معاملہ ہنسنے ہنسانے کا

میرا کالم مجتبیٰ حسین
واشنگٹن کی ایک اطلاع کے مطابق میری لینڈ اسکول آف میڈیسن کے تحقیق کاروں نے پتہ چلایا ہے کہ قہقہہ لگانے سے انسانی جسم میں خون کی گردش کا نظام بہتر ہوجاتا ہے جس سے دل کی بیماریوں کے خطرات کم ہوجاتے ہیں۔ تحقیق کے مطابق ہنسی مذاق کی باتیں کرنے ، مزاحیہ تحریریں پڑھنے اور مزاحیہ فلمیں دیکھنے سے ذہنی تناؤ کم ہوجاتا ہے جس کے نتیجے میں دوران خون کا عمل معمول پر آجاتا ہے ۔ تحقیق کاروں کا کہنا ہے کہ ایک انسان روزانہ پندرہ منٹ تک قہقہے لگائے تو وہ دل کی بیماریوں سے محفوظ رہ سکتا ہے ۔

اس تحقیق میں ہماری دلچسپی اظہر من الشمس ہے کیونکہ ہنسی مذاق سے ہمارا بھی ایک واجبی سا تعلق ہے ۔ یوں تو ہم تقریباً اسّی برسوں سے اس دنیا میں ہنستے چلے آرہے ہیں لیکن پچھلے 53 برسوں سے تو ہم نے ہنسی کو پیشے کے طور پر اپنایا ہوا ہے ۔ ہنسی کے اتنے لمبے تجربے کی وجہ سے ہمیں اب یہ یاد نہیں رہتا کہ ہم اصلی ہنسی کب ہنس رہے ہوتے ہیں اور اس میں نقلی یا پیشہ ورانہ ہنسی کی ملاوٹ کب کردیتے ہیں ۔ اب ڈاکٹروں کا کہنا ہے کہ اگر کوئی روزانہ پندرہ منٹ تک قہقہے لگائے تو اسے دل کی بیماری نہیں ہوسکتی ۔ مانا کہ ایسا کرنے سے دل کی بیماری نہیں ہوتی لیکن کوئی آدمی بلاوجہ پندرہ منٹ تک قہقہہ لگاتا رہے یہ بات بھی ہمارے سمجھ سے بالاتر ہے کیونکہ جب بھی ہم کسی آدمی کو بلاوجہ ہنستے ہوئے دیکھ لیتے ہیں تو ہمیں شبہ ہوتا ہے کہ کہیں یہ آدمی پاگل تو نہیں ہوگیا ہے ۔ ہم تو تصویر کشی کے وقت بھی منٹ ، دو منٹ کے لئے ہی سہی ، اپنے ہونٹوں پر فرمائشی ہنسی کو پیدا کرنے کے اہل نہیں ہیں ۔ یہ کیا بات ہوئی کہ ادھر ایک اچھا بھلا فوٹوگرافر آپ کی تصویر کھینچنے کو کھڑا ہوجائے اور ادھر آپ اس پر ہنسنے لگ جائیں ۔ آدمی کو کب ہنسنا چاہئے ، جس طرح ہنسنا چاہئے ،

کتنا ہنسنا چاہئے اور کس پر ہنسنا چاہئے اس کے بھی کچھ آداب ہوتے ہیں ۔ یہی وجہ ہے کہ آپ کو جگہ جگہ کوئی نہ کوئی ہنستا ہوا تو ضرور دکھائی دے گا لیکن سچی اور بے لوث ہنسی ہنستے ہوئے لوگ بہت کم دکھائی دیں گے ۔ ایک بچہ کسی بات پر رونے لگا تو اس کی ماں نے رونے کا سبب پوچھا ۔ اس پر بچے نے روتے روتے بتایا کہ برابر کے کمرے میں اس کا باپ اسٹول پر چڑھ کر دیوار پر تصویر ٹانگ رہا تھا کہ اپنا توازن کھوبیٹھا اور نیچے گرپڑا ۔ اس پر ماں نے کہا ’’بیٹا ! عدم توازن کی اس کیفیت پر تو تمہیں رونے کی بجائے ہنسنا چاہئے تھا ۔ پھر تم روکیوں رہے ہو‘‘ ۔ بچے نے کہا ’’ممی! میں نے بھی آپ کی توقع کے مطابق اس بات پر زوردار قہقہہ لگایا تھا ۔

لیکن نہ جانے کیوں ڈیڈی نے میرے گال پر ایک زوردار طمانچہ رسید کیا اور یوں مجھے رونے پر مجبور کردیا‘‘ ۔ اس واقعے نے ثابت کردیا کہ ایک انسان کی ہنسی دوسرے انسان میں بھی ہنسی کا جذبہ پیدا کرے یہ ضروری نہیں ہے ۔ یہی وجہ ہے کہ جب بھی کوئی آدمی ہنستا ہے تو ہم اس ہنسی کے پیچھے اس جذبہ کو تلاش کرتے ہیں جو اس ہنسی کا موجب بنتا ہے ۔ کبھی یہ ہنسی شرمندگی کا روپ اختیارکرلیتی ہے ، کبھی یہ ہنسی مجبوری بن کر ابھرتی ہے ، کبھی کسی ہنسی کے پیچھے صبر کا پتھر دکھائی دیتا ہے ، کبھی کوئی ہنسی مصلحت سے لبریز نظر آتی ہے اور کبھی کوئی ہنسی ہنسنے والے کی قوت برداشت کی عکاسی کررہی ہوتی ہے ۔ یوں آج کے زمانے میں خالص اور بے لوث ہنسی بڑی مشکل سے دکھائی دیتی ہے ۔ لہذا یہ سمجھنا کہ ہر ہنسی دل کو تقویت پہنچاتی ہے اور خون کی گردش کو تیز کردیتی ہے ، بالکل غلط ہوگا ۔ کیا عجب کہ کوئی کھسیانی ہنسی یا مصلحت آمیز ہنسی انسان کے قلب پر حملے کا سبب بن جائے ۔ کبھی کبھی تو ہمیں چلو بھر خالص ہنسی بالٹی بھر مصنوعی ہنسی سے کہیں زیادہ صحت مند اور توانا نظر آتی ہے ۔ اگر سچ مچ ہمیں سچی ہنسی مل جاتی تو اس کی مدد سے دواساز کمپنیاں قہقہوں کے کیپسول ، گولیاں ، شربت اور معجون وغیرہ نہ تیار کرلیتے ۔ ہنسی کے ذریعے بیماریوں کا علاج کرنے کا خیال نہایت عمدہ ہے ۔ سچ تو یہ ہے کہ اس معاملے میں ہم مشہور ماہر نفسیات ڈاکٹر مجید خان سے بھی مشورہ کرنے کے آرزو مند تھے کیونکہ ڈاکٹر مجید خان ہماری طرح نہ صرف کالم نگار ہیں بلکہ ہمارے کرم فرما بھی ہیں اور اپنے کالموں میں اظہار پسندیدگی کے طور پر ان کے کرداروں کی تحلیل نفسی بھی فرماتے رہتے ہیں جنھیں ہم اپنے کالموں میں پیش کردیتے ہیں ۔ ہمارے بارے میں ان کا نفسیاتی تجزیہ یہ ہے کہ ہم نہایت حوصلہ مند ، صابر و شاکر ہونے کے علاوہ خوش باش اور دلیر انسان ہیں ، ظاہر ہے کہ انہوں نے ہمارے کالموں کا مطالعہ کرنے کے بعد ہی ہمارے بارے میں یہ رائے قائم کی ہے ۔ ایک بار ہم نے اپنے کالم میں ایک کردار ’’محتاط بیگ‘‘ کے زیر عنوان پیش کیا تھا ۔ یہ کردار اپنی ساری زندگی احتیاط سے گزار دیتا ہے ۔ اس کی احتیاط کا یہ عالم ہے کہ دیگر محتاط لوگ تو پھونک پھونک کر قدم اٹھا ہی دیتے ہیں ، یہ کردار قدم اٹھانے کا نام نہیں لیتا صرف پھونکتا رہ جاتا ہے ۔

اس کی خدمت میں پانی کا گلاس پیش کیا جائے تو اچانک یہ خوف اس کا دامن پکڑ لیتا ہے ہے کہ کہیں گلاس کے پانی میں کوئی خوفناک مگرمچھ اس کے لئے تاک لگائے نہ بیٹھا ہو ۔ اندیشہ ہائے دور دراز کو وہ اس طرح پیدا کرلیتا ہے جیسے یہ اس کے بائیں ہاتھ کا کھیل ہو ۔ محتاط بیگ گھڑی گھڑی اپنی نبض پر ہاتھ رکھ کر یہ اطمینان کرلیتا ہے کہ وہ زندہ بھی ہے یا مرگیا ۔ وہ محض اس ڈر سے شادی نہیں کرتا کہ ایک نہ ایک دن کہیں اس کی بیوی مر نہ جائے ۔ ڈاکٹر مجید خان کو ہمارا یہ کالم اتنا پسند آیا کہ اس کی کئی فوٹو کاپیاں بنواکر اپنے مریضوں میں تقسیم کیں ۔ پھر ہمارے بارے میں یہ رائے بھی دی کہ ہم انسانی نفسیات کی گتھیوں اور پیچیدگیوں کو بخوبی جانتے ہیں ۔ ہم اپنے قارئین کے سامنے آج برملا اعتراف کرنا چاہتے ہیں کہ ہم نہایت بزدل اور ڈرپوک آدمی ہیں ۔ اتنے ڈرپوک ہیں کہ اپنی مزاح نگاری میں خود اپنے سوائے کسی اور کا مذاق اڑا ہی نہیں سکتے ۔ اپنا مذاق آپ اڑانا دنیا کا سب سے محفوظ اور محتاط کام ہے ۔اطلاعاً عرض ہے کہ ڈاکٹر مجید خان ہمارے تخلیق کردہ کردار محتاط بیگ کی جو تحلیل نفسی فرمارہے ہیں وہ کردار ہم خود ہیں ۔ اب آپ سے کیا چھپائیں کہ ادھر چار پانچ برسوں کے عرصے میں اپنی صحت کی خرابی کے باعث ہم خود دن بہ دن محتاط بیگ بنتے چلے جارہے ہیں ۔ اب ہم ڈاکٹر مجید خان کو کیسے بتائیں کہ وہ جس مزاح نگار کو دلیر اور حوصلہ مند آدمی سمجھ رہے ہیں وہ ایک بزدل اور ڈرپوک آدمی ہے ۔ ابھی حال ہی میں ڈاکٹر مجید خان نے ’’میاں مکمل‘‘ کے عنوان سے ایک کالم لکھا تھا اور آخر میں ہمارا حوالہ دیا تھا کہ جس وقت وہ اس خاکے کو لکھ رہے تھے تو ہم ان کے ذہن میں موجود تھے ۔ یہ تو ڈاکٹر مجید خان کا کرم ہے کہ وہ ہمیں اپنے ذہن میں تر وتازہ رکھتے ہیں ورنہ سماج میں مزاح نگار کو پوچھتا کون ہے ۔ یقین مانئے ہمارا جی چاہتا ہے کہ کبھی ہم بھی ڈاکٹر مجید خان کی خدمت میں ایک نفسیاتی مریض کے طور پر پیش ہوں اور ان سے اپنے نفسیاتی مسائل کے حل کے طلبگار ہوں ۔ ہمارا تو خیال ہے کہ دنیا کے سارے ہی مزاح نگار کہیں نہ کہیں نفسیاتی مریض ہوتے ہیں لیکن چونکہ ان کے پاس ایک ضمیر ، ایک ظرف اور ایک انا ہوتی ہے اس لئے وہ خود کے نفسیاتی مریض ہونے کا اعتراف نہیں کرتے ۔ اردو کے پہلے مزاح نگار شاعر جعفر زٹلی کو اپنے ضمیر اور انا کی حفاظت کے جرم میں بادشاہ وقت نے پھانسی پر لٹکادیا تھا ۔ لوگ اس کے پھانسی پر لٹکنے کو بھی ایک مزاحیہ صورت حال سمجھتے ہیں ۔ سچ تو یہ ہے کہ مزاح نگار کے درد کو آج تک کسی نے نہیں پہچانا بلکہ لوگ تو اس کے درد پر بھی دھاڑیں مار مار کر قہقہے لگاتے ہیں ۔

ہمیں اس وقت طنز و مزاح کے پیر و مرشد ازبکستان والے ملاّ نصیر الدین یاد آگئے جو مذاق مذاق میں پتے کی بات کہہ جاتے تھے ۔ ملاّ نصیر الدین کو اپنی شعر فہمی پر بڑا ناز تھا اور اچھے اچھے سخن فہم ان کے آگے پانی بھرتے تھے ۔ بادشاہ وقت کو اچانک شعر گوئی کا شوق چرایا تو بادشاہ نے ملاّ نصیر الدین کو اپنے دربار میں طلب کیا تاکہ اپنے اشعار کے بارے میں ان کی رائے پوچھی جاسکے ۔ بادشاہ کو یہ خوش فہمی تھی کہ ملاّ نصیرالدین اگر اس کے اشعار پر داد دیں گے تو بادشاہ کی شعر گوئی کا ڈنکا سارے عالم میں بج اٹھے گا ۔ بہرحال ملاّ نے بڑی توجہ کے ساتھ بادشاہ کے اشعار تو سُنے مگر کسی ردعمل کا اظہار نہ کیا اور خاموش رہے ۔ اس پر بادشاہ نے ملاّ سے پوچھا ’’کیوں ملاّ کیسی ہے میری شاعری؟‘‘ ملاّ نے نفی میں سرہلا کر کہا ’’حضور! کچھ بات نہیں بنی ۔ مشق سخن جاری رکھئے‘‘ ۔ بادشاہ کو غصہ آیا تو اس نے ملاّ نصیر الدین کو جیل میں ڈال دینے کا حکم دے دیا ۔ بادشاہ نے سوچا چند دن جیل کی ہوا ملاّ کھالیں تو عقل ٹھکانے لگ جائے گی اور انھیں اپنے آپ ہی بادشاہ کی شاعری پسند آنے لگے گی ۔ سال چھ مہینے بعد بادشاہ نے پھر غزل کہی تو سوچا کہ کیوں نہ اب ملاّ کو بلا کر ان کی رائے لی جائے ۔ چنانچہ دربار کو آراستہ کیا گیا ۔ ملاّکو دربار میں بلایا گیا ۔ نحیف و نزار ، سر کے بال بڑھے ہوئے ، کپڑوں اور سر میں جوئیں پڑی ہوئیں ۔ بادشاہ نے اپنا کلام سنایا پھر ملاّ سے پوچھا ’’کیوں اب کیا رائے ہے تمہاری؟‘‘ ۔ ملاّ نے کوئی جواب نہ دیا اور اٹھ کر چپ چاپ دربار سے جانے لگے ۔ بادشاہ نے پکار کر کہا ’’ملاّ چوری چوری کہاں جارہے ہو؟‘‘ ملاّ نصیرالدین نے کہا ’’حضور! اس سے پہلے کہ آپ مجھے پھر سے جیل خانے میں ڈالنے کا حکم دیں میں خود ہی جیل میں جانا پسند کروں گا‘‘ ۔ اس پر درباری اپنی ہنسی نہ روک سکے اور زور زور سے قہقہے لگانے لگے ۔

ملاّ نے اپنی اس حرکت کے ذریعے پھر سے دربار میں ہنسی کی دولت انڈیل دی لیکن کسی نے یہ نہیں سوچا کہ جیل خانے میں ملاّ پر کیا گزری ہوگی ۔ لوگ آج تک ملاّ نصیرالدین کی اس حرکت کو یاد کرکے بے ساختہ ہنستے ہیں لیکن کسی کو ملاّ کے جیل جانے پر آنسو بہانے کی توفیق عطا نہ ہوئی ۔ ہنسی کے دوسرے رخ پر مزاح نگار کا جو المیہ ہوتا ہے اس تک کسی کی رسائی نہیں ہوسکتی ۔ اب اگر قہقہوں کے ذریعے بیماریوں کے علاج کی صورت نکلتی ہے تو اچھی بات ہے لیکن جو آدمی قہہقوں کا سوداگر ہوتا ہے خود اس کا علاج کون کرے گا ۔ بسا اوقات قدرت بھی مزاح نگار کی زندگی میں کچھ ایسے حالات پیدا کردیتی ہے کہ مزاح نگار کے قول اور فعل میں تضاد نظر آنے لگتا ہے ۔ ہمارے اکبر الہ آبادی کو ہی لیجئے ۔ زندگی بھر وہ سرسید احمد خاں کی تحریک کی مخالفت میں انگریزی تہذیب و تمدن کا مذاق اڑاتے رہے لیکن بعد میں خود ان کے بیٹے عشرت حسین اعلی تعلیم کے حصول کے لئے نہ صرف انگلستان گئے بلکہ واپسی میں ایک میم کوبھی ساتھ لیتے آئے ۔ کہتے ہیں کہ عشرت حسین خود اپنے والد یعنی اکبر الہ آبادی سے فاصلہ قائم رکھنے کی کوشش کرتے تھے اور اپنے دوستوں سے اکبر الہ آبادی کا تعارف نہیں کراتے تھے ۔ ایک بار عشرت حسین کے کچھ احباب ایسے وقت گھر آگئے جب اکبر الہ آبادی عشرت حسین کے ڈرائنگ روم میں بیٹھے ہوئے تھے ۔ عشرت حسین نے بوکھلاہٹ میں اپنے احباب سے اکبر الہ آبادی کا تعارف یوں کرایا ’’یہ بزرگ ہمارے فیملی فرینڈ یعنی خاندان کے دوست ہیں‘‘ ۔ اس پر اکبر الہ آبادی نے بہ آواز بلند کہا ’’جی نہیں ! میں ان کی فیملی کا نہیں بلکہ ان کی والدہ کا دوست ہوں‘‘ ۔