مطالبۂ طلاق پر شوہر کا ’’تم نے جو مانگا وہ میں نے دے دیا‘‘کہنا

سوال :   زید اور ہندہ کے درمیان نکاح ہوا، اس کے چند دن بعد ہی سے دونوں کے درمیان اختلافات پیدا ہوگئے ۔ ہندہ نے کئی مرتبہ طلاق کا مطالبہ کیا لیکن زید نے طلاق دینے سے انکار کیا بالآخر ہندہ نے اپنے شوہر زید سے یہ کہا کہ ’’ اگر تم … مجھے طلاق دیدو گے ‘‘ زید نے جواباً کہا کہ ’’ تم نے جو مانگا وہ میں نے دیدیا ، ہندہ نے اپنے شوہر زید سے اس کے بعد علحدگی اختیار کرلی اور یہ کہی کہ طلاق واقع ہوچکی ہے ۔ اب میں زید کے ساتھ نہیں رہ سکتی۔ لیکن زید کا کہنا ہے کہ میں نے طلاق نہیں دی۔ مذکورہ واقعہ کے کوئی گواہ نہیں۔ ایسی صورت میں شریعت کا کیا حکم ہے ؟
نام مخفی
جواب :  ہندہ کے مذکورہ در سوال کلام پر متصل اگر جواب میں زید نے مذکورہ در سوال کلام کہا ہے اور مذکورہ کلام جواباً کہنے کا اس کو اقرار ہے تو اس سے طلاق واقع ہوچکی۔ زید کے کلام’’ میں نے طلاق نہیں دی‘‘ کا اس صورت میں شرعاً کوئی اعتبار نہ ہوگا۔ اگر زید کو ہندہ کے کلام پر مذکورہ در سوال جوابی کلام کہنے سے انکار ہے تو ہندہ پر لازم ہوگا کہ وہ اس پر ثبوتِ شرعی یعنی دو مرد یا ایک مرد دو عورتوں کی گواہی پیش کرے۔ ہندہ گواہی پیش نہ کرسکے تو قاضی شوہر زید کو اس کے انکار پر حلف دلائے۔ اگر وہ حلف اٹھالے تو دونوں میں تعلق نکاح باقی رہے گا ۔ رجل حصل بینہ و بین صھرہ مشاجرۃ و مناقشۃ فادعت زوجۃ بأن طلقھا عنادا مع زوجھا فأنکر دعواھا فھل اذا لم تقم علیہ بینۃ بالطلاق یکون القول قولہ مع یمینہ فی عدم الطلاق المدعی بہ و علیھا طاعتہ ؟ (أجاب) القول للزوج بیمینہ حیث لا بینۃ للزوجۃ علی دعواھا الطلاق۔ اگر زوج حلف نہ اٹھائے اور حلف اٹھانے سے انکار کرے تو طلاق واقع ہوجائے گی ۔
اولاد پر ماںباپ کے نفقہ کا مساوی طور پروجوب
سوال :   والدین عمر رسیدہ ہوگئے ہیں اور آمدنی کا ذریعہ بھی کچھ نہیں ہے ۔ ایسی صورت میں ان کی کفالت کی ذمہ داری کس پر ہوگی جبکہ لڑکے موجود ہیں ؟
افروزاحمد، شبلی گنج
جواب :  ماں باپ اگر ضعیف ہوں اور ذریعہ معاش کچھ نہ ہو تو لڑکوں پر ماں باپ کا نفقہ اور ان کی ضروریات کی تکمیل مساوی مساوی واجب ہے ۔ اگر ایک زیادہ خوشحال ہو اور دوسرا جز معاش ہو تو دونوں اپنی اپنی حیثیت سے ماں باپ کا تعاون کریں۔ فتاوی عالمگیری جلد اول کتاب النفقات ص : 564 میں ہے  : ویجبر الولد الموسیٰ علی نفقۃ الأبوین المعسرین … وان کان للفقیر ابنان احدھما فائق فی الغنی والآخر یملک نصابا کانت النفقۃ علیھما علی السواء … قال شمس الأ ئمۃ قال مشایخنار حمھم اللہ … اذا تفاوتا تفاوتاً فاحشا فیجب ان یتفاوتا فی قدر النفقۃ  کذا فی الذخیرۃ ۔
جنازہ لیجاتے وقت آہستہ ذکر کرنا
سوال :  عموماً نماز جنازہ کے لئے وقت باقی رہے تو لوگ گفتگو کرتے ہیں اور قبرستان میں میت کے قریبی عزیز و اقارب میں تدفین میں مصروف رہتے ہیں اور دیگر رشتہ دار و احباب باتیں کرتے رہتے ہیں، وہ بھی دنیا کی باتیں کرتے ہیں۔
آپ سے معلوم کرنا یہ ہے کہ ایسے وقت میں ہمیں کیا کرنا چاہئے ۔ کوئی خاص  ذکر اس وقت مسنون ہے تو بیان کیجئے
عبدالشکور، کالا پتھر
جواب :  نماز جنازہ میں شرکت کرنا تدفین میں شریک رہنا موجب اجر و ثواب ہے۔ اس طرح کسی کا انتقال کرجانا دنیا کی بے ثباتی پر دلالت کرتا ہے کہ ایک دن ہمیں بھی اس دنیا سے رخصت ہونا ہے اور ہمارے بدن میں موجود ہماری روح اس بدن کو چھوڑ کر روانہ ہوجائے گی ، پھر اس جسم میں کوئی حس و حرکت باقی نہیں رہے گی اور وہ شخص جو ماں باپ کا منظور نظر تھا اولاد کا محبوب تھا، دوست احباب کا ہردلعزیز تھا، وہی ماں باپ ، اولاد ، دوست و احباب اس کے بے جان جسم کو جلد سے جلد زمین کے نیچے کرنے کی فکر کریں گے اور اس کے بعد کے منازل اس کو اکیلے ، تنہا طئے کرنے ہوں گے ۔ اس کے ماں باپ ، اولاد ، دوست و احباب ، رشتہ دار قبر تک ساتھ آئیں گے، پھر واپس چلے جائیں گے۔ قبر میں تنہا چھوڑ جائیں گے۔ نہ کوئی دوست ہوگا اور نہ کوئی مونس پاس ہوگا ۔ پس وہ ہوگا ، اس کے اعمال ہوں گے اور خدا کا فضل ہوگا۔ اسی بناء پر نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے زیارت قبور کی ترغیب دی کیونکہ اس سے آخرت کی یاد اور دنیا سے بے رغبتی پیدا ہوتی ہے ۔ بناء بریں حاشیتہ الطحطاوی علی مراقی الفلاح ص : 401 میں ہے : جنازہ کے ساتھ جانے والے کے لئے مستحب ہے کہ وہ اللہ تعالیٰ کے ذکر میں مشغول رہے اور غور و فکر کرے کہ میت کو کیا حالات درپیش ہوں گے اور اس دنیا کے انجام و نتیجہ پر  غور کرے اور اس موقعہ پر بالخصوص  لا یعنی ، بے فائدہ گفتگو سے بچنا چاہئے کیونکہ یہ ذکر و شغل اور نصیحت حاصل کرنے کا وقت ہے۔ اس لئے آہستہ ذ کر کرے بلند آواز سے ذکر نہ کرے اور ایسے وقت میں غافل رہنا نہایت بری بات ہے اور اگر وہ ذکر نہ کرے تو اس کو خاموش رہنا چاہئے ۔ وفی السراج یستحب لمن تبع الجنازۃ ان یکون مشغولا بذکر اللہ تعالیٰ والتفکر فیما یلقاہ ا لمیت وان ھذا عاقبۃ أھل الدنیا ولیحذر عمالا فائدۃ فیہ من الکلام فان ھذا وقت ذکر و موعظۃ فتقبح فیہ الغفلۃ فان لم یذکراللہ تعالیٰ فلیلزم الصمت ولا یرفع صوتہ بالقراء ۃ ولا بالذکر
بلا ضرورت لاؤڈاسپیکر کا استعمال
سوال :  آج کل مساجد میں بیرونی لاوڈ اسپیکر سے قرات کی جاتی ہیں اور رمضان کے آخری عشرہ میں تہجد کی نماز میں بھی بیرونی لاوڈ اسپیکر سے قرات کی جاتی ہیں جس کی آواز سارے محلہ میں گونجتی ہیں۔ کیا اس طرح سے تلاوت قرآن کرنا ٹھیک ہے، کیا یہ عظمت قرآن کے خلاف نہیں کیا یہ جائز ہیں ؟
نام …
جواب :  جب قرآن کی تلاوت کی جائے تو خاموش رہنا اور پوری توجہ سے سننا لازم ہے۔ تلاوت قرآن مجید کے لئے لاؤڈ اسپیکر کا استعمال اس وقت ناگزیر ہے جبکہ حاضرین کو فطری آواز نہ پہنچتی ہو۔ مسجد کے باہر کاروبار یا دیگر مصروفیات میں مشغول حضرات کو سنانے کی چنداں ضرورت نہیں۔ اس سے قرآن مجید کی توہین و بے ادبی ہوتی ہے ۔ اس لئے دمہ دار اصحاب کو چاہئے کہ مسجد کے بیرون لاوڈ اسپیکر کا استعمال نماز تہجد اور تلاوت قرآن کے لئے نہ کریں ورنہ بیرون مسجد مشغول حضرات کی بے توجہی کے وہی ذمہ دار رہیں گے۔
نرینہ اولاد نہ ہوتو جائیداد کی تقسیم کا مسئلہ
سوال :   میرا نام ہندہ ہے م یرے والد کا نام عبداللہ ہے۔ میرے دادا اور دادی کا انتقال ہوگیا۔ اور میرے والد کو ملاکر چار لڑکے اور دو لڑکیاں ہے اور ان کا ایک مکان تھا۔ دادا اور دادی کے انتقال کے بعد میرے والد اور ان کے تین بھائی اور دو بہن شرعی اعتبار سے آپس میں اور اپنے پورے ہوش و حواس میں رہ کر ان سب لوگوں نے اس مکان میں حصہ داری کرچکے۔
(1  میرے والد کے حق میں جو حصہ آیا کیا میرے والدین کی زندگی کے بعد کیا یہ حصہ خالص میرے حق میں ہوگا یا پھر دوبارہ ان میں تقسیم ہوگا ؟
(2  اس کے علاوہ میرے والدین کے اپنی ذاتی صرفہ کی جائیداد ہے پھر میرے والدین کے زندگی کے بعد کیا اس جائیداد پر پورا حق میرا ہے یا پھر میرے والدین کے بھائی بہن کا بھی کچھ شرعی اعتبار سے حق ہے کیا ؟ کیونکہ میرے والدین کو میرے علاوہ کوئی اور اولاد نہیں ؟
(3  اس کے لئے میرے والدین اپنی زندگی میں دو گواہوں کے روبرو اسٹامپ پیپر پر وصیت لکھ کر رکھ دیں تو کیا شرعی اعتبار سے قبول ہوگا ؟
(4 اس کے علاوہ میرے والدین میرے نام پر یا پھر میری اولاد کے نام پر وصیت نامہ یا ہبہ نامہ لکھ سکتے ہیں یا نہیں شرعی مسئلہ سے ؟
ایک بیٹی
جواب :  صورتِ مسئول عنہا میں عبداللہ اور ان کی بیوی کو نرینہ اولاد نہ ہونے کی وجہ ان دونوں کے انتقال پر ہر ایک کی جائیداد سے لڑکی کو نصف ملے گا، باقی نصف ان دونوں (ماں باپ) کے جو وارث ہوں گے ان میں حسب حصص شرعی تقسیم ہوگا۔ وارث کے حق میں وصیت کی جائے تو اس کا نفاذ ، مورث کی وفات کے بعد موجود ورثہ کی رضامندی پر موقوف رہے گا ۔ اگر ورثہ راضی ہوں تو نافذ ہوگی ورنہ نہیں۔ اس لئے عبداللہ کی وفات کے بعد موجود ورثہ کی رضامندی پر لڑکی جائیداد پائے گی، نارض ہوں تو حصہ رسدی پائے گی۔
زندگی میں عبداللہ اور ان کی اہلیہ اپنی کل جائیداد سے اپنا قبضہ ہٹاکر لڑکی کو ہبہ کر کے اس کے قبضہ و تصرف میں دیدیں تو وہ جائیداد قبضہ کے ساتھ ہی لڑکی کی ملک ہوجائے گی۔ تاہم اپنے حقیقی ورثہ کو محروم کرنے کی نیت سے یہ عمل کیا جارہا ہے تو لڑکی تو مالک ہوگی لیکن دینے والے گنہگار ہوں گے۔
طویل سزائے قید سے کیا نکاح ٹوٹتا ہے
سوال :  ایک لڑکی کا نکاح ہوا، نکاح سے قبل لڑکے کا کیس چل رہا تھا، شادی کے چھ ماہ بعد اس لڑکے کو بارہ سال کی سزا ہوئی ۔ دریافت طلب مسئلہ یہ ہے کہ مذکورہ بالا سزا کی وجہ سے رشتہ نکاح باقی رہتاہے یا نہیں اور اگر اس کی بیوی دوسرا نکاح کرنا چاہے تو اسلام میں اس کے لئے کیا حکم ہے ؟
محمد صادق ، ملک پیٹ
جواب :  شریعت اسلامی میں جب ایک مرتبہ نکاح منعقد ہوتا ہے تو بیوی اپنے شوہر کی زوجیت سے کبھی خارج نہیں ہوتی، تاوقتیکہ شوہر اسکو طلاق دے یا وہ خلع حاصل کرے یا شوہر انتقال کرجائے۔ دریافت شدہ مسئلہ میں بارہ سال کی سزا سے رشتہ نکاح ختم نہیں ہوتا، بیوی کو چاہئے کہ وہ سزا پانے والے شوہر سے طلاق یا خلع کا مطالبہ کرے اور بعد طلاق یا خلع، عدت گزرنے کے بعد وہ دوسرا نکاح کرسکتی ہے ۔ اس کی اور ایک صورت یہ ہیکہ اگر وہ اپنی معاشی مجبوریات میں مبتلا ہو اور کوئی ذریعہ معاش نہ رکھتی ہو تو ایسی صورت میں مسلم حاکم عدالت کے پاس فسخ نکاح کی درخواست پیش کرے اگر مسلم حاکم عدالت اس کا نکاح فسخ کردے تو نکاح فسخ ہوجائے گا اور وہ دوسرا نکاح کرسکتی ہے۔ انقطاع زوجیت و انقضاء عدت کے بغیر دوسرے شخص سے نکاح کرنا حرام ہے۔ رد المحتار ج : 2 ص : 623 باب العدۃ میں البحرالرائق سے منقول ہے۔ ’’ اما نکاح منکوحۃ الغیر و معتدتہ … لانہ لم یقل احد بجوازہ فلم ینعقد اصلا۔ عالمگیری ج : 1 ص : 28 میں ہے ’’ لا یجوز للرجل ان یتزوح زوجۃ غیرہ‘‘۔
صلوٰۃ التسبیح کی جماعت
سوال :  کیا فرماتے ہیں علماء دین اس مسئلہ میں متبرک راتوں جیسے شب معراج ، شب براء ت اور شب قدر میں ا کثر مساجد میں صلوٰۃ التسبیح باجماعت کا اہتمام کیا جانا ہے ۔ کیا صلوٰۃ التسبیح باجماعت پڑھنا جائز ہے ؟
حافظ سید عزیزالدین، سید علی چبوترہ
جواب : احناف کے پاس جماعت صرف فرائض اور رمضان المبارک میں نماز تراویح و تہجد اور واجب الوتر کیلئے مشروع ہے۔ صلوٰۃ التسبیح چونکہ نفل نماز ہے ، نفل نماز کی جماعت مشروع نہیں تنہا ہی ادا کرنا چاہئے۔