مقامِ دعوت و عزیمتِ دعوت از مولانا ابوالکلام آزاد

سید نصیرالدین احمد
دعوت کا مقام دوسرا ہے اور عزیمتِ دعوت کا دوسرا ۔ ضروری نہیں کہ ہر رہرو کی یہاں تک رسائی ہو۔ عہدِ ظہورِ دعوت میں ہزاروں اصحابِ علم و کمال موجود ہوتے ہیں مگر دروازے کھولنے والا صرف مجدد العصر ہی ہوتا ہے اور اسکے ظہور کیلئے ضروری نہیں کہ عامۂ اصحاب علم و حق بالکل معدوم ہوگئے ہوں۔ خود ہندوستان ہی کی تاریخ دیکھ لو ۔ ہمیشہ ایسا ہی معاملہ نظر آئے گا ۔ شہنشاہ اکبر کے عہد کے اختتام اور عہدِ جہانگیری کے اوائل میں کیا ہندوستان علماء ومشائخ حق سے بالکل خالی ہوگیا تھا ؟ کیسے کیسے اکابر موجود تھے لیکن مقاصد وقت کی اصلاح و تجدید کا معاملہ کسی سے بھی بن نہ آیا ۔ صرف حضرت مجدد الف ثانی شیخ احمد سرہندیؒ کا وجود گرامی ہی تن تنہا اس کاروبار کا کفیل ہوا ۔ معلوم ہے کہ اس عہد میںبڑے بڑے علماء و اصحاب خانقاہ موجود تھے ۔ ’’بدایونی‘‘ و ’’طبقات‘‘ اور ’’روضتہ العلمائ‘‘ و ’’اخبارالاخیار‘‘ وغیرہ دیکھو تو معلوم ہوتا ہے کہ ہندوستان میں بجز عالموں اور پیروں کے کوئی نہیں بستا۔ کوئی شہر و قریہ نہ تھا کہ خانقاہوں اور مدرسوں سے خالی ہو ۔ یاس ہمہ دوسرے گوشوں اور کاموں میں وقت بسر کر گئے اور اس راہ میں تو ایک قدم بھی نہ اٹھ سکا ۔ شیخ عبدالحق محدثؒ کو تو حضرت مجدد کے بارے میں سخت لعزش بھی ہوئی اگرچہ آخر عمر کے اعتراف و رجوع نے تلافی کردی ۔ اصحاب طریقہ میں حضرت خواجہ باقی باللہ جیسے عارف کامل خود دہلی میں یہ عہد اکبری مقیم رہے لیکن وہ خود کہتے تھے کہ میں چراغ نہیں ہوں چقماق ہوں، آگ نکال دوں گا ۔ چراغِ شیخ احمد سرہندیؒ ہے ۔
کچھ شک نہیں کہ توفیق الٰہی نے حضرت ممدوح کے وجود گرامی ہی کیلئے یہ مرتبہ خاص کردیا تھا ۔ انبیائے اولوالعزم کی نیابت و قائم مقامی یعنی مقام عزیمت دعوت کا خلعت صرف انہی کے جسم پر حسیت آتا۔ باقی جس قدر تھے یا تو مدرسوں میں پڑھاتے رہے یا موٹی موٹی کتابیں اور نئی نئی شرحیں اور حاشیے لکھتے رہے یا پھر ان کی تذلیل و تکفیر کے فتنوں پر دستخط کرتے رہے ۔ وقت کا جو اصلی کام تھا اس کوکوئی ہاتھ نہ لگاسکا۔
پھر بارھویں صدی کا ایک عظیم ترین ظہور علوم و معارف دیکھو۔ زمین بنجر ہوچکی تھی۔ پھر بھی کھیتوں کی سبزی اور چمنوں کی لالی سے کوئی گوشہ بالکل خالی نہ تھا ۔ تیرھویں صدی کے تمام کاروبار علم و طریقت کے اکابر و اساتذہ اسی صدی میں سربر آوردہ ہوئے ۔ بعض بڑے بڑے سلاسل درس و تدریس کی بنیادیں اسی میں استوار ہوئیں جیسے خاندان مشہور فرنگی محل اور ہندوستان سے باہر بلا و عربیہ میں اکثر مشاہیر علم و ارشاد۔ بایں ہمہ معلوم ہے کہ وہ جو دورِ آخر کے فاتح اور سلطانِ صر ہونے کا مقام تھا اور قطبیت وقت کا وہ صرف حجتہ الاسلام شاہ ولی اللہ ؒ کے لئے تھا اور لوگ بھی بیکار نہ رہے ، کام کر تے رہے ، مگر جو کام یہاں انجام پایا وہ صرف یہیں کیلئے تھا ۔
اور پھر چند قدم اور آگے بڑھو۔ مقام عزیمت دعوت کی کسی کامل اور آشکارا مثال سامنے آتی ہے ۔ ساری مثالوں سے آنکھیں بند کرلو۔ صرف یہی ایک مثال زیر بحث حقیقت کے فہم و کشف کیلئے کافی ہے ۔ حضرت شاہ ولی اللہؒ کا مقام ہر رنگ میں کس درجہ جامع و کامل ہے ۔ بایں ہمہ یہاں جو کچھ ہوا تحدید و تدوین علوم و معارف اور تعلیم وتربیت اصحاب استعداد تک محدود رہا ۔ اس سے آگے نہ بڑھ سکا۔ فعلاً عمل و نفاذ اور ظہور و شیوع کا پورا کام تو کسی دوسرے ہی مرد میدان کا منتظر تھا اور معلوم ہے کہ توفیق الٰہی نے یہ معاملہ صرف علامہ و مجدد شہید کیلئے مخصوص کردیا تھا۔ خود شاہ صاحب کا بھی اس میں حصہ نہ تھا ۔ اگر خود شاہ صاحب بھی اس وقت ہوتے تو انہیں کے جھنڈے کے نیچے نظر آتے ۔ حضرت پیر انصاری کا قول یاد رہے ’’ من مرید خرقانی ام لیکن اگر خرقانی درس وقت می بود باوجود پیریش مریدی می کرد‘‘۔
دعوت و اصلاح امت کے جو بھید پرانی دہلی کے کھنڈروں اور کوٹلہ کے حجروں میں دفن کردیئے گئے تھے ، اب اس سلطان وقت و اسکندر عزم کی بدولت شاہجہاں آباد کے بازاروں اور جامع مسجد کی سیڑھیوں پر ان کا ہنگامہ مچ گیا اور ہندوستان کے کناروں سے بھی گزر کر نہیں معلوم کہاں تک چرچے اور افسانے پھیل گئے ۔ جن باتوں کے کہنے کی بڑوں بڑوں کو بند حجروں کے اندر بھی تاب نہ تھی وہ اب برسر عام کی جارہی اور ہورہی تھیں اور خود شہادت کے چھینٹے حرف و حکایات کو نقوش سواد بناکر صفحہ عالم پر ثبت کر رہے تھے ۔
پھر کیا اس وقت ہندوستان علم و عمل سے خالی ہوگیا تھا ؟ یا حق پر چلنے والے اور حق کا درد رکھنے والے معدوم ہوگئے تھے ؟ کون ہے جوا یسا کہہ سکتا ہے ؟ خود اسی خاندان عالی میں کیسے کیسے اکابر و اساتذہ علم و فضل موجود تھے۔ حضرت شاہ عبدالعزیز کے درس و تدریس کی بادشاہت سمر قندو نجارا اور مصر و شام تک پھیلی ہوئی تھی ۔ شاہ عبدالقادر اور شاہ رفیع الدین علم و عمل کے آفتاب تھے ۔ خاندان سے باہر اگر ان کے تربیت یافتوں کو دیکھا جائے تو کوئی گوشہ ایسا نہ تھا جہاں ان کا فیض ان علم کام نہ کر رہا ہو۔ بایں ہمہ یہ کیا معاملہ ہے کہ وہ جو وقت کا ایک سب سے بڑا کام تھا اس کیلئے کسی کے قدم کو جنبش نہ ہوئی۔ سب دوسرے دوسرے کاموں میں رہ گئے یا حجروں کا کام یا مدرسوں کا ، لیکن میدان والا معاملہ کسی سے بھی بن نہ آیا ۔ وہ گویا ایک خاص پہناوا تھا جو صرف ایک ہی جسم کیلئے تھا اور ایک ہی پرچست آیا ۔ دنیا اس کیلئے خلقتِ عظمت اور تشریف قبول کاندھے پر ڈالے منتظر کھڑی تھی ۔ زمانہ ا پنے سارے سامانوںکے ساتھ کب سے اس کی راہ تک رہا تھا ۔ امیدواروں پر امیدوار یکے بعد دیگرے گزرتے رہے مگر اس کا مستحق کوئی نہ نکلا۔
استادی و شاگردی، نو عمری و کہولت ، خانقاہوں کی دھوم دھام اور مدرسوں کا ہنگامہ ، یہ ساری باتیں یہاں کیلئے بیکار ہیں۔ ان سارے عہدوں میں دیکھو۔ بااعتبار علم و عمل ایک سے ایک بڑھ چڑھ کر موجود تھا اور بقدر طاعت دعوت و تذ کر و ارشاد خلق میں مساعی ، تاہم دعوت دوسری چیز ہے اور عزیمت دعوت کا مقام دوسرا ہے ۔ اس کی ہمت کسی میں نہ تھی ۔ گڑھیوں کا محاصرہ کرلینا آسان ہے مگر قلعوں اور ملکوں کی تسخیر کی دھن دوسری ہے ۔ ایک شخص کتنا ہی بڑا امیرالامراء ہو لیکن پھر امیر ہے۔ پادشاہوں کا عزم و محل شاہی میں پلے ہوؤں کا دماغ کہاں لاسکتا ہے ؟
بڑوں بڑوں کا عذر یہ ہوتا ہے کہ وقت ساتھ نہیں دیتا اور سر و سامان و اسباب کار فراہم نہیں لیکن وقت کا عازم و فاتح اٹھتا ہے اور کہتا ہے کہ اگر وقت ساتھ نہیں دیتا تو میں اس کو ساتھ لوں گا ۔ اگر سر و سامان نہیں تو اپنے ہاتھوں سے تیار کرلوں گا ۔ اگر زمین موافق نہیں تو اسمان کو اترنا چاہئے ۔ اگر آدمی نہیں ملتے تو فرشتوں کو ساتھ دینا چاہئے ۔ اگر انسانوں کی زبانیں گونگی ہوگئی ہیں تو پتھروں کو چیخنا چاہئے ۔ اگر ساتھ چلنے والے نہیں تو کیا مضائقہ درختوں کو دوڑنا چاہئے ۔ اگر دشمن بے شمار ہیں تو آسمان کی بجلیوں کی بھی کوئی گنتی نہیں ۔ اگر رکاوٹیں اور مشکلیں بہت ہیں تو پہاڑوں اور طوفانوں کو کیا ہوگیا کہ راہ صاف نہیں کرتے ؟ وہ زمانہ کا مخلوق نہیں ہوتا کہ زمانہ اس سے اپنی چاکری کرائے ۔ وہ وقت کا خالق اور عہد کا پالنے والا ہوتا ہے اور زمانہ کے حکموں پر نہیں چلتا بلکہ زمانہ آتا ہے تاکہ اس کی جنبش لب کا انتظار کرے ۔ وہ دنیا پر اس لئے نظر ڈالتا کہ کیا کیا ہے حس سے دامن بھرلوں! وہ یہ دیکھنے کیلئے آتا ہے کہ کیا کیا نہیں ہے جس کو پورا کردوں ۔ اس کا مایہ خمیر طلب و سوال نہیں۔ اس کی نظر میں طاقت کی بلندی نہیں ناپتیں، ہمیشہ اپنے ہاتھ کی رسائی اور قد کی بلندی دیکھتی رہتی ہیں۔
ستاروں سے تمام فضاء بھری پڑی ہے لیکن دُم دار ستارے ہمیشہ طلوع نہیں ہوتے۔ یہی حال صاحب عزائم کابھی ہے ۔ وہ کائنات بستی کا ایک بالکل الگ گوشہ ہے اور وہاں کے احکام و قوانین کو دنیا کے اعمالِ عاویہ پر قیاس کرنا غلطی ہے ۔ ان کی قوتیں الٰہی ، ان کے وسائل غیر مختتم، ان کی ترقیاں لازوال اور ان کے تمام طریقے غیر مختتم ہوتے ہیں۔ اللہ کی حکمت و ربوبیت ان کو تمام خلق اللہ میں چن لیتی اور حکم واللہ غیص برحمتہ من یشا ، اپنی رحمتوں اور ربوبتیوں کے عجائب و خوارق ان کیلئے مخصوص کردیتی ہے ۔ پھر ان کے معاملات میں نہ تو کسی دوسرے کا ساجھا ہوتا ہے اور نہ کسی مدعی کی وہاں تک رسائی۔
مقام ’’عزیمتِ دعوت‘‘ اور احیا تجدید امت کی نسبت جو کچھ بلا قصدز ان قلم برآگیا تو اگرچہ اس کی تفصیل کا یہ موقع نہ تھا لیکن زیادہ تر یہ خیال باعث ہوا کہ شاید ان حالات و وقائع کا مطالعہ اصحاب صلاح و استعداد کیلئے کچھ سودمند علم و عمل ہو اور کسی کے قلب بصیرت و دیدۂ اعتبار کو ان مجددین ملت اور مصلحین حق کی اتباع و تشبیہ کی توفیق ملے ۔ شاید کوئی مرد کار اور صاحب عزم وقت کی پکار پر لبیک کہے اور زمانہ کی طلب و جستجو کا سراغ بنے ۔ آج اگر کام ہے تو یہی کام ہے اور ڈھونڈنا ہے تو صرف اسی کی۔