ملائشیاء میں یادگار محفلِ سخن جناب زاہد علی خاں کا تاریخی خطاب

محمد ریاض احمد

روز نامہ ’سیاست‘ کا مقصد جہاں فروغ اُردو ہے وہیں مختلف شعبوں میں ملک و قوم کو ترقی کی راہ پر گامزن کرنا ہے اور خاص طور پر مسلمانوں کو تعلیمی و معاشی شعبوں کے ساتھ ساتھ سرکاری ملازمتوں میں آگے بڑھانا ہے۔ ہندوستان میں آج اگر اُردو زندہ ہے تو اس کی اہم وجہ اس عظیم ملک میں اُردو کے چاہنے والوں کی کثیر تعداد ہے، اُردو نے اپنی غزلوں، اپنے نغموں، اپنے ترانوں، رباعیات، کہانیوں، افسانوں، ناولوں، معلوماتی و سبق آموز دل کو چھولینے والی تحریروں و گنگا جمنی تہذیب پر مبنی اپنے ادب کے ذریعہ بلا لحاظ مذہب و ملت رنگ و نسل ہندوستانیوں کا دل جیت لیا ہے۔ یہی نہیں برصغیر ہند و پاک کی سرحدیں عبور کرتے ہوئے اس زبان نے مشرق وسطیٰ سے لیکر مغربی ملکوں، وسطی ایشیائی ممالک اور ملائیشیا، انڈو نیشیاء ، سنگاپور اور جاپان جیسے ملکوں میں بھی اپنی نئی بستیاں قائم کرلی ہیں۔ اس طرح ہماری زبان نے ساری دنیا میں اپنی مٹھاس کے ذریعہ ہر ملک و قوم کے لوگوں کو اپنا گرویدہ بنالیا۔ ان خیالات کا اظہار ایڈیٹر ’’سیاست‘‘ جناب زاہد علی خاں نے کوالا لمپور ملائشیا کی اسٹار پوائنٹ ہوٹل میں منعقدہ محفل سخن سے خطاب میں کیا۔ اس پُراثر محفل کا اہتمام انجمن اُردو ملائشیاء اور علیگڑھ مسلم یونیورسٹی اولڈ بوائز اسوسی ایشن نے کیا تھا۔ محفل سخن میں ممتاز شخصیتوں کی کثیر تعداد نے شرکت کی۔ آپ کو بتادیں کہ مذکورہ دونوں تنظیمیں ملائشیا میں ہندوستانی مسلمانوں کی سرگرم تہذیبی و ثقافتی انجمنیں ہیں، ان انجمنوں نے ماضی میں اُردو ادب، اسلام کے پیام امن اور تحفظ و فروغ اُردو سے متعلق کئی پروگرامس کا کامیابی سے انعقاد عمل میں لایا۔ یاد رہے کہ ایڈیٹر ’’سیاست‘‘ نے 14 تا20فبروری اپنے دورہ ملائشیاء میں اسلامی اسکالرس، مختلف شعبوں سے وابستہ معزز شخصیتوں، طلباء و طالبات اور سفیر ترکی سے مختلف موضوعات پر تبادلہ خیال کیا۔ محفل سخن سے اپنے خطاب میں ایڈیٹر ’سیاست‘ نے روز نامہ ’سیاست‘ کے آغاز، اس کے مقاصد، سیاست کے ذریعہ چلائی جارہی تعلیمی تحریک اور دوسرے تعمیری کاموں کے بارے میں تفصیلات پیش کیں۔ ان کا کہنا تھا کہ ایک دور میں دفتر ’سیاست‘ ایک ٹین شیڈ میں کام کیا کرتا تھا، لیکن آج اخبار ’سیاست‘ کا دنیا کے تقریباً ہر ملک میں مطالعہ کیا جاتا ہے۔ بنگلور ایڈیشن بھی کامیابی سے دوچار ہوا۔ قطر میں بھی’’ سیاست انٹر نیشنل ویکلی ‘‘ اُردو داں حضرات کو دینی و دنیوی علوم، حالات حاضرہ، سائینسی و طبی ایجادات ، متعدد شعبوں میں آئے انقلابات، حوادث زمانہ و تغیرات سے لیکر کھیل کود، تہذیب و ثقافت کے بارے میں آگاہ کرنے میں کوئی کسر باقی نہیں چھوڑا ہے۔ نصف گھنٹے سے زائد اپنے خطاب میں ایڈیٹر ’سیاست‘ نے اُردو سے تعصب و جانبداری کے باوجود چہاردنگ عالم میں محبت و مروت، امن و سکون اور ہرکسی کو اپنا گرویدہ بنالینے والی اس زبان کی مقبولیت کا حضرت داغ دہلوی کے اس شعر :

اُردو ہے جس کا نام ہمیں جانتے ہیں داغ
سارے جہاں میں دھوم ہماری زبان کی ہے
کا حوالہ دیا۔ انہوں نے مزید بتایا کہ مشرق وسطیٰ کے تمام ملکوں میں ہی نہیں بلکہ فرانس، جرمنی ، امریکہ ، غرض اس کرۂ ارض کے تقریباً حصہ میں اُردو بولی ،پڑھی اور سمجھی جاتی ہے۔ مذکورہ ملکوں میں اُردو کے شیدائیوں نے اُردو انجمنیں قائم کرلی ہیں۔ امریکہ میں مقیم اپنی نواسیوں اور نواسوں کے حوالے سے ایڈیٹر ’سیاست‘ کا کہنا تھا کہ اُن بچوں کو علامہ اقبال کے کئی اشعار ، نظمیں ازبر یاد ہیں۔ ویسے بھی ادارہ ’سیاست‘ نے سیاست کی ویب سائٹ پر اُردو سکھانے کا انتظام کررکھا ہے ۔ انہوں نے حاضرین کو بتایا کہ آج ہماری نئی نسل اُردو سے دور ہورہی ہے ، اُردو سے دوری کا مطلب اپنی مذہبی تعلیمات سے دوری ہے کیونکہ مذہبی تعلیمات کا زیادہ تر مواد اُردو میں دستیاب ہے۔ اس کے علاوہ ہم اس حقیقت سے بھی واقف ہیں کہ قوموں کی تباہی و بربادی میں ان کی زبانوں کی تباہی و بربادی کا اہم رول ہوتا ہے۔ ان حقائق کو مدنظر رکھتے ہوئے ’سیاست‘ نے ’’ آؤ اُردو سیکھیں ‘‘ کے زیر عنوان لاکھوں کی تعداد میں سی ڈیز تیار کرواکر ان کی تقسیم عمل میں لائی ، اسی طرح محور القران QURAN HUB کے ذریعہ کم از کم 17 زبانوں میں ترجمہ کے ساتھ قران پڑھنا سکھانے کا آن لائن انتظام کیا ہے۔ اس کے علاوہ اس کی لاکھوں سی ڈیز تیار کرکے ان کی تقسیم عمل میں لائی ہے۔ ایڈیٹر ’سیاست‘ کے ہر ہر لفظ کی شرکاء بڑے غور سے سماعت کررہے تھے۔ انہوں نے شرکاء کو70 سال قبل روزنامہ ’سیاست‘ کے آغاز اور اس کی راہ میں آنے والی رکاوٹوں سے بھی واقف کروایا۔ ان کا کہنا تھا کہ پولیس ایکشن کے بعد مسلمان ہر لحاظ سے کمزور ہوچکے تھے ، ان کی جاگیریں، دولت ، ملازمتیں سب کچھ ختم ہوچکے تھے۔ مسلمانوں میں مایوسی پھیلی ہوئی تھی ، ان حالات میں مسلمانوں میں ایک نیا جوش و جذبہ پیدا کرنا اور انہیں مایوسی کے دَلدل سے باہر نکالنا ضروری ہوگیا تھا۔ کچھ مسلمان پاکستان جارہے تھے ایسے نازک دور میں ’’سیاست‘‘ نے مسلمانوں میں ایک نئی اُمید جگائی اور انھیں بتایا کہ یہ ہمارا وطن ہے، اسی مٹی میں ہمیں دفن ہونا ہے

اور اسی مٹی پر فخریہ اور باوقارانداز میں جینا ہے۔ روز نامہ ’سیاست‘ کے آغاز میں آنے والی رکاوٹوں کے بارے میں انہوں نے بتایا کہ ان کے والد جناب عابد علی خان صاحب مرحوم نے اپنی اہلیہ کے زیور فروخت کردیئے، بہن کے زیور رہن رکھ کر اخبار کا آغاز کیا۔ آج ’ سیاست ‘ ترقی کی بلندیوں پر پہنچ گیا ہے اور اسے ملک میں سب سے پہلے انٹر نیٹ استعمال کرنے والے اور ’ ای پیپر ‘ شروع کرنے والے پہلے اُردو اخبار ہونے کا اعزاز حاصل ہے۔ جناب زاہد علی خاں کے مطابق آج ہندوستان میں سیاست اخبار مظلوموں کی آواز، طلبہ کا مددگار، فرقہ پرستوں کے ہاتھوں ستائے ہوئے مسلمانوں کی طاقت بن گیا ہے۔ ’سیاست ‘ کبھی بھی حکومت موافق نہیں رہا بلکہ جس حکومت نے اچھے کام کئے اخبار نے اس کی ستائش کی لیکن حکومت کی غلطیوں پر اس کے خلاف جی بھر کر لکھا بھی، یہی ’سیاست‘ کی امتیازی خصوصیات ہیں۔ ’’سیاست‘‘ نے ملت کی تعلیمی و معاشی ترقی کا بیڑہ اُٹھایا اور جس کے کامیاب نتائج برآمد ہورہے ہیں۔ تاحال ’سیاست‘ کے ذریعہ لاکھوں مسلم طلباء وطالبات کو ریاستی اور مرکزی حکومتوں کی تعلیمی اسکالر شپس حاصل ہوئیں۔ ’سیاست‘ نے ملت فنڈ قائم کرتے ہوئے بیماروں، معذورین، غریب مسلمان مرد و خواتین، یتیم و یسیر بچوں ، آفات سماوی اور فرقہ وارانہ فسادات کے متاثرین کی مدد میں کوئی کسر باقی نہیں رکھی۔ ’سیاست‘ کے ذریعہ لاوارث مسلم میتوں کی تجہیز و تکفین کے بارے میں ایڈیٹر ’سیاست‘ کا کہنا تھا کہ تاحال اخبار سیاست کے ذریعہ 4000 سے زائد لاوارث مسلم میتوں کی تجہیز و تکفین کا انتظام کیا گیا۔ اس ضمن میں ایک واقعہ کا تذکرہ کرتے ہوئے جناب زاہد علی خاں نے بتایا کہ کچھ سال قبل عثمانیہ جنرل ہاسپٹل کے مردہ خانہ سے چار لاوارث نعشیں لیکر کسی شمشان گھاٹ میں ان کی آخری رسومات انجام دی جارہی تھیں کہ عین اسی وقت وہاں موجود ایک مسلم پولیس کانسٹبل نے انہیں ( زاہد علی خان صاحب ) کو فون پر بتایا کہ ان چار لاوارث نعشوں میں ایک مسلم میت بھی ہے برائے مہربانی اس میت کو نذر آتش ہونے بچالیں جس کے ساتھ ہی انہوں نے پولیس کمشنر سے بات کی جس پر نہ صرف انہوں نے لاوارث مسلم نعش سیاست کے حوالے کی بلکہ یہ بھی تحریر میں حکم دیا کہ لاوارث مسلم نعش سیاست ملت فنڈ کے حوالے کی جائے۔ تب سے سیاست کو لاوارث مسلم میتیں حوالے کی جارہی ہیں۔ انہوں نے اپنے خطاب میں مزید کہا کہ ’سیاست‘ سعودی عرب، مسقط ، دوبئی، بھیجا جانے والا پہلا ہندوستانی اُردو اخبار ہے 1965 کی جنگ کے بعد سے ان ملکوں سیاست بھیجا جانے لگا۔

جناب زاہد علی خاں نے بتایا کہ ’سیاست‘ نے ہمیشہ بڑی بیباکی کے ساتھ قوم کی ترجمانی کی اور فرقہ وارانہ ہم آہنگی کی برقراری میں اہم رول ادا کیا۔ ماضی میں ہندوستان کے حالات کچھ اور تھے آج حالات سنگین ہوگئے ہیں لیکن ’سیاست‘ نے بیباکی کامظاہرہ کرتے ہوئے مودی اور بی جے پی کے خلاف بہت لکھا ۔ جناب زاہد علی خاں نے ملائشیاء میں انجمن اُردو اور علیگڑھ مسلم یونیورسٹی اولڈ بوائز اسوسی ایشن قائم کرنے پر ان تنظیموںکے عہدیداروں کی ستائش کی اور کہا کہ ڈاکٹر پروفیسر محمد ممتاز علی ان کی اہلیہ پروفیسر ڈاکٹر زینت کوثر، جناب طارق اعظم اور پروفیسر ڈاکٹر خالق احمد نے سرزمین ملائیشیاء پر اُردو کی آبیاری کرتے ہوئے ایک بہت بڑاکارنامہ انجام دیا۔
آپ کو بتادیں کہ محفل سخن کی نظامت پروفیسر محمد ممتاز علی نے کی جو ملائشیاء میں مقیم حیدرآباد کے ایک مشہور و معروف اسلامک اسکالر کئی کتابوں کے مصنف ہیں ان کی دو کتابیں کافی مقبول ہوئیں جن پر انہیں ملائشیاء کے قومی ایوارڈس سے نوازا گیا۔ پروفیسر محمد ممتاز علی انٹرنیشنل اسلامک یونیورسٹی ملائشیاء میں پروفیسر ہیں۔ مجلس فروغ اُردو دوحہ قطر کے نائب صدر روئس ممتاز بھی مہمان مقرر کی حیثیت سے موجود تھے۔ جناب وسیم احمد کی قرأت کلام پاک سے محفل کا آغاز ہوا۔ اس کے بعد دو کمسن بچوں شاہان رضوی اور مہوش رضوی نے علامہ اقبال کی نظم ’’ لب پہ آتی ہے دعا بن کے تمنا میری ‘‘ سناکر سمع باندھ دیا۔ ڈاکٹر ممتاز علی نے تعارفی تقریر پیش کی۔ جناب طارق اعظم نے ایڈیٹر ’سیاست‘ کا خیرمقدم کیا۔ پہلے سیشن اور ڈِنر کے بعد مشاعرہ منعقد ہوا جس میں روئس ممتاز نے نظامت کے فرائض انجام دیئے۔ طارق اعظم، اقبال احمد، جمال الدین، اویس ممتاز، نصیب احمد صدیقی، نوید امجد، محمد اقبال، ڈاکٹر زینت کوثر صاحبہ نے اپنا کلام سنایا۔ روئس ممتاز کی نظم ’’ کشمیر ‘‘ کو سامعین نے بہت پسند کیا۔ اس طرح ملائشیاء میں اُردو کی ایک یادگار محفل کا انعقاد عمل میں آیا۔
نوٹ: روئس ممتاز اور دیگر شعراء کے کلام کی آئندہ اتوار کو اشاعت عمل میں آئے گی۔
mriyaz2002@yahoo.com