ملازم سرکار بیوی اور طلاق

سوال : لڑکی شادی کے بعد تقریباً دو سال چھ ماہ سے خورد و نوش ، رہائش و تمام تر ضروریات زندگی خود کرلیتے ہوئے ، ساس ، سسر اور شوہر کیلئے معاون و مددگار رہتی ہے۔ لڑکا ہر قسم کی ذمہ داری سے برے ہے۔ معلوم ہوا کہ صرف پیسوں کیلئے اس کے ماں باپ شادی کروائے ہیں۔ لڑکا لڑکی کو پسند نہیں کرتا ۔ ایک سال سے بات چیت بالکل بند ہے ، حتی کہ فون پر بھی نہیں۔

ایسی صورت میں کیا نکاح بالکل قرار پاتا ہے یا نہیں؟ لڑکا اور لڑکے کے ماں باپ جوڑے کی رقم ، جہیز ، زیورات واپس دینا پڑتاہے اس لئے طلاق دینے سے گریز کر رہے ہیں۔ قانونی چارہ جوئی کے علاوہ کوئی راستہ نطر نہیں آتا۔ تفصیلی جواب سے راہ دکھلائیں تو بہت بہت مہربانی ہوگی۔
نام مخفی

جواب : بوقت عقد دلہن کو ماں باپ کی طرف سے دیا گیا سامان جہیز زیورات و ملبوسات اور دلہے والوں کی طرف سے دیئے گئے چڑھاوا زیورات و ملبوسات نیز تحفہ جات لڑکی کے حق میں ہبہ ہونے کی بناء لڑکی کی ملکیت ہیں۔ اسی طرح لڑکی والوں کی جانب سے لڑکے کو دیئے گئے تحفہ جات و جوڑے کی رقم لڑکے کے حق میں ہبہ ہونے کی بناء لڑکے کی ملکیت ہیں۔ پس رشتہ نکاح برقرار رہے یا ٹوٹ جائے ہر دو صورت میں ہر ایک اپنی مملوکہ اشیاء کا مالک رہے گا ۔ کسی کو واپس طلب کرنے کا حق نہیں۔ واضح رہے کہ جوڑے کی رقم طلب کرنا شرعاً معیوب و مذموم ہے ۔ غیرت اور مروء ت انسانی کے خلاف ہے۔ لڑکی کے ماں باپ کا اپنی خوشی و استطاعت سے لڑکے کو تحفہ دینا شرعاً درست ہے لیکن لڑکی والوں سے جوڑے کی رقم طلب کرنا ان کو زیر بار کرنا خسیس عمل ہے اور خلاف شرف ہے تاہم کسی نے جو ڑ ے کی رقم دیدیا بعد ازاں کسی وجہ سے رشتہ نکاح باقی نہ رہے تو لڑکی والوں کو جوڑے کی رقم کی واپسی ، مطالبہ کا حق نہیں رہتا۔ ردالمحتار جلد 4 کیاب البیوع میں ہے : وھذا یوجد کثیرا بین الزوجین ببعث الیھا متاعا و تبعث لہ ایضا وھو فی الحقیقۃ ھبۃ۔

رشتہ نکاح شوہر کی موت یا طلاق یا خلع یا فسخ نکاح سے منقطع ہوتا ہے ۔ میاں بیوی عرصہ دراز تک علحدہ رہیں حتی کہ دونوں کے درمیان بات چیت بھی منقطع رہے تب بھی رشتہ نکاح منقطع نہیں ہوتا۔ شوہر پر لازم ہے کہ یا تو وہ اپنی زوجہ کو اس کے حقوق واجبات کو ادا کرتے ہوئے اپنے ساتھ رکھے یا اس کو حسن سلوک کے ساتھ طلاق دیدے یا خلع قبول کر کے علحدہ کردے ۔ طلاق کی صورت میں مہر کی ادائیگی شوہر پر لازم رہے گی اور خلع میں معاوضہ طئے نہ ہو تو مہر خود بخود شوہر کے ذمہ سے ساقط ہوجائے گا۔

تفویض طلاق
سوال : سیاست سنڈے ایڈیشن مورخہ 15 ڈسمبر 2013 ء میں طلاق کے تین طریقے بتلائے گئے ہیں۔ مسلم معاشرہ میں طلاق اور خلع کے بارے میں ضروری معلومات پائے جاتے ہیں۔ تفویض طلاق کو مسلمانوں کی اکثریت جانتی ہی نہیں یں۔ موجودہ حالات میں لڑکیوں کی شادی اور پھر نباہ کا مسئلہ بڑا مشکل ہوگیا ہے ۔ فریقین کا ایک دوسرے کو دھوکہ دینا مکروہ فریب سے کام لینا عام ہوگیا۔ کیا ان حالات میں تفویض طلاق یعنی بیوی کو اختیار دے کر مسلم معاشرہ کے مسائل پر قابو پایا جاسکتا ہے ؟ اس پر روشنی ڈالی جائے تو ملت اسلامیہ کی رہنمائی ہوگی ؟
نام مخفی

جواب : تفویض طلاق کے معنی طلاق کا مالک بنانے کے ہیں ۔ المراد بالتفویض تملیک الطلاق (ردالمحتار جلد 3 باب تفویض الطلاق) تفویض طلاق کا مفہوم یہ ہے کہ شوہر طلاق کے حق کا اختیار کسی دوسرے کے سپرد کردے، جس کو حق طلاق کا مالک بنایا گیا ہے اگر وہ استعمال کرلے تو طلاق واقع ہوجاتی ہے۔ شوہر چونکہ طلاق دینے کا اہل ہے، وہ بیوی کو یا بیوی کے والد یا بھائی کو یا کسی فریق ثالث کو طلاق کا حق حوالہ کرسکتا ۔ مثلاً شوہر اپنی بیوی سے کہہ کہ جب تم چاہو ایک طلاق بائن دے سکتی ہو یا عاقد کہے کہ جب میں تم سے شادی کروں گا تو تم کو ایک طلاق بائن یا تین طلاق کا حق رہے گا جب تم چاہو اس کو استعمال کرسکتی ہے یا عاقدہ کہے کہ میں تم سے شادی کرتی ہوں اس شرط پر کہ طلاق بائن کا حق مجھ کو رہے گااور عاقد اسکو قبول کرلے تو بیوی کو ایک طلاق بائن کا حق حاصل ہوجائے گا اور جب بھی وہ اس حق کو استعمال کرے گی اسی وقت اس پر ایک طلاق بائن واقع ہوکر شوہر سے تعلق زوجیت منقطع ہوجائے گا۔

تفویض طلاق میں شوہر کو رجوع کا حق نہیں یعنی حق طلاق کو وہ واپس نہیں لے سکتا۔ درمختار جلد 3 باب تفویض الطلاق ص : 3401 میں ہے : (متی شئت او متی ماشئت أو اذا شئت او اذا ماشئت) ولا یتقید بالمجلس(ولم یصح رجوعہ) لما مر (و طلقی ضرتک أو) قولہ کا جنبی (طلق امراتی یصح رجوعہ) منہ ولم یتقید بالمجلس لانہ توکیل محض ۔ وفی طلقی نصک و ضرتک کان تملیکا فی حقھا توکیل فی حق ضرتھا ۔ جوھرۃ (الا اذا علقہ باالمشیئۃ) فیصیر تملیکا لا تو کیلا و الفرق بینھما فی خمسۃ احکام ففی التملیک لا یرجع ولا یعزل اور ردالمحتار میں (لا یرجع ولا یعزل) کے تحت ہے : لا یلزم من ملک الرجوع عدم ملک العزل لانہ لوقال لا جنبی : أمرا مرأتی بیدک ثم قال عزلتک و جعلتہ بیدھا لا یصح عزلہ مع انہ لم یرجع من التفویض بالکلیۃ فافھم ۔

پس تفویض طلاق ازورئے شرع جائز ہے ۔ ظلم و زیادتی کی صورت میں لڑکی کی خلاصی کیلئے ایک سہولت ہے ۔ لڑکی یا اس کے ماں باپ اپنے طور پر لڑکے والوں سے گفتگو کر کے تفویض طلاق حاصل کرسکتے ہیں ۔ اگر سوال کنندہ کا رجحان یہ ہے کہ تفویض طلاق عام ہو اور قانونی طور پر ہر لڑکی کو اس کا اختیار رہے تو ایسی صورت میں جب عمومی طور پر لڑکا و لڑکی دونوں کے پاس طلاق کا حق رہے گا تو طلاق کے واقعات میں اضافہ و کثرت کے امکانات قوی ہوجائیں گے ۔ بہتر صورت اور سب کے قابل قبول یہ ہوسکتی ہے کہ وقف بورڈ کے تحت ایک خصوصی کمیٹی یا خصوصی پیکیج یا ایک مخصوص ادارہ قائم کیا جائے جو قضاء ت سے متعلق رہے اور تفویض طلاق یا فسخ نکاح کو اس کے ذمہ کیا جائے اور فریقین اس پر راضی ہوں اور دستخط کریں تو اختلاف و نزاع کی صورت میں وہ ادارہ یا کمیٹی بعد تفتیش و تحقیق اس اختیار تفویض یا فسخ کو روبعمل لائے تو بہت بہتر ہوگا ۔ اس میں لڑکے اور اس کے گھر والوں پر دباؤ بھی بنا رہے گا اور کثرت طلاق کے خدشات بھی نہیں رہیں گے اور جب باہمی رضامندی سے عاقد و عاقدہ وقف بورڈ کے تحت قائم ادارہ کو اپنا ثالث بنالیں تو ان کے درمیان اس مسئلہ میں ناخوشگواری بھی نہیں رہے گی اور مظلوم دختران ملت کیلئے آسانی پیدا ہوجائے گی ۔ مخفی مبادکہ انفرادی طورپر تفویض طلاق طلب کرنے کا راستہ سبھی کیلئے کھلا ہے۔

نوٹ : حالیہ دنوں میں حکومت کی جانب سے فسخ نکاح کے سلسلہ میں کچھ پیشرفت ہوئی ہے اور مفتیان کرام اور علماء عظام کا ایک خصوصی اجلاس مشاورت کیلئے طلب کیا گیاتھا اور جامعہ نظامیہ کی جانب سے بھی مظلوم لڑکیوں کی خلاصی کیلئے تجاویز حکومت کے ذمہ داروں کو پیش کی گئی ہیں۔ حکومت کے مسلم ارباب مجاز اس سلسلہ میں سنجیدہ ہوں اور وقف بورڈ کے تحت کوئی کونسلنگ سنٹر اور ایسا ادارہ جس کو تفویض طلاق یا فسخ نکاح کا اختیار حاصل ہو قائم کیا جاتا ہے تو ملت اسلامیہ کیلئے بہترین خدمت ثابت ہوگی۔ ہزاروں مظلوم لڑکیوں کیلئے خلاصی کی صورت نکل آئے گی اور اگر حکومت کے ارباب مجاز کی یہ پیشرفت انتخابات سے قبل مسلمانوں کے حساس مسائل پر اظہار ہمدردی کر کے ان کی ہمدردی حاصل کرنا ہو اور عملی اقدامات مقصود نہ ہوں تو قابل صد افسوس ہے۔ ملت کی بیٹیاں تکلیف میں ہیں اور اس سلسلہ میں توجہ اور کوشش کرنا ہماری ذمہ داری ہے جو بھی اس ضمن میں کوشش کرے گا واقعی وہ اجر عظیم کا حقدار ہوگا اور اللہ تعالیٰ سے عاجزانہ دعاء ہے کہ اس سلسلہ میں حکومت کی جانب سے کوئی حل و صورت نکل آئے تاکہ مسلمان حسب احکام شرع اپنے مسائل کے حل کے اہل ہوں۔

دوسرا شوہر دیکھ لو
سوال : حال ہی میں سنڈے ایڈیشن میں ایک مسئلہ تھا جس کے مطابق بیوی اپنے شوہر سے یہ نہیں کہہ سکتی کہ ’’ میری شادی کرو پھر خود کرنا‘‘ ٹھیک ہے لیکن میں یہ جاننا چاہتی ہوں کہ کیا شوہر کو یہ حق حاصل ہے کہ وہ اپنی بیوی سے بار بار کہے کہ تم کوئی اور ڈھونڈ لو پھر مجھے بتادینا تمہیں چھوڑ دوں گا۔ کیا اپنی منکوحہ بیوی سے اس طرح کہنا اور بار بار اس کو ذہنی طور پر تکلیف دینا اور بار بار یہی کہہ کر بے عزتی کرنا درست ہے ؟
نام مخفی ، ای میل

جواب : میاں بیوی کا رشتہ نہایت پاکیزہ اور اعلیٰ رشتہ ہے ، جس طرح بیوی پر اپنے شہور کی اطاعت و احترام لازم ہے۔ اسی طرح شوہر پر بیوی کی عزت اور اس کے ساتھ حسن سلوک کرنا ضروری ہے ۔ میاں بیوی کے درمیان نوک جھونک ایک طبعی معاملہ ہے لیکن اس کا یہ مطلب نہیں کہ بیوی کو ذہنی تکلیف دی جائے اور اس کو بے عزت کیا جائے۔ پس سوال میں ذکر کردہ شوہر کا کہنا کہ ’’تم کوئی اور ڈھونڈلو پھر مجھے بتا دینا، تمہیں چھوڑ دوں گا‘‘ دراصل جہالت ہے۔ یاد رکھیںیہ اس قسم کے الفاظ نہایت حساس و نازک ہیں اور بعض صورتوں میں تو طلاق واقع ہوجاتی ہے ۔ سوال میں ذکر کردہ صورت میں تو طلاق واقع نہیں ہوئی لیکن اگر شوہر بیوی سے غصہ میں یا چھوڑنے چھوڑنے کے بحث و مباحث کے دوران کہتا ہے کہ دوسرا شوہر ڈھونڈلے تو اس سے ایک طلاق بائن واقع ہوجاتی ہے اور دونوں میں رشتہ نکاح منقطع ہوجاتا ہے ۔

نماز جنازہ کی امامت
سوال : نماز جنازہ کی امامت کا حق ازروئے فقہ حنفی ولی کو حاصل ہے اور ولی ہی مسجد کے مقررہ امام سے زیادہ اہلیت رکھتا ہے ۔ براہ کرم آپ وضاحت فرمائیں کہ نماز جنازہ کی امامت کا حق میت کے ولی کو ہے یا مسجد کے امام کو ؟
صدیقی، ای میل

جواب : اس میں کوئی دورائے نہیں کہ میت کی نماز جنازہ کا حق ازروئے شرع ’’ولی‘‘ مثلاً باپ ، بیٹا ؟ بھائی ، چچا وغیرہ کو ہے ۔ بشرطیکہ ولی ، قابل و اہل ہو اور جب ’’ولی ‘’ امام محلہ سے افضل نہ ہو تو ایسی صورت میں فقہاء نے امام محلہ کی امامت کو مستحسن و مستحب قرار دیا اور ایک حکمت یہ بھی بیان کی کہ میت نے نماز اپنی حیات میں جس امام کے پیچھے ادا کی وہی امام کو نماز جنازہ کی امامت کا حق ہونا چاہئے اور اگر ’’ولی ‘‘ امام سے زیادہ لائق ہو تو ’’ولی‘’ ہی زیادہ حقدار ہوگا ۔در مختار برحاشیہ رد المحتار جلد دوم ص : 338 میں ہے : وتقدیم امام الحی مندوب فقط بشرط ان یکون افضل من الولی ، والا فالولی اول کما فی المحشی۔ اور رد المحتار میں (ثم امام الحی) کے تحت ہے : ای الطائفۃ و ھو امام المسجد الخاص بالمحلۃ و انما کان اولی لان المیت رضی بالصلاۃ خلقہ فی حال حیاتہ فینبغی ان یصلی علیہ بعد و فاتہ … و ھذا اولیٰ لما یاتی ان الاصل ان الحق للولی وانما قدم علیہ الولاۃ و امام الحی کمامر من التعلیل۔

پس صورت مسول عنہا میں بلا شبہ میت کی نماز جنازہ کا استحقاق میت کے ’’ولی‘‘ کو حاصل ہے ۔ بشرطیکہ وہ اہل ہو اور جب امام کہ اس سے علم و فضل میں اونچا ہو تو امام کو آگے بڑھانا مستحب و مندوب ہے۔ مستحب و مندوب ہونے کی وجہ سے ’’ولی‘‘ کا حق ساقط نہیں ہوتا ۔ یعنی ولی امام سے افضل ہو اور ’’ولی ‘‘ کی اجازت کے بغیر نماز جنازہ پڑھائی گئی ہو تو وہ دوبارہ نماز جنازہ پڑھا سکتا ہے۔