانیت اور بدکاری جیسے واقعات سے تحفظ ممکن نہیں۔ انسداد فواحش کے لئے اسلام تین طرح کی تربیت کو ضروری قرار دیتا ہے۔
(۱) روحانی تربیت (۲) اخلاقی تربیت (۳) فکری تربیت
عفت و پاکدامنی پیدا کرنے کے لئے دوسری درکار تربیت اخلاقی تربیت ہے۔ اخلاقی تربیت کا مطلب یہ ہے کہ بچپن ہی سے بچوں میں اچھی صفات پیدا کی جائیں اور برے عادات سے نفرت جاگز ین کی جائے۔ اسلام میں اخلاق حسنہ اور صفا ت حمیدہ کی بڑی اہمیت ہے۔ کمال ایمان کا انحصار کمال اخلاق پر ہے۔ جو انسان جس قدر اخلاق کریمہ اور عادات فاصلہ اپنے اندر پیدا کرے گا اس کے لئے اتنا ہی عفت کا تقاضہ پر باقی رہنا آسان ہوگا ۔ صفات و اخلاق میں صبر کو سب سے زیادہ اہمیت حاصل ہے۔ صبر پر جس کی تربیت ہوگی وہ ہر قسم کے شہوات سے محفوظ رہے گا ۔ اسی طرح اخلاق ہی حیاء کو بھی بنیادی حیثیت حاصل ہے۔ جو باحیا ہوگا وہ باعفت ہوگا جو حیاء سے محروم ہوگا وہ فحاشی عریانیت اور آوارگی کا دلدادہ ہوگا ۔ حیاء آدمی کو فحاشی اور گھنائونی حرکتوں سے روکتی ہے۔ اس کے بر خلاف ہے حیاء جو چاہتا ہے کرگذرتا ہے بے حیاء باش و ہر چہ خواہی کی والی بات مشہور ہے اخلاقی تربیت میں یہ بھی داخل ہے کہ آدمی میں ہر برے عمل کے انجام کا خوف پیدا کیا جائے۔ آج کا انسان اخروی انجام سے بے خوف ہوچکا۔ اسے احساس نہیں کہ اس کے ہر اچھے یا برے عمل کا بدلہ اسے مل کر رہے گا۔ مکارم اخلاق میں بلند ہمتی بھی بڑی اہمیت رکھتی ہے۔ بلند ہمت انسان ہمیشہ گھٹیا چیزوں سے خود کو دور رکھتا ہے۔ جس کے مقاصد اونچے ہوں گے وہ حقیر خواہش نفسانی کے پیچھے نہیں دوڑے گا۔

جہاں تک اس سلسلہ کی فکری تربیت کی بات ہے عالم عرب کے معروف داعی فتحی مکی لکھتے ہیں کہ اسلام میں فکری تربیت کا مقصد لوگوں کے دل و دماغ اسلامی احکام و اقدار کو بہکا دینا تاکہ ان کے پورے معاملات انہی اساس پر ہوں۔ اسلام ان کے نزدیک اصل کسوٹی بن جائے جس کے ذریعہ وہ اپنے ہر معاملہ کو پر کھ سکیں ( زاد الاخیار ۳؍۱۰۰) عفت و پاکدامنی کے حوالہ سے فکری تربیت میں اسلامی نظام عفت سے متعلق شرعی احکام کی جانکاری اسلامی معاشرتی اخلاق سے واقفیت نیز اخلاقی کجروں اور بگاڑ کے اسباب و عوامل اور عفت و پاکدامنی پیدا کرنے والے عوامل سے گہری واقفیت شامل ہے۔
فحاشی اور بدکاری سے تحفظ کے لئے اسلام نے انسداد فواحش کا جو نظام پیش کیا ہے اس کی بنیاد یہ ہے کہ اسلام جنسی خواہش کو ایک فطری تقاضہ کے طورپر تسلیم کرتا ہے۔ اس لئے کہ اسلام دین فطرت ہے۔ اسلام عورتوں سے کنارہ کشی یا بے نکاحی کو پسندیدگی کی نظر سے نہیں دیکھتا البتہ اس فطری تقاضہ کی تکمیل کے لئے حدود و قیود متعین کرتا ہے۔ فحاشی و بدکاری سے بچائو کے لئے اسلام کی اولین تدبیر یہ کہ جب لڑکا یا لڑکی جوانی کی عمر کو پہنچ جاتیں تو نکاح میں عجلت کریں ۔ نوجوانوں کو نکاح کی ترغیب دیتے ہوئے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا یامعشرالشباب من استطاع منکم الباء ۃ فلیتزوج ومن لم یستطع فعلیہ بالصن ( مشکوٰۃ شریف) ائے جوانو تم میں سے جو کوئی نکاح کی استطاعت رکھے اسے چاہئے کہ وہ نکاح کرے۔ اور جو اس کی استطاعت نہ رکھے اسے مستقل روزوں کو لازم پکڑنا چاہئے معاشرہ سے جنسی جرائم کے سد باب کے لئے اسلام نے نکاح کو انتہائی آسان بنادیا ہے۔ ایجاب و قبول کے دو بول جب گواہوں کی موجودگی میں انجام پاتے ہیں تو نکاح پائے تکمیل کو پہنچ جاتا ہے۔ موجودہ مغرب زدہ ماحول میں لوگ جلد نکاح کرنے کو معیوب سمجھتے ہیں اور خود کو فحاشی سے محفوظ بھی نہیں رکھتے ۔ موجودہ فحاشی اور عصمت ریزی واقعات کا ایک اہم سبب نکاح میں تاخیر ہے۔

فواحش کے سدباب کے لئے دوسری انسدادی تدبیر نگاہوں کی حفاظت ہے۔ جسے قرآن و حدیث میں غض بصر سے تعبیر کیاگیا ہے۔ چنانچہ ارشادِ ربانی ہے : ’’ قل للمؤمنین یغضوا من ابصارھم ویحفظوا فروجھم ذلک ازکی لھم واللہ علیم بما یصنعون ( النور ) ائے نبی صلی اللہ علیہ وسلم مومن مردوں سے فرمادیجئے کہ وہ اپنی نگاہیں نیچی رکھیں اور اپنی شرم گاہوں کی حفاظت کریں یہ ان کے لئے زیادہ پاکیزگی کا باعث ہے اور اللہ تعالیٰ وہ جو کچھ کرتے ہیں اس سے واقف ہے۔ ‘‘ دوسری جگہ ارشاد ہے : ’’ وقرن فی بیوتکن و لاتبرجن تبرج الجاھلیۃ الأولی و اقمن الصلوٰۃ و آتین الزکوٰۃ واطعن اللہ ورسولہ انما یر یداللہ لیذھب عنکم الرجس اھل البیت و یطھرکم تطھیراً ( الأ حزاب ) ۔ بیشتر فواحش اور جنسی جرائم کی ابتداء بد نگاہی سے ہوتی ہے۔ مرد کو چاہئے کہ وہ اجنبی عورتوں پر نگاہ نہ ڈالے۔ اس کے لئے جب بھی باہر نکلے نگاہیں نیچی رکھے۔ اجنبی عورتیں چاہے بازاروں میں چل رہی ہوں یا ٹی وی اور فلم اسکرینوں پر تھرک رہی ہوں یا دیواروں پر نیم برہنہ پوسٹروں کی شکل میں آویزاں ہوں ہر جگہ اپنی نگاہ کی حفاظت ضروری ہے۔ شیطان نگاہ کے راستہ سے آدمی کو بدکاری پر ابھارتا ہے۔ اسی لئے بدنگاہی کو شیطان کے تیروں میں سے ایک تیر قرار دیا گیا ہے۔ اس کے لئے جموں میں پیش آئے آصفہ عصمت ریزی واقعہ پر ساری سیاسی جماعتیں خوب خوب شور و غوغا مچا رہی ہے لیکن یہی جب بر سرِ اقتدار ہوتی ہیںتو ملک میں فحاشی اور عریانیت کو کھلی چھوٹ دیتی ہیں۔ حکومتیں اگر واقعی سنجیدہ ہیں تو انہیں پہلی فرصت میں فلموں اور ٹی وی کے فحش پروگراموں پر امتناع عائد کرناہوگا ۔ شہروں کا کونسا مقام ہے جہاں شرم و حیاء کو ملیامیٹ کرنے والے گندے پوسٹر چسپاں نہ ہو۔ ٹی وی اور فلم اسکرینوں پر گھنٹوں بوس و کنار اور عریانیت کا نظارہ کرنے والے نوجوان کیونکر اپنے جذبابت پر کنٹرول کرسکیں گے ۔ آخر ہمارے حکمران سب کچھ جانتے ہوئے فحاشی کے ان خطرناک وسائل کو کیوں بے لگام رکھے ہوئے ہیں۔ انٹرنیٹ پر فحش سائٹ کیا کچھ قیامت برپا کررہے ہیں اس سے ہر شخص باخبر ہے ۔ موبائیل تو فحاشی کا آلہ بن چکا ہے۔
تیسری تدبیر خواتین کا ستر پوش کپڑوں اور شدید ضرورت پر گھر سے باہر نکلنے کی صورت میں مکمل پردہ کا اہتمام کرنا ہے۔ چنانچہ قرآن مجید میں ارشاد ہے :ارشاد خداوندی ہے ’’ وقرن فی بیوتکن و لاتبرجن تبرج الجاھلیۃ الأولی ( الأ حزاب ) اور اپنے گھروں میں قرار پکڑی رہو اور جاہلیت اولی کی طرح بن سنور کر بے پردہ باہر نہ نکلو ۔

مذکورہ بالا دونوں آیتوں میں نہایت اختصار اور جامعیت کے ساتھ اسلام کے نظام عفت و پاکدامنی پر روشنی ڈالی گئی ہے۔ان آیتوں میں مسلم خواتین کو پردہ کا پابند کیا گیا ہے ، قرآن مجید میں ایک سے زائد مقامات پر پردہ کی تاکید آئی ہے ، خواتین کو پردہ کا پابند بنائے بغیر زنا اور بدکاری کے واقعات کا سد باب ممکن نہیں، دورِ حاضر میں بیشتر دوشیزائیں تنگ و چست لباس پہن کر ہوس رکھنے والے جوانوں کو دعوتِ گناہ دیتی ہیں، 2012ء میں جس طالبہ کے ساتھ زیادتی کی گئی وہ بھی ، وہ رات 8 بجے اپنے بوائے فرینڈ کے ساتھ جینس پینٹ اور انتہائی چست لباس زیب تن کی ہوئی تھی ۔ ملک کی کئی دانشور خواتین نے واقعہ کے لئے خود متاثرہ لڑکی کو بھی برابر کی ذمہ دار قرار دیا۔
اس طرح فواحش کے سدِ باب کیلئے اسلام مرد و خواتین کے اختلاط پر روک لگاتا ہے ، عورتوں کو حکم ہے کہ وہ گھروں میں رہیںاور بلا ضرورت گھر سے نہ نکلے اگر نکلنا ناگزیر ہو تو غیر مردوں سے اختلاط سے اجتناب کریں، عوامی مقامات تعلیم گاہوں،آفسوں اور بازاروں میں ہر جگہ مرد و عورت کے اختلاط سے گریز ضروری ہے ، حدیث شریف کے مطابق جہاں دو اجنبی مرد و عورت تنہائی میں اکٹھا ہوں وہاں تیسرا شیطان آجاتا ہے ، اسلام کے ان پاکیزہ قوانین پر عمل کیا جائے تو اس قسم کے بد بختانہ واقعات کا تدارک ممکن ہے، حفاظتی تدابیر کے ساتھ اسلام زنا پر سخت ترین سزا تجویز کرتا ہے ، اسلامی سزاؤں کو ظالمانہ قرار دینے والے اس پہلو پر غور نہیں کرتے کہ سزاؤں کی نرمی کے پیشِ نظر جنسی درندوں کی ہمتیں کس قدر بلند ہوتی جارہی ہیں، ہمارا سست رفتار عدالتی نظام بھی اس قسم کے واقعات کے باربار رونما ہونے کا ذمہ دار ہے ، بالعموم ریپ کے مجرموں کو جلد سزا نہیں مل پاتی جس سے انہیں حوصلہ ملتا ہے ، اسلام میں غیر شادی شدہ زانی کے لیے کوڑے لگانے کی سزا اور شادی شدہ کی صورت میں سنگسار کرکے موت کی گھاٹ اتارنے کی سزا نہ صرف معقول ہے ؛بلکہ اس قسم کے واقعات کے سد باب میں نہایت مؤثر ہے ۔