مغنی تبسّم

میرا کالم             مجتبیٰ حسین
تفغن برطرف! مغنی تبسم کے ایسے ہی ایک جذباتی ردعمل کا میں بھی عینی شاہد رہ چکا ہوں اور اتفاق سے اس جذباتی ردعمل کا اظہار بھی قاضی سلیم ہی کے دہلی والے اس گھر میں ہوا تھا جس میں وہ بحیثیت رکن پارلیمنٹ رہا کرتے تھے ۔ اس رات کی محفل میں میزبان اور خاکسار کے علاوہ مغنی تبسم اور شہریار موجود تھے ۔ مغنی تبسم کے پرانے دوست ہونے اور دودھ کے جلے ہونے کے ناطے قاضی سلیم نے حفظ ماتقدم کے طور پر باتھ روم سے ریزر بلیڈ کو تو ہٹا ہی دیا تھا ۔ کچن سے چھری چاقو تک کو بھی نکال کر اپنی الماری میں بند کر کے رکھ دیا تھا ۔ رات دیر گئے شعر خوانی کی نوبت آئی ۔ شہر یار اور مغنی تبسم دونوں چونکہ ایک دوسرے کی بڑی پرانی کمزوریاں ہیں اسی لئے ایک دوسرے کے رازوں سے بھی اچھی طرح واقف ہیں۔ جب مغنی تبسم نے اچانک اک ایسا شعر سنادیا جس میں ایک گزری ہوئی دلنواز ہستی کا حوالہ تھا تو اسے سن کر شہریار نے رونا شروع کردیا ۔ اس کے جواب میں مغنی تبسم بھی رونے لگے ۔ ا یسا ویسا نہیں دھا ڑیں مار مار کے ۔ اب جو دونوں کے فی البدیہہ رونے کا شور مچا تو قاضی سلیم گھبراکر اپنے گھر کی کھڑکیاں اور دروازے بند کرنے لگے ۔کہنے لگے۔ ’’مجتبیٰ ! تم توجانتے ہو کہ آس پاس اپوزیشن کے ارکان پارلیمنٹ کے فلیٹس ہیں۔ وہ کیا سمجھیں گے ‘‘ میں نے کہا ’’قاضی صاحب ! کیا رونے دھونے پر صرف اپوزیشن والوں کا حق ہے ۔ کیا برسر اقتدار پارٹی کے ارکان پار لیمنٹ رو نہیں سکتے ؟‘‘ قاضی سلیم بولے ’’تمہیں اب بھی مذاق سوجھ رہا ہے ۔ تم ان دونوں کو سنبھالو ۔ میں اتنی دیر میں دروازے اور کھڑکیاں بند کرتا ہوں تاکہ رونے کی آواز باہر نہ جائے‘‘۔ خیر بڑی دیر بعد دونوں قابو میں آئے ۔ جب یہ ٹک روتے روتے سوگئے تو میں رات کے پچھلے پہر اپنے گھر چلا گیا ۔
دوسری شام میں حسب معمول قاضی سلیم کے گھر پہنچا تو دیکھا کہ باقر مہدی وہاں پہلے سے موجود ہیں۔ میں نے باتوں باتوں میں باقر مہدی سے کہا ’’اگر آپ رونے وغیرہ کا ارادہ رکھتے ہوں تو پہلے  ہمیں بتادیں تاکہ ہم ابھی سے گھر کی کھڑکیاں اور دروازے وغیرہ بند کردیں۔پتہ ہے کل رات یہاں کیا ہوا۔ شہر یار اور مغنی کسی بات پر اتنا روئے کہ اپوزیشن کے ارکان کو بھی اس کا علم ہوگیا‘‘۔
باقر مہدی نے گہرے تجسس اور مصنوعی تشویش کے ساتھ پوچھا ’’مگر یہ روئے کیوں ؟ ‘‘ قاضی سلیم بولے ’’مغنی نے اپنے ایک شعر میںایک گزری ہوئی شخصیت کا حوالہ دیا تھا‘‘۔ پھر کیا تھا دونوں مل کرا س ہستی کو یاد کر کے بے تحاشہ رونے لگے‘‘۔ اس پر باقر مہدی نے اپنے مخصوص لہجہ میں کہا ’’یار تم دونوں کو غلط فہمی ہوئی ہے۔ وہ کسی شخصیت کی موت پر نہیں بلکہ وہ تو ’’شعر و حکمت ‘‘ کی موت پر رو رہے تھے ۔ شعر و حکمت کی موت پر سمجھے! ‘‘۔اس بات پر میں اور باقر مہدی بے تحاشہ ہنسنے لگے تو قاضی سلیم پھر دوڑ کر گھر کی کھڑکیاں اور دروازے بند کرنے لگے کہ کہیں اپوزیشن والوں کو ہماری ہنسی کا پتہ نہ چل جائے۔ میں نے قاضی سلیم سے کہا ’’قاضی صاحب !یہ آپ کے اپوز یشن والے بھی عجیب ہیں۔ نہ آپ کے دکھ میں شریک ہوتے ہیںاور نہ آپ کے سکھ میں۔ ایسی ہی باتوں کی وجہ سے تو ہماری جمہوریت کی بنیادیں مستحکم نہیں ہو پارہی ہیں۔‘‘ اب احساس ہوتا ہے کہ قاضی سلیم کی ایسی ہی معصومانہ اور شریفانہ حرکتوں کی وجہ سے وہ دوبارہ پارلیمنٹ کے رکن منتخب نہیں ہوسکے ۔ مگر یہ اچھا ہی ہوا کیونکہ آپ دیکھ رہے ہیں کہ ان دنوں ارکان پارلیمنٹ کی کتنی عزت ہے۔
بہرحال ’’شعر و حکمت‘‘ کا ذکر چل نکلا ہے تو ایک بات اور عرض کرتا چلوں ۔ جب مغنی تبسم اور شہریار پابندی سے ’’شعر وحکمت ‘‘ نکالا کرتے تھے تو ا کثر احباب مجھ سے پوچھا کرتے تھے کہ ان دونوں میں سے ’’شعر‘‘ کس کے پاس ہے اور ’’حکمت‘‘ کس کے پاس۔ میں نے جب بھی اس سوال پر غور کیا تو مجھے دونوں ہی کے پاس ’’شعر ہی شعر‘‘ نظر آیا اور وہ حکمت ، جس کا چلن آج کے زمانہ میں عام ہے ، دونوں میں سے کسی کے پاس نظر نہیں آئی ۔ یہی وجہ ہے کہ ’’شعر و حکمت ‘‘ بہت دنوں تک نہیں نکل سکا۔
مغنی تبسم کے پرانے احباب کو ضرور پتہ ہوگا کہ ایک زمانہ میں وہ روحوں کوطلب کر کے احباب سے ان روحوں کی بات چیت بھی کروایا کرتے تھے ۔ میں نے تو خیر کبھی اُن کی معرفت روحوں سے بات نہیں کی کیونکہ اس زمانہ میں ، میں جن سے بات کرنے کو تڑپتا تھا وہ تب تک روحیں نہیں بنی تھیں اور مغنی تبسم زندوں سے میری بات کرانے کے قائل نہیں تھے ۔ البتہ ان کے نور خاں بازار والے مکان میں ، خود میں نے کئی احباب کو مغنی تبسم کی بلائی ہوئی روحوں سے بات چیت کرتے ہوئے نہ صرف دیکھا ہے بلکہ سنا بھی ہے۔ مجھے یاد ہے کہ مغنی تبسم نے ایک بار نیٹشے کی روح سے حسن عسکری کی (جو اب لندن میں رہتے ہیں) بات کروائی تھی ۔ ارے صاحب کیا بتاؤں دونوں میں جھگڑا ہوتے ہوتے رہ گیا ۔ ہاتھا پائی کی نوبت تو خیر آہی نہیں سکتی تھی ۔ اگر آتی بھی تو ہمارے حسن عسکری کے ہاتھ نیٹشے کے ہاتھوں سے خاصے لمبے تھے ۔ بہر حال ادھر میں نے حسن عسکری کو تھاما اور ادھر مغنی تبسم نے جیسے تیسے نیٹشے کی روح کو قابو میں کیا تب کہیں جاکر معاملہ رفع دفع ہوا ورنہ لینے کے دینے نہیں بلکہ دینے کے دینے پڑجاتے۔

مغنی تبسم کو ضرور یاد ہوگا کہ ایک بار انہوں نے انجانے میں میرے افسانہ نگار دوست ابراہیم شفیق (خدا انہیں غریق رحمت کرے) کی بات چیت مشہور فرانسیسی افسانہ نگار بالزاک کی روح سے کروائی تھی ۔ آپ کو تو پتہ ہے کہ بالزاک کیسا منہ پھٹ اور بڑ زبان آدمی تھا ۔ پہلے تو ابراہیم شفیق سے بات کرنے کیلئے ہی آمادہ نہیں ہورہا تھا ۔ بعد میں مغنی تبسم نے اس کی روح کو ورغلایا، بہلایا ، پھسلایا تو اس مردود نے چھوٹتے ہی ابراہیم شفیق سے کہا ’’میاں کیوں اپنا وقت افسانہ نگاری میں برباد کرتے ہو۔ جاؤ اور کوئی اچھا سا شریفانہ پیشہ اختیار کرو اور ہاں خبردار جو پھر کبھی اس معاملہ میں میری روح سے صلاح و مشورہ کیا تو۔ اب تو خیر غلطی سے صحیح مشورہ دے دیا ہے ۔ آگے ایسا مشورہ دوں گا کہ زندگی بھر یاد رکھو گے ‘‘ بالزاک کی اس دو ٹوک رائے کو جان کر تھوڑی دیر کیلئے مجھے شبہ بھی ہوا کہ روحوں کی آڑ میں کہیں خود مغنی تبسم تو نہیں بولتے، بے چارے کم گو آدمی ہیں جو بات خود سے نہیں کہہ پاتے یا کہنے کی ہمت نہیں رکھتے اسے روحوں سے کہلوا دیتے ہوں گے ۔ شریف آدمی کو کیا کیا سوانگ رچانے نہیں پڑتے ۔بہرحال بالزاک کی اس رائے کے بعد ابراہیم شفیق کئی دنوں تک اُداس رہا ۔ بعد میں مغنی کے موم سے دل نے اس کی تلافی کی یہ صورت نکالی کہ ایک دن اردو کے ایک تازہ تازہ مرحوم بنے ہوئے افسانہ نگار کی روح سے ابراہیم شفیق کی بات کروادی (کبھی کبھار وہ بدرحوں کو بھی بلا لیتے تھے) شکر خدا کا کہ افسانہ نگار مرحوم کی روح نے ابراہیم شفیق کی افسانہ نگاری کی نہ صرف تعریف کی بلکہ ٹھیٹ اردو میں انہیں مشق سخن کو جاری رکھنے کا مشورہ بھی صادر فرمایا ۔آخر میں ٹیپ کے بند کے طور پر یہ بھی کہا کہ اللہ کرے زور قلم اور زیادہ۔
مجھے یہ بھی یاد ہے کہ ایک بار ایک حسین و جمیل خاتون مغنی تبسم کے پاس یہ فریاد لے کر آئی کہ وہ اس کے مرحوم شوہر کی روح سے بات کروادیں۔ آپ میں سے بہت سوں کو پتہ ہوگا کہ مغنی تبسم بڑے دل و جان سے بیواؤں کی دامے ، درمے ، سخنے مدد کرنے کو ہر دم تیار رہتے ہیں۔ (اس زمانہ میں تو رہا کرتے تھے ۔ اب کا حال مجھے نہیں معلوم) مغنی تبسم نے اپنا پورا روحانی زور لگاکر آناً فاناً مرحوم شوہر کی روح کو طلب کرلیا ۔سچ تو یہ ہے کہ اس روح کے اچانک اور اوبدا کے چلے آنے پر خود مجھے بھی حیرت ہوئی تھی ۔ روح کے آتے ہی خاتون نے اپنا سر ساری کے پلو سے ڈھک لیا اور بادیدہ نم پوچھا ’’اجی کیسے ہو؟ ‘‘۔
روح شوہر نے کہا ’’بہت اچھا ہوں‘‘۔
خاتون بولیں ’’مرتے مرگئے لیکن ہر حال میں صابر و شاکر رہنے کی تمہاری پرانی عادت نہیںگئی ۔ سچ بتاؤ کیا تم اتنے ہی مزے میں ہو جتنا کہ نیچے کی دنیا میں میری رفاقت میں رہا کرتے تھے؟ ‘‘مرحوم نے کہا ’’وہاں سے تو میں یہاں ہزار درجہ مز ے میں ہوں ۔ بڑی آسائشیں میسر ہیں‘‘۔
خاتون نے پوچھا ’’اچھا یہ بتاؤ جنت کیسی جگہ ہے؟ ‘‘
مرحوم شوہر نے کہا ’’اری نیک بخت میں جنت سے کہاں بول رہا ہوں۔ میں تو دوزخ سے بول رہا ہوں‘‘۔

خاتون نے آخری بار اپنے آنسو پونچھے اور کہا ’’پھر تو تم جہاں بھی رہو خوش رہو‘‘۔ اس کے بعد مرحوم شوہر سے اس خاتون کا رابطہ منقطع ہوگیا کیونکہ ان مذاکرات کے بعد میں نے اس خاتون کوجب بھی مغنی کے ہاں دیکھا مغنی تبسم سے ہی باتیں کرتے ہوئے پایا ۔کبھی اپنے مرحوم شوہر کی روح کو زحمت دیتے ہوئے نہیں دیکھا ۔ تکلیف پہنچانے کی بات الگ ہے ۔
مغنی تبسم اپنی خوش لباسی اور جامہ زیبی وغیرہ کیلئے بڑی شہرت رکھتے ہیں۔ دن کے کسی بھی حصہ میں انہیں دیکھئے تو یوں لگے گا جسے سالم مغنی تبسم اپنے لباس سمیت ابھی ابھی کسی ڈرائی کلیننگ کی مشین میں سے برآمد ہوئے ہیں۔ تاہم میں نے لندن میںان کی جو جامہ زیبی دیکھی ہے وہ کسی نے نہ دیکھی ہوگی ۔ اصل میں مغنی تبسم سیرین ایر لائینز کے جس طیارے سے لندن آئے تھے اس نے مغنی تبسم کو تو لندن کے ہیتھرو ایرپورٹ پر بخیر و خوبی اتار دیا تھا لیکن ان کے سوٹ کیس کو اپنے ساتھ لے کر نیویارک چلا گیا تھا ۔نتیجہ میں مغنی تبسم پو رے دس دنوں تک اسی اکیلئے سوٹ میں ملبوس رہے جسے پہن کر وہ ہندوستان سے لندن آئے تھے ۔ اسی سوٹ کی مدد سے انہوں نے لندن کی کئی ادبی اور سماجی تقریبوں کو بحسن و خوبی ٹھکانے لگایا ۔ مگر کیا مجال جو کسی کو یہ احساس ہوا ہو کہ وہ پچھلے دس دنوں سے ایک ہی سوٹ میں ملبوس ہیں ۔ جامہ زیبی کی ایسی انوکھی مثال کہیں اور دیکھنے کو نہیں ملی ۔
ایک بات اور عرض کردوں کہ مغنی تبسم نہانے یعنی غسل فرمانے کے بڑے شوقین ہیں۔ میں جب بھی صبح کے وقت ان کے گھر فون کرتا ہوں تو ان کی ملازمہ اطلاع دیتی ہے ۔’’صاحب پانی نہا رہے ہیں‘‘۔ اگرچہ پانی نہانے کی صراحت خود ایک ا ضافی چیز ہے کیونکہ ہم جیسے لوگ تو عموماً پانی سے ہی نہاتے ہیں ۔ دودھ سے ، شہد سے یا عطر سے تھوڑی نہاتے ہیں۔ اس لئے مجھے یہ گمان ہوتا ہے کہ مغنی تبسم پانی سے بالکل نہیں نہاتے کیونکہ جتنی دیر تک وہ نہاتے ہیں اتنی دیر تک پانی آخر آتا کہاں سے ہے ۔ کیا حیدرآباد میں آبرسانی کا انتظام واقعی اتنا اچھا ہوگیا ہے کہ مغنی تبسم دو دو گھنٹوں تک پانی سے نہائیں اور پھر بھی سارے حیدرآبادیوں کو پانی ملتا رہے ۔ میں اکثر حیران ہوجاتا ہوں کہ مغنی تبسم کے بھی دو ہاتھ ، دو ٹانگیں ، ایک چہرہ ایک گردن اور ایک کمر وغیرہ ہے اور اوپر سے قد بھی چھوٹا ہے لیکن انہیں اپنے ان اعضاء کو دھونے میں آخر اتنی دیر کیوں لگ جاتی ہے۔ میں تو اپنی درازی قامتی کے باوجود اپنے کم و بیش اتنے ہی اعضاء کو دس پندرہ منٹ میں دھولیتا ہو ں۔ دھوبی گھاٹ پر دھوبی کی طرح کپڑوں کی لادی کو دھونے میں مصروف نہیں رہ جاتا ۔ کسی نے بتایا کہ  مغنی تبسم نہاتے وقت اپنے اعضاء کو نہیں دھوتے بلکہ ا پنی مختلف حیثیتوں کو دھوتے ہیں۔ابھی اپنے اندر بیٹھے ہوئے شاعر کو نہلایا ہے تو ابھی ناقد کے سر پر پانی  کا لوٹا انڈیل رہے ہیں۔اس سے فرصت ملی تو اپنے ترقی پسند پیکر کو اُبٹن سے مل رہے ہیں۔ ساتھ میں اپنے جدید ذہن کو بھی جھاویں سے رگڑتے چلے جارہے ہیں۔ ہوسکتا ہے یہ بات درست ہو کیونکہ ایک آدمی کا جسمانی وجود اتنا بسیط بھی نہیں ہوسکتا کہ وہ اسے گھنٹوں دھوتا رہ جائے۔
حضرات! مغنی تبسم کے بارے میں کچھ لکھنے بیٹھا تو ذرا دیکھئے کہ کتنا کچھ لکھ گیا ہوں۔ اگرچہ کام کی بات ایک بھی نہیں کی ۔ میں جانتا ہوں کہ مغنی تبسم کو سمیٹنا کوئی آسان کام نہیں ہے ۔ جن لوگوں نے انہیں وقفہ وقفہ سے سمیٹا ہے وہ جانتے ہیں کہ یہ سمٹنے والی چیز نہیں بلکہ بکھرنے والی چیز ہیں۔ اس لئے ان کے سمٹنے اور میرے سمٹانے کو ختم کرنے سے پہلے ان کی چند خدمات کا اعتراف کرنا بھی ضروری سمجھتا ہوں۔
مغنی تبسم کی ایک خدمت تو یہ ہے کہاردو کے استاد ہونے کے باوجود اردو کے استاد بالکل نہیں لگتے کیونکہ انہوں نے حرام خوری کو اپنے اوپر حرام کر رکھا ہے ۔ ایمانداری ، لگن اور محنت شاقہ کو ا پنا دین ایمان گردانتے ہیں۔
مغنی تبسم کی دو سری خدمت یہ ہے کہ ار دو ادب میں اعلیٰ مقام اور رتبہ حاصل کرنے کے باوجود انہوں نے کبھی اپنا کوئی ٹولہ بنانے کی کوشش نہیں کی ۔  اپنی  ذات گرامی کو ہی ایک ٹولہ سمجھا اور سدا اپنے آپ سے ہی برسر پیکار رہے۔
ان کی تیسری خدمت یہ ہے کہ مصلحت پسندی ، جوڑ توڑ ، ادبی ریشہ دوانیوں ، کینہ پروری اور شہرت طلبی وغیرہ سے ہمیشہ اپنے آپ کو دور رکھا حالانکہ آج کے زمانہ میں پنپنے کی یہی تو باتیں ہیں ۔ اپنے علمی کارناموں اور ادبی فتوحات کے با وصف ان کی بے نیازی کا یہ عالم ہے کہ میں نے انہیں کبھی شہرت کے پیچھے بھاگتے نہیں دیکھا ۔ البتہ زندگی بھر وہ جن کے پیچھے بھاگتے رہے ان کی نشاندہی نہیں کروں گا کیونکہ وہ ایسی باتوں سے ناراض ہوجاتے ہیں۔ انہیں اند یشہ ہے کہ کہیں ایسی باتوں سے انہیں وہ شہرت نہ مل جائے جس سے وہ ہمیشہ دور بھاگتے آئے ہیں ۔ اللہ اللہ کیا استغنا ہے اور کیا بے نیازی ہے ۔ تا ہم اتنا جانتا ہوں کہ بتانِ ناز کے پیچھے بھاگنے سے انہیں مہلت ہی نہیں ملی تو بیچارے اپنی شہرت کے پیچھے کیسے بھاگ سکتے تھے۔ مغنی تبسم ہمارے ادب کی ان مشہور ہستیوں سے ہزار درجہ بہتر ہیں جن کی شہرتوں کے آگے بدنامی بھی اپنے آپ کو نادم اور شرمسار محسوس کرتی ہے کہ اگر یہ شہرت ہے تو پھر میں کیا ہوں۔
مغنی تبسم کی چوتھی خدمت یہ ہے کہ انہوں نے اپنے سوائے کسی کو نقصان نہیں پہنچایا۔ اپنے دکھ اور کرب اور اپنی اذیت کو خود جھیلا۔ کبھی اپنے دل کے بوجھ کو ہلکا کرنے کیلئے کسی کے کندھے پر اپنا سر رکھنے کی زحمت گوارانہیں کی ۔ا یسا نہیں ہے کہ انہیں ایسے کندھے نہیں ملے ۔ ضرور ملے ۔ مگر ان کندھوں کو انہوں نے اپنے دکھ کے ذریعہ ضائع نہیں ہونے دیا بلکہ خود ان کندھوں کے سکھ کا حصہ بننا ضروری جانا ۔ یہ ظرافت کی نہیں ظرف کی بات ہے ۔
اُن کی پانچویں خدمت یہ ہے کہ پچھلی نصف صدی سے میں انہیں جاننے سمجھنے اور پرکھنے کی کوشش کر رہا ہوں مگر یہ آج تک میرے ہاتھ نہیں آ ئے ۔ ذرا سوچئے ۔ اگر یہ مصروفیت نہ ہوتی تو میں اتنی لمبی زندگی کیسے گزار پاتا ۔ ویسے تو مغنی تبسم کی اور بھی کئی خدمات ہیں لیکن میں اپنے تئیں ان کی ایک خدمت کا شکریہ ادا کر کے اپنی بات کو ختم کرنا چاہوں گا ۔ میں جب بھی حیدرآباد کے بکھرتے ہوئے ادبی ماحول اور تار تار ہوتی ہوئی حیدرآبادی تہذیب کو دیکھ کر افسردہ ہوجاتا ہوں تو مجھے اچانک حیدرآباد میں مغنی تبسم کی موجودگی کا خیال آجاتا ہے ۔ پھر میں اپنے آپ ہی افسردگی کی اس کیفیت سے باہر نکل آتا ہوں ۔ کیا یہ کوئی معمولی خدمت ہے ؟ اسی لئے تو کہتا ہوں کہ یہ ایک تبسم ، جو مغنی بھی ہو ، کسے ملتا ہے ۔     (1999 ء)