مشکلیں اتنی پڑیں ہم پر…

میرا کالم             سید امتیاز الدین
صاحبو ہماری ہمیشہ سے یہ خواہش رہی ہے کہ ’میرا کالم‘ ہر بار کسی نئے موضوع پر لکھیں لیکن جس دن سے پانچ سو اور ہزار کے کرنسی نوٹ بند ہوئے ہیں، سوتے جاگتے ہم کو انہی منسوخ شدہ نوٹوں کا خیال آتا رہتا ہے۔ شاید ہم کو اُن نوٹوں کا خیال نہ بھی آتا لیکن جس بھونڈے طریقے سے نئے نوٹوں کا انتظام کیا جارہا ہے یا کئے جانے کا ہر روز ایک نیا وعدہ کیا جارہا ہے اس سے طبیعت وحشت زدہ ہوتی جارہی ہے۔ آپ نے اخبارات و رسائل میں کسی بڑے ادیب شاعر یا قومی رہ نما کے انتقال پر مختلف لوگوں کے تعزیتی بیانات پڑھے ہوں گے۔ ایک جملہ تقریباً تمام لوگ لکھتے ہیں۔ مرحوم کے انتقال سے ہماری ادبی ، سماجی ، قومی زندگی میں جو خلاء پیدا ہوا ہے وہ برسوں تک پر نہیں ہوسکے گا ۔نوٹ بندی کے اس زمانہ میں ہر شخص یہ کہہ رہا ہے کہ پانچ سو اور ایک ہزار کے نوٹوں کے انتقال سے ہماری روز مرہ کی زندگی میں جو خلاء پیدا ہوا ہے وہ برسوں بلکہ صدیوں تک پر نہیں ہوگا ۔ ہم نے تو یہاں تک سنا ہے کہ بعض دور اندیش بزرگ اپنے لواحقین کو یہ وصیت کر رہے ہیں کہ اگر اس سرکاری طور پر عائد کردہ مفلسی کے زمانے میں ہم دنیا سے گزرجائیں تو سکندراعظم کی طرح ہمارے خالی ہاتھ کفن سے باہر نکلے ہوئے رکھے جائیں تاکہ کوئی ہم پر یہ تہمت نہ لگائے کہ مرحوم آخری بار اے ٹی ایم سے دو ہزار روپئے نکالنے میں کامیاب ہوئے تھے اور اسی خوشی میں انتقال کر گئے۔

آج کل چوطرف قطاروں کا سلسلہ سا لگا ہوا ہے ۔ ہم اکثر سوچتے ہیں کہ دفاتر میں حاضری کا کیا حال ہوگا ۔ ہر شخص اپنی کرسی سے غائب اور بینک میں حاضری دے رہا ہے۔ ہم کو وظیفے پر سبکدوش ہوئے پندرہ سال سے زائد ہوچکے ہیں لیکن آج کل ہم ہر روز اپنے سابقہ دفتر کے چکر کاٹ رہے ہیں کیونکہ ہم کو اپنے ہی بینک کی اس برانچ سے پیسہ نکالنا پڑتا ہے جو ہمارے دفتر کے احاطے میں واقع ہے ۔ بینک کے باب الداخلہ پر تین قطاریں لگتی ہیں ۔ ایک قطار خواتین کی ایک مردوںکی اور ایک وظیفہ یابوں کی جن کا شمار بوڑھوں میں ہوتا ہے ۔ اس قطار میں خواتین اور مرد دونوں شامل ہوتے ہیں۔ دفتر کے سیکوریٹی گارڈس ٹریفک کنٹرول کرتے ہیںاور اس بات کا خیال رکھتے ہیں کہ ضعیف العمر خواتین و حضرات دھکوں کی وجہ سے روندے جانے سے محفوظ رہیں۔ ہم خود اپنے حصے کے چار ہزار روپئے اور اپنی جان ہتھیلی پر لے کر جب قطار سے باہر آتے ہیں تو اللہ کا شکر ادا کرتے ہیں کہ زندہ سلامت باہر نکلے۔

ایک زمانہ تھا کہ بینکرس اپنی ایمانداری کیلئے مشہور تھے ۔ ہم کو آج سے کوئی تیس (30) پینتیس (35) سال پہلے کا ایک قصہ یاد آرہا ہے ۔ عید کا موقع تھا ۔ ہمارا لڑکا تیسری یا چوتھی جماعت میں تھا ۔ اسے نانا ، نانی اور تایاؤں نے اچھی خاصی عیدی دے دی تھی ۔ تقریباً دو ڈھائی سو روپئے اس کے پاس جمع ہوگئے تھے ۔ ہمارے گھر سے قریب ایک بینک تھا ۔ اُن کے پاس بچوں میں کفایت شعاری کا شوق پیدا کرنے کیلئے ایک اسکیم تھی ۔ اگر آپ بچے کے نام سے اکاؤنٹ کھولیں تو بینک غلک نما ایک خوبصورت ڈبہ دیتا تھا جس میں بچے اپنے پیسے جمع کرتے تھے اور جب قابل لحاظ رقم جمع ہوجاتی تو اس کو بینک بچے کے اکاؤنٹ میں جمع کردیتا تھا ۔ اس اسکیم کو کڈی بینک Kiddy Bank کہا جاتا تھا ۔ ہم نے بچے کیلئے یہ اکاؤنٹ کھولنا چاہا ۔ بچے کو ساتھ لے کر اس کی عیدی کی رقم کے ساتھ بینک کو گئے ۔ اس وقت تک بینک بند ہوچکا تھا ۔ بینک مینجر دو تین کلرکوں کے ساتھ حساب کتاب دیکھ رہا تھا ۔ مینجر نے معذوری ظاہر کی کہ کام کے اوقات ختم ہوچکے ہیں، آپ کل آیئے ۔ ہم نے اُس سے کہا کہ ہم کو دفتر سے آنے تک روز یہی وقت ہوتا ہے ۔ آپ اس رقم کو رکھ لیجئے ۔ دو تین دن بعد میں دفتر سے واپسی پر پاس بک لے لوں گا۔ مینجر نے بڑی مشکل سے میری بات مانی اور مجھ سے فارم کی خانہ پری کرواکر رقم اپنے پاس رکھ لی ۔ اتفاق سے چار پانچ دن گزر گئے اور ہم پاس بک لینے کیلئے جاہی نہیں سکے۔ پانچ دن کے بعد بینک مینجر فارم پر لکھے ہوئے پتے کی مدد سے صبح ساڑھے نو بجے خود ہمارے گھر آگیا اور پاس بک ہمارے حوالے کی۔ اس نے کہا کہ میں کسی کسٹمر سے بغیر رسید اور پاس بک جاری کئے نقد رقم نہیں لیتا۔ آپ حسب وعدہ پاس بک لینے کیلئے نہیں آئے ۔ میں پریشان تھا ۔ اس لئے خود آگیا ۔ ہم پر اس بینک مینجر کی فرض شناسی کا نقش ہمیشہ کیلئے بیٹھ گیا ۔ آج ہم بعض بینک مینجروں کی دیدہ دلیری کے قصے اخباروں میں پڑھ رہے ہیں تو ہماری آنکھیں کھلی کی کھلی رہ جاتی ہیں۔ کئی بینک عہدیدار لاکھوں کروڑوں روپوں کے پرانے نوٹوں کے عوض نئے نوٹوں کے کاروبار میں لگے ہوئے ہیں ۔ ایک سابق مینجر صاحب نے اپنی قیمتی جان بچانے کیلئے ساڑھے تین کروڑ روپئے جو عوامی ملکیت تھے ایک غنڈے کے حوالے کردیئے جو اب اس دنیا میں نہیں ہے ۔ بینک کے ذریعہ کروڑوں روپئے کی ہیرا پھیری اب تقریباً روز کی بات ہوگئی ہے ۔ ایک عام شہری اپنی پسینے کی کمائی بینک میں یہ سوچ کر رکھتا ہے کہ اس کا پیسہ چوری چکاری سے محفوظ رہے گا لیکن اگر بینک میں بھی پیسہ محفوظ نہ رہے تو پھر کہاں محفوظ رہے گا۔

نوٹوں کی قلت دور کرنے کیلئے ہم نے ٹی وی پر ایک ڈاکٹومنٹری دیکھی تھی کہ ملک میں نوٹ چھاپنے کے چار پانچ پریس ہیں جہاں چوبیس گھنٹے کام چل رہا ہے ۔ دو چار دن پہلے ہم نے اخبار میں پڑھا کہ نوٹ چھاپنے کی روشنائی ختم ہوگئی ہے ۔ اس پر ہمیں اردو کے مشہور مزاح نگار شوکت تھانوی کا ایک انشائیہ سودیشی ریل یاد آگیا۔ شوکت تھانوی نے انشائیہ میں لکھا ہے کہ ٹرین میں مسافر ین بیٹھ جاتے ہیں لیکن ٹرین چلنے کا نام نہیں لیتی ۔ معلوم ہوتا ہے کہ للو فائرمین کوئلہ لانے کیلئے گیا ہے ۔ کافی دیر کے بعد للو فائرمین سر پر کوئلہ کا تھیلہ لئے ہوئے آتا ہے اور انجن ڈرائیور کو ڈانٹتا ہے ۔ آئندہ سے کویلہ دن سے منگاکر رکھ لو۔ رات ہونے کی وجہ سے میں کوئلے کے تھیلے کے ساتھ ایک گڑھے میں گر گیا ۔ ہاتھ پاؤں چھل گئے ۔ جب 125 کروڑ کی آبادی کیلئے جنگی بنیادوں پر کر نسی نوٹ چھاپے جارہے ہوں اور روشنائی ختم ہوجائے تو کیا اسے حسن انتظام کہا جائے گا۔

جس ملک میں آبادی کا بہت بڑا حصہ پڑھا لکھا  نہیں اور موبائیل فون کے استعمال سے یکسر ناواقف ہے وہاں Cashless Economy کا خواب دیکھنا بھی بالکل عجیب لگتا ہے ۔ آج ہی ہم نے اخبار میں ایک سافٹ ویر کمپنی کی طرف سے دی ہوئی اطلاع پڑھی کہ یہ تجربہ کامیاب نہیں رہے گا۔ ہم اپنا شمار بھی تھوڑے بہت پڑھے لکھے لوگوں میں کرتے ہیں لیکن ہم سے موبائیل فون پر کس کا نمبر ملاتے ہوئے غلطیاں ہوجاتی ہیں۔ اگر ہم الیکٹرانک طریقہ سے رقم ٹرانسفر کرتے ہوئے کوئی فاش غلطی کر بیٹھیں تو ہماری اکانومی Hopeless Economy بن جاسکتی ہے۔
ان تمام باتوں کے باوجود لوگ اب بھی صبر و تحمل سے کام لے رہے ہیں اور تھوڑی بہت رقم جو بینک سے مل رہی ہے اسی کو غنیمت جان کر گزارا کر رہے ہیں۔ ابھی کل ہم نے ٹی وی میں دیکھا کہ اسٹیٹ بینک آف انڈیا کے ملازمین نے ممبئی ، بھوپال ، لکھنو وغیرہ میں احتجاجی ریالیاں کی ہیں کہ انہیں خاطر خواہ رقم نہیں دی جارہی ہے جس کی وجہ سے کسٹمرس اُن سے سخت ناراض ہیں اور دھمکی دے رہے ہیں کہ ذرا بینک سے باہر نکلو تمہارا کیا حال کریں گے دے کھ لینا ۔ ظاہر ہے کہ یہ کوئی اچھارجحان نہیں ہے ۔ ہم کو یہ سن کر اور بھی تعجب ہوا کہ ہندوستان کے تجربے سے متاثر ہوکر جنوبی امریکہ کا ایک چھوٹا سا ملک ونیزویلا بھی اپنے ملک میں نئی کرنسی رائج کرنا چاہتا ہے کیونکہ وہاں پر جعلی نوٹوں کا کاروبار عروج پر ہے ۔ مسئلہ کا حال نوٹ بندی یا ن وٹوں کی منسوخی میں نہیں، ایمانداری میں ہے ۔ اگر ہم کو ملک سے محبت ہے بلکہ اپنے آپ سے محبت ہے تو ایمانداری کی زندگی گزاریں۔ اسی میں ہماری بھلائی ہے۔