مصر کی عدلیہ اور قانون

سب تھے سنگی ساتھی لیکن
وقت پہ کوئی کام نہ آیا
مصر کی عدلیہ اور قانون
الجزیرہ کے 3 صحافیوں کو 3 سال کی سزا سنانے مصر کی عدالت کے فیصلہ کے بعد صحافت کی آزادی کو عالمی سطح پر دی جانے والی بدترین کارروائیوں میں سے ایک سمجھا جانا چاہئے۔ مغربی ملکوں نے مصر کی عدالت کے فیصلہ کی مذمت کی ہے۔ ان صحافیوں پر الزام ہے کہ انھوں نے ایسی من گھڑت کہانیاں پیش کی تھیں جس سے مصر کے وقار اور اس کی شبیہہ کو نقصان پہونچا۔ صحافت کی آزادی کی آڑ میں اگر کوئی صحافی کسی خبر کو سنسنی خیز بنانے کے لئے من مانی رپورٹنگ کرتا ہے تو یہ صحافت کے اُصولوں کے مغائر ہے۔ مصر کے حالات کی عکاسی کرنے والی رپورٹنگ کو مخالف مقتدر اعلیٰ متصور کرنا بھی حکام کی غلطی ہے۔ ان تینوں صحافیوں نے اپنے پیشہ کے اعتبار سے کام انجام دیا ہے تو ان پر مقدمہ دائرکرکے کارروائی کرنا بھی انصاف رسانی کے حق کو چھین لینے کا کام کہا جائے گا۔ مصر کی عدالت نے الجزیرہ سے وابستہ 3 صحافیوں کینیڈا کے شہری محمد فہمی، مصر کے پروڈیوسر بہار محمد اور آسٹریلیا کے صحافی پیٹر گریسٹے کو سزا دیئے جانے پر صحافت کے بنیادی اصولوں پر عمل کرنے والوں کا ردعمل درست ہے۔ اس طرح کی سزا کا فیصلہ کرنے سے قانون کی حکمرانی پر عوام کا اعتماد متزلزل ہوجائے گا۔ مصر کی عدالت نے اخوان المسلمین کی حمایت کرنے کے الزام میں الجزیرہ چیانل کے صحافیوں کو قید میں ڈال دیا۔ مصر میں حالیہ برسوں میں جن طاقتوں نے اخوان المسلمین کی حکمرانی کو بیدخل کرکے صدر مرسی کو جیل کی سلاخوں کے پیچھے ڈھکیلا اور اخوان المسلمین کے سینکڑوں کارکنوں کو سزا دے کر مصر کے اندر ایک جنونی حکمرانی کا لیبل لگنے والی کارروائیاں انجام دی گئیں اس سے ساری دنیا میں مصر کی حکومت اور عدلیہ کی یکطرفہ کارروائیوں پر افسوس کا اظہار کیا جارہا تھا۔ طاقت اور اختیارات کے بل بوتے پر کسی کو زیر کرنا اور انھیں اذیت ناک زندگی گزارنے کے لئے مجبور کرنا انصاف کا گلہ گھونٹ دینے کے مترادف متصور ہوتا ہے۔ الجزیرہ ٹی وی چیانل نے مصر کے حالات پر جس طرح کی رپورٹنگ کی اس کو مصر کے اندر مخصوص سیاسی گوشوں نے پسند نہیں کیا ہے تو اس کا مطلب یہ نہیں کہ وہ سیاسی طاقت اپنے اختیارات کا بے جا استعمال کرکے انتقام کا راستہ اختیار کرتے ہیں تو اس کے خلاف عالمی سطح پر احتجاج ہونا فطری بات ہے۔ اقوام متحدہ اور انسانی حقوق کی تنظیموں نے مصر کی عدالت کے فیصلہ پر اپنے تحفظات کا اظہار کیا ہے۔ یہ آزادیٔ صحافت پر ایک اور دانستہ حملہ ہے تو عدالتی فیصلہ پر صدمہ کا اظہار کرنے کے ساتھ مستقبل میں ایسے واقعات کا تدارک کرنے کے لئے اقوام متحدہ اور انسانی حقوق کی تنظیموں کو مضبوط لائحہ عمل تیار کرنا ہوگا۔ گزشتہ سال جولائی 2014 ء میں بھی ان تین صحافیوں کو سزائیں سنائی گئی تھیں لیکن جاریہ سال جنوری میں ان کی سزائیں واپس لی گئیں۔ فبروری تک وہ مقدمہ کی سماعت کے لئے آزاد تھے لیکن بعد میں انھیں قید کرلیا گیا۔ مصر کے موجودہ حالات کا تقاضہ ہے کہ پرامن اقدامات کو ترجیح دی جائے لیکن برسر اقتدار گروپ نے انتقامی کارروائیوں کو پسندیدگی کا درجہ دے کر ساری دنیا میں مصر کی نیک نامی کو دھکہ پہونچایا ہے۔ صدر مصر السیسی کو چاہئے کہ وہ اس طرح کے واقعات پر توجہ دے کر مصر کی شبیہہ کو مزید بگڑنے سے بچائیں۔ صحافت سے وابستہ اداروں افراد کو بھی غلط رپورٹنگ اور جھوٹی خبروں کی اشاعت و نشریات سے گریز کرنے کی ضرورت ہے۔ صحافت کے وقار پر آنچ آنے والی رپورٹنگ سے معاشرہ پر منفی اثرات مرتب ہوتے ہیں۔ الجزیرہ ٹی وی چیانل پر الزام ہے کہ اس نے جھوٹی خبریں پھیلائی تھیں۔ مصر کی عدالت کا فیصلہ اس ملک کی عدلیہ کا داخلی معاملہ ہے تاہم جب کسی بین الاقوامی گروپ کو کسی ملک کی عدلیہ کی جانب سے انصاف کی توہین کرتے ہوئے سزا دی جاتی ہے تو اس پر بین الاقوامی برادری کی جانب سے آواز اٹھانے کی کوشش کو حق بجانب قرار دیا جاسکتا ہے۔مصر کی وزارت خارجہ نے عدالت کے فیصلہ پر تبصرہ کرنے کے خلاف برطانوی سفیر کو طلب کرکے اپنا احتجاج درج کروایا جبکہ مصر کے حالات اور قانون کے استعمال کے مسئلہ پر ساری دنیا میں افسوسناک بحث ہورہی ہے جس سے مصر کی ہی بدنامی ہوگی۔