مغربی بنگال ‘ جنگ کا میدان

ان کا جو کام ہے وہ اہل سیاست جانیں
میرا پیغام محبت ہے جہاں تک پہنچے
مغربی بنگال ‘ جنگ کا میدان
ہندوستان کی ریاست مغربی بنگال کو جاریہ لوک سبھا انتخابات میں میدان جنگ بنادیا گیا ہے ۔ خاص طور پر ممتابنرجی کی قیادت والی ترنمول کانگریس کو نشانہ بنانے بی جے پی اور اس کے قائدین نے بنگال کو ایک دشمن ریاست کی نظر سے دیکھنا شرو ع کردیا ہے ۔ گذشتہ لوک سبھا انتخابات میں جب سارے ملک میں مودی کی لہر کا عروج تھا اور اس کا اثر انتخابات پر بھی دیکھنے میں آیا تھا اس وقت بھی بنگال میں ممتا بنرجی نے مثالی کامیابی حاصل کرلی تھی اور بی جے پی کو وہاں قدم جمانے کا موقع تک نہیں مل سکا تھا ۔ گذشتہ لوک سبھا انتخابات کی کراری شکست کے بعد سے بی جے پی ریاست میں اپنے قدم جمانے کی تگ و دو کرتی رہی ہے لیکن اسے ہر بار ناکامی کا منہ دیکھنا پڑا ہے ۔ مٹھی بھر شرپسندوں کو استعمال کرتے ہوئے ریاست کا ماحول پراگندہ کرنے کی کوششیں کی گئیں۔ فرقہ وارانہ منافرت پھیلانے کی سازشیں رچی گئیں۔ درمیان میں چٹ فنڈ اسکام کے بہانے سے ممتابنرجی کی پارٹی کو نشانہ بنایا گیا اور ان کی حکومت کو بدنام کرنے کی کوششیں کی گئیں۔ ہر جماعت کو اپنے طور پر عوام سے رجوع ہونے اور دوسری جماعتوں کی مخالفت کرنے کا حق حاصل ہے لیکن یہ حق کسی کو بھی حاصل نہیں ہے کہ وہ ملک کی کسی ریاست کو دشمن ریاست کی نظر سے دیکھے اور وہاں سیاسی فائدہ حاصل کرنے کیلئے لا اینڈ آرڈر کو بگاڑا جائے ۔ وہاں نفرت پیدا کی جائے ۔ سماج کے اہم طبقات کو ایک دوسرے سے متحارب کرنے کی کوشش کی جائے ۔ انتخابات میں مقابلہ کے نام پر تشدد اور آگ زنی کا کھیل کھیلا جائے ۔ سب سے زیادہ افسوس کی بات تو یہ ہے کہ بی جے پی کے صدر امیت شاہ کے ساتھ خود وزیر اعظم بھی ایسا کرنے میں برابر کے ذمہ دار ہیں۔ وہ سیاسی اختلافات کو ایک سطح سے نیچے لیجانے کے ذمہ دار ہیں۔ سیاسی اختلاف کو شخْصی دشمنی و عناد کی صورت دی جا رہی ہے اور یہ ملک کے وفاقی ڈھانچہ اور ملک کی جمہوریت کیلئے اچھا نہیں ہے ۔ کسی سیاسی جماعت کو اپنی دشمن سمجھنا اور اپوزیشن اقتدار والی ریاست کو دشمن ریاست سمجھنا ایک منفی سوچ کی علامت ہے اور بی جے پی اس پر عمل پیرا ہے ۔
مغربی بنگال میں ممتابنرجی کو مسلسل نشانہ بنانے کی ایک وجہ یہی سمجھ میں آتی ہے کہ مرکز کی جو عوام مخالف پالیسیاں اور فیصلے رہے ہیں ان کی ممتابنرجی نے مسلسل مخالفت کی ہے اور پوری شدت کے ساتھ ان کے خلاف مہم بھی چلائی ہے ۔ یہی وجہ ہے کہ انہیں نشانہ بنایا جا رہا ہے ۔ ریاست میں حالات انتہائی دگرگوں کرتے ہوئے عوام کو خوفزدہ کرنے کی کوشش بھی کی گئی ہے ۔ اس سارے معاملہ میں الیکشن کمیشن کے رول پر بھی سوال اور شکوک پیدا ہونے لگے ہیں ۔کمیشن کی جانب سے حالات کو بگاڑنے والوں کے خلاف کارروائی کرنے کی بجائے انتخابی مہم کو ایک دن پہلے ختم کردینا مسئلہ کا حل نہیں ہوسکتا ۔ کئی مقامات پر دیکھنے میں آیا ہے کہ بی جے پی کے ورکرس مخالف ورکرس کو دھمکاتے رہے ہیں۔ بی جے پی کی ایک لوک سبھا امیدوار نے تو حد کردی ۔ انہوں نے ترنمول کانگریس ورکرس کو دھمکاتے ہوئے کہا تھا کہ وہ اترپردیش سے غنڈوں کو بلا کر ان کارکنوں کو ٹھکانے لگائیں گی ۔ اب ترنمول کانگریس کا الزام ہے کہ امیت شاہ کے روڈ شو کے دوران جو تشدد ہوا تھا وہ بھی یو پی ‘ بہار اور راجستھان سے بی جے پی کے غنڈوں کو لا کر کیا گیا تھا اور اس میں مقامی عوام شامل نہیں تھے ۔ بی جے پی کو اس الزام کا جواب دینا چاہئے ۔ یہ الزام بے بنیاد نہیں کہا جاسکتا ۔
ممتابنرجی اس ملک میں سکیولر اقدار اور روایات کی علامت بن کر ابھر رہی ہیں۔ جس طرح سے گذشتہ انتخابات میں انہوں نے بی جے پی کو کراری شکست سے دوچار کیا تھا اس کو دیکھتے ہوئے وہ ایک قد آور سیاسی رہنما کے طور پر ابھرنے لگی ہیں۔ بی جے پی کی جانب سے جو کچھ بھی کیا جا رہا ہے ان کو دیکھتے ہوئے یہ احساس تقویت پاتا ہے کہ بی جے پی اور اس کی قیادت کو خاص طور پر ممتابنرجی سے خوف لاحق ہوگیا ہے ۔ اسی خوف کے عالم میں ملک کے ماحول کو پراگندہ کرنے سے بھی گریز نہیں کیا جا رہا ہے ۔ یہ اقتدار کی ہوس کی انتہاء ہے ۔ اقتدار کو مستقل بنانے کی کوششیں ہونے لگی ہیں جو ملک کی جمہوریت کیلئے خطرہ ہیں اور عوام کے جمہوری حقوق پر ڈاکہ کے مترادف ہیں۔ ملک کے تمام سکیولر ‘ جمہوریت کے حامی عوام کو ایسی کوششیں کرنے والوں کے خلاف ایک آواز میں صدائے احتجاج بلند کرنے کی ضرورت ہے ۔