مضبوط عدلیہ ہردم چاک و چوبند میڈیا

تلنگانہ / اے پی ڈائری خیراللہ بیگ
تلنگانہ میں دن بہ دن جوان ہوتی ہوئی ٹی آر ایس حکومت توانا اور باہمت بھی ہورہی ہے۔ اس پر ریاست کی اقلیت کی فریاد کا اثر نہیں ہورہا ہے۔ مضبوط عدلیہ اور ہر دم چاک و چوبند اردو میڈیا کی موجودگی کے باوجود بنیادی انسانی حقوق کا یہ عالم ہے کہ مسلم محلوں سے نوجوانوں کے جنازے اٹھتے ہیں تو حکومت آہ تک نہیں کرتی جبکہ سیاسی گلیوں میں اپنے نوجوان سیاستدانوں کو پروان چڑھانے کے لئے کوئی موقع ضائع ہونے نہیں دیتے۔ انکائونٹر کے ذریعہ نوجوانوں کو موت کے گھاٹ اتارنے والی حکومتوں کے سپوتوں کو دو تلگو ریاستوں کا آئندہ کا سربراہ بنانے کی تیاریاں بھی ان کی نعشوں پر کھڑے ہوکر ہورہی ہیں۔ آندھراپردیش میں تلگودیشم حکومت کو چتور انکائونٹر کے تعلق سے شدید تنقیدوں کا سامنا ہے اور تلنگانہ کی حکومت کو 5 مسلم نوجوانوں کے فرضی انکائونٹر پر ندامت نہیں ہے مگر دونوں تلگو ریاستوں کے نوجوان قائدین کو سیاسی افق پر چمکانے میں معروف ان کے سرپرستوں نے کوئی کسر نہیں چھوڑی ہے۔ آندھرا پردیش میں چندرا بابو نائیڈو کے فرزند لوکیش اور تلنگانہ میں ٹی آر ایس سربراہ کے فرزند کے ٹی راما رائو کو 2019 ء کے عام اسمبلی انتخابات پر غالب آنے کے لئے کوشش ہورہی ہیں۔ چندرا بابو نائیڈو کے فرزند نارا لوکیش کو آندھرا کی سیاست کے ساتھ ساتھ تلنگانہ کی سیاست میں بھی سرگرم رکھا جارہا ہے جبکہ امریکہ سے تعلیم یافتہ کے سی آر کے فرزند کے ٹی راما رائو نمبر 2 کے لئے بن کر ابھررہے ہیں اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ اے پی میں این ٹی راما رائو کے پوترے جونیئر این ٹی آر اور تلنگانہ میں چندرا شیکھر رائو کے بھانجہ ہریش رائو کو کنارہ کردیا گیا ہے۔ ہریش رائو اور جونیئر این ٹی راما رائو نے ہر دو پارٹیوں کے لئے کام کیا ہے خاص کر ہریش رائو نے گزشتہ 10 سال کی تلنگانہ تحریک میں اپنے ماموں کے سی آر کے شانہ بہ شانہ چل کر پارٹی اور تحریک کو مضبوط بنایا تھا۔ جب تلنگانہ تحریک عروج پر تھی تب کے سی آر کے دونوں بچے کے ٹی راما رائو اور کویتا امریکہ میں تھے اب یہی دونوں ٹی آر ایس کے اہم کرتا دھرتا بن گئے ہیں۔

ایسے میں ہریش رائو کا سیاسی مستقبل ناراضگیوں کی موج سے ٹکراکر نئی لہر پیدا کرسکتا ہے اور وہ اپنی علیحدہ سیاسی طاقت بناسکتے ہیں۔ آندھرا میں ایک اور نوجوان وائی ایس جگن موہن ریڈی کو ابھرنے سے پہلے ہی کچل دینے کی ہر ممکنہ کوشش کی گئی تھی اور انہیں مقدمات کا سامنا ہے اس لئے وہ اپنی سیاسی قوت کو پوری طرح کیاش نہیں کراسکے۔ یہی کیفیت مسلمانوں کی ہے، اپنے ووٹ کی طاقت رکھنے کے باوجود حکومت سے اپنے مطالبہ کو پورا نہیں کراسکے۔ اگر مسلمانوں کا دوست اس ریاست کا چیف منسٹر یا بااختیار شخص ہوتا تو وہ اپنے نوجوانوں کی موت کا انتقام لینے حقیقی مظاہرہ کرتے۔ ان کے سامنے پیش آنے والا واقعہ کسی ہندوستانی فلم کی کہانی نہیں تھا جس میں امیتابھ بچن یا سلمان خان جیسے ہیرو ظالم کے خلاف انتقام لینے میدان میں اتر جاتے۔ سیاسی آدرش اور طریقہ کار کے انتخاب میں بھی مسلمانوں کا چلن کچھ ایسا ہی ہے کہ ذرا سی لیڈر کی دھمکی یا پولیس کی پھٹکار پر دب کر چپ ہوجاتے ہیں لیکن ان مسلم قائدین کے جوش و جذبہ کو سلام جو اپنے بل میں جلسے کرکے غراتے ہیں۔ ان کی محنت جلسوں کے شرکاء کی ہمت و استقامت اور بے پناہ خلوص نتیجہ خیز نہ سہی کچھ تو حرکت ہوتی ہے۔ اس کے باوجود حکومت نے سی بی آئی تحقیقات کا فیصلہ نہیں کیا۔ جب مسلم طبقہ کا بڑا حصہ آئی پی ایل میاچس میں مگن ہو تو حکومت اور ان کے نام نہاد قائدین کو مسلمانوں کے خلاف سازش کرنے کا موقع مل ہی جاتا ہے۔ جب کرکٹ میاچس ختم ہوتے ہیں تو ان کے خلاف کی گئی سازشوں کا پتہ چلتا ہے اور کوئی مسلم نوجوان کی پولیس کی بندوق کا شکار یا جیل کی نذر ہوجاتا ہے۔ مسلمانوں کی معیشت یوں ہی رینگتی رہتی ہے۔ آئی پی ایل میاچس کے نظارے میں گم طبقہ کے لوگ چیر گرلز کی جلوہ افروزی سے اپنی آنکھیں تھنڈی کرتے ہیں کرکٹ کے نام پر بے حیائی کو فروغ دینے والی ان بڑی بڑی دولت مند شخصیتوں کو یہ احساس ہی نہیں ہے کہ اس ملک میں حیاء شرم تہذیب و اخلاق کا اپنا معیار ہے۔

تہذیب ہم نے اپنے بزرگوں کی چھوڑدی
پھر یہ ہوا کہ شرم و حیا لے گئی ہوا
کرکٹ کھلاڑیوں کی دلجوئی کے لئے نیم عریاں لڑکیوں کے جھنڈ کو چھوڑا جاتا ہے تو سارے ملک کے ٹی وی اسکرینس پر یہ مناظر دیکھنے والے شریف عوام اپنے اطراف ہونے والی خرابیوں، زیادتیوں نا انصافیوں اور حکمرانوں کی دھاندلیوں کا کس طرح نوٹ لیں گے۔ اس میں یہ سوال بھی وضاحت طلب ہے کہ حکومت کے کردار کا دائرہ کار کیا ہوگا اور آئی پی ایل میاچس میں عریانیت کو ہوا دے کر کیا حاصل کرنا مقصود ہے۔ کیا اس میں یہ مفروضہ کارفرما ہے کہ ہندوستانی تہذیب کی دھجیاں اڑانے کا اختیار اور آزادی دولت مندوں اور سماج کے اعلی طربقہ کو ہے؟ وہ لوگ کہاں گئے جو لوجہاد کے خلاف مہم چلاکر فرقہ پرستی کا زہر گھول رہے ہیں؟ کیا انہیں دولت مند عیش پسند انسانوں کی اس عریاں موج مستی نظر نہیں آتی؟ رام سینا، شیوسینا، بجرنگ دل، وی ایچ پی جیسے ان سماج کے ٹھیکے داروں نے اسے یکسر نظرانداز کردیا ہے یا دولت والوں کے سامنے ان کی بولتی بھی بند ہوگئی ہے۔ برس ہا برس گزر گئے وہی سیاسی، سماجی اور مذہبی ڈھانچہ کے نام پر کبھی روشن خیالی، جدیدیت کے عنوان سے اور کبھی مذہب کے نام پر انسانوں کو لڑایا گیا ہے۔ جو طبقہ رئیس کہلاتا ہے وہ مزے میں عیش کرتا ہے۔ غریب کی گردن روز بہ روز تنگ کردی جاتی ہے۔ جب بھی کوئی اس کے خلاف آواز بلند کرتا ہے تو وہ دہشت گرد کہلاتا ہے یا ملک دشمن بتاکر گولی ماردی جاتی ہے۔
kbaig92@gmail.com