معلق کارپوریشن، کسی بھی جماعت کو واضح اکثریت نہیں

تازہ ترین سروے میں انکشاف،لمحہ آخر میں ٹی آر ایس کی حکمت عملی تبدیل، رائے دہی کے فیصد پر نتائج منحصر
حیدرآباد۔/31جنوری، ( سیاست نیوز) گریٹر حیدرآباد میونسپل کارپوریشن میںکسی ایک پارٹی کو اکثریت حاصل ہونے کا امکان نہیں ہے اور انتخابی نتائج معلق کارپوریشن کے حق میں ہوں گے۔ انتخابی مہم کی تکمیل کے فوری بعد برسر اقتدار ٹی آر ایس کی جانب سے کرائے گئے سروے کے مطابق بتایا جاتا ہے کہ کوئی بھی پارٹی کارپوریشن پر قبضہ کیلئے واضح اکثریت حاصل کرنے کے موقف میں نہیں ہے اور رائے دہندوں کا رجحان منقسم ہے جس کے نتیجہ میں کل یکم فبروری کا دن تمام پارٹیوں کیلئے فیصلہ کن رہے گا۔ انتخابی مہم کا آج شام اختتام عمل میں آیا اور پیر کے دن رائے دہندوں کو فیصلہ کرنے کا موقع رہے گا۔ ذرائع کے مطابق تازہ ترین سروے نے خود برسراقتدار پارٹی کو اُلجھن میں مبتلاء کردیا ہے جو کارپوریشن میں 60سے زائد نشستوں پر کامیابی کا اندازہ کررہی تھی۔ سروے رپورٹ کے بعد پارٹی نے 60نشستوں کے نشانہ کی تکمیل کیلئے آئندہ 24گھنٹوں میں رائے دہندوں کو راغب کرنے کی حکمت عملی کو قطیعت دی ہے۔ بتایا جاتاہے کہ چیف منسٹر کے چندر شیکھر راؤ نے انتخابی مہم میں مصروف وزراء اور قائدین سے اس مسئلہ پر مشاورت کی اور رائے دہی کے دن تک سخت چوکسی اختیار کرنے کی ہدایت دی تاکہ اپوزیشن جماعتیں رائے دہندوں کو راغب کرنے کیلئے غیر جمہوری حربے استعمال کرنے سے باز رہیں۔ پارٹی کے تمام مقامی یونٹس اور امیدواروں کو پابند کیا گیا ہے کہ وہ آئندہ 24گھنٹوں اور پھر رائے دہی کے دن مضبوط گڑھ والے علاقوں میں زیادہ سے زیادہ رائے دہی کو یقینی بنائیں اور رائے دہی کے فیصد میں اضافہ کی کوشش کریں۔ پارٹی کا اندازہ ہے کہ اگر رائے دہی کا فیصد 60سے زائد ہوگا تو ٹی آر ایس کو کارپوریشن پر قبضہ کرنے میں مدد ملے گی۔ بتایا جاتا ہے کہ مہم کے آغاز کے بعد کئے گئے سروے کے مطابق ٹی آر ایس کو 80نشستوں پر کامیابی کی پیش قیاسی کی گئی تھی تاہم بی جے پی اور تلگودیشم کے زیر اثر علاقوں میں ٹی آر ایس کی مقبولیت میں کمی کا اندازہ ہوا کیونکہ ان علاقوں میں سیما آندھرائی رائے دہندوں کی اکثریت پائی جاتی ہے جن کا رجحان تلگودیشم ۔ بی جے پی اتحاد کی طرف دیکھا گیا ہے۔ ان حالات میں ٹی آر ایس نے انتخابی مہم کی حکمت عملی کو تبدیل کرتے ہوئے دیگر ریاستوں سے تعلق رکھنے والے اور سیما آندھرائی رائے دہندوں پر خاص توجہ مرکوز کی۔ کے ٹی راما راؤ اور کویتا کو اس کی ذمہ داری دی گئی اور ان دونوں نے مہم کے آخری دو دنوں میں سیما آندھرائی رائے دہندوں کے علاقوں میں کئی دورے کئے اور ان کی تنظیموں کے ساتھ اجلاس منعقد کرتے ہوئے انہیں حیدرآباد میں حکومت کی جانب سے مکمل تحفظ کا یقین دلایا۔ سروے میں بتایا گیا ہے کہ چندرا بابو نائیڈو کی بی جے پی قائدین کے ساتھ چلائی گئی انتخابی مہم کا مثبت اثر ہوا اور ان دونوں پارٹیوں کے ارکان اسمبلی والے حلقوں میں ٹی آر ایس کو سخت جدوجہد کا سامنا ہے۔ کارپوریشن کے معلق نتائج سے متعلق سروے میں تلگودیشم ۔ بی جے پی اتحاد کے بہتر مظاہرے کی پیش قیاسی کی گئی ہے۔ پارٹی کے باوثوق ذرائع نے بتایا کہ اگر رائے دہی کا فیصد 50سے کم رہے گا تو ٹی آر ایس کو 150رکنی بلدیہ میں 45تا50نشستوں پر باآسانی کامیابی حاصل ہوگی جبکہ 15نشستوں پر اسے تلگودیشم ۔ بی جے پی اتحاد سے سخت مقابلہ درپیش رہے گا۔ ٹی آر ایس کو واضح اکثریت حاصل نہ ہونے کی اہم وجہ 50فیصد سے زائد امیدواروں کا دیگر جماعتوں سے تعلق ہے جو عین انتخابات سے قبل تلگودیشم ، کانگریس اور بی جے پی سے مستعفی ہوکر ٹی آر ایس میں شامل ہوئے ہیں۔ بڑے پیمانے پر دیگر جماعتوں کے قائدین کی آمد نے ٹی آر ایس کے مقامی قائدین اور خاص طور پر ٹکٹ کے خواہشمندوں کو مایوس کردیا ہے۔ ایسے میں ٹی آر ایس کی کامیابی کی امید والے وارڈز میں رائے دہی کے فیصد میں اضافہ کے امکانات کم ہیں۔ ٹی آر ایس کی انتخابی مہم کے آخری جلسہ عام میں جو پریڈ گراؤنڈ پر منعقد ہوا تھا چیف منسٹر کے چندر شیکھر راؤ نے اپنی تقریر میں تلگودیشم اور بی جے پی کو نشانہ بنانے پر زیادہ وقت صرف کیا جس سے اندازہ ہوتا ہے کہ ٹی آر ایس کا اصل مقابلہ تلگودیشم ۔ بی جے پی اتحاد سے ہے۔ چیف منسٹر نے تقریر میں چندرا بابو نائیڈو کو حیدرآباد کے معاملات میں مداخلت نہ کرنے کی صلاح دی اور یہاں تک کہہ دیا کہ چندرا بابو نائیڈو کی شریک حیات بھونیشوری نے ٹی آر ایس کارکنوں کو یقین دلایا کہ وہ ٹی آر ایس کو ووٹ دیں گی۔ سروے کے مطابق بلدیہ میں دوسرے مقام کیلئے سہ رُخی مقابلہ درپیش ہوسکتا ہے۔ تلگودیشم ۔ بی جے پی اتحاد، مجلس اور کانگریس میں دوسرے مقام کیلئے کانٹے کی ٹکر ہوسکتی ہے۔ کانگریس میں داخلی اختلافات کے سبب بعض حلقوں میں اسے باغی امیدواروں کا سامنا ہے۔ انتخابی مہم میں پارٹی کے کئی سینئر قائدین کی عدم شمولیت سے بھی بعض حلقوں میں پارٹی کے امکانات متاثر ہوسکتے ہیں۔ بتایا جاتا ہے کہ جو پارٹی بھی دوسرے مقام پر رہے گی اسے 30تا 35نشستیں حاصل ہوں گی۔ سروے کے مطابق پرانے شہر کے 15 بلدی وارڈز میں سخت مقابلہ کی پیش قیاسی کی گئی ہے۔ ٹی آر ایس کے قائدین کا کہنا ہے کہ اگر ٹی آر ایس کو  واحد بڑی پارٹی کا موقف حاصل ہوگا تو وہ ارکان پارلیمنٹ ، اسمبلی و کونسل کے ووٹ سے میئر کے عہدہ پر قبضہ کرے گی۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ ابتداء میں 100نشستوں پر کامیابی کا دعویٰ کرنے والی ٹی آر ایس نے بدستور اپنے دعویٰ میں کمی کی ہے حتیٰ کہ چیف منسٹر نے خود بھی اعتراف کرلیا کہ بلدیہ میں ان کی پارٹی کو واضح اکثریت نہیں بلکہ وہ واحد بڑی پارٹی کے طور پر اُبھرے گی۔ اسی دوران انتخابی مہم کے اختتام کے ساتھ ہی تمام سیاسی جماعتوں اور ان کے امیدواروں نے رائے دہندوں کو راغب کرنے کیلئے اپنی درپردہ مہم کا آغاز کردیا ہے۔