مشرقی یروشلم کے فلسطینیوں پر عرصہ ٔ حیات تنگ کرنے اِسرائیل کا منصوبہ

انفراسٹرکچر ، روزگار، تعلیم اور سماجی بہبود بہتر کرنے پولیس تعیناتی میں اضافہ ، سخت صیانتی انتظامات

یروشلم۔ 30 جون (سیاست ڈاٹ کام) اِسرائیل نے 9 کروڑ امریکی ڈالرس مالیتی سماجی، معاشی، ترقیاتی منصوبے کی الحاق شدہ مشرقی یروشلم کے لئے منظوری دے دی۔ اس منصوبہ کا مرکز توجہ صیانتی انتظامات اور پولیس کی زیادہ تعداد میں تعیناتی ہوگا۔ بلدیہ کے ایک بیان میں کہا گیا ہے کہ منصوبہ کے اہم مقاصد میں سے ایک جس کی منظوری دی گئی ہے، تشدد میں نمایاں انحطاط ،متحدہ سرگرمی کے ذریعہ انفراسٹرکچر، روزگار، تعلیم اور سماجی بہبود میں پائی جانے والی خلیج دُور کرنا اور شخصی صیانت کیلئے نفاذ قانون ارکان عملہ کی زیادہ تعداد میں تعیناتی ہوگا۔ یہ منصوبہ تعینات ملازمین پولیس کی تعداد میں اضافہ کرے گا۔ علاوہ ازیں زیادہ تعداد میں حفاظتی کیمرے نصب کئے جائیں گے۔ اسرائیلی پولیس کے تخمینہ کے بموجب منصوبہ کے نتیجہ میں مختصر اور وسط مدتی تشدد کے واقعات میں 50 فیصد سے زیادہ کمی آئے گی۔ پولیس نے بلدیہ کے اعداد و شمار برائے مارچ و اپریل کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ فوج اور فوجی گاڑیوں پر مشرقی یروشلم میں سنگباری کے 390 واقعات پیش آئے۔ بیسیوں کاریں سرقہ کی گئیں اور ہوٹلوں میں نقب لگائی گئی۔ یہ قومی نوعیت کے جرائم ہیں جن کی ملک کے دیگر علاقوں میں کوئی گنجائش نہیں ہے۔ بنیادی مفروضہ اس منصوبہ کے شہری پہلوؤں کے بارے میں یہ ہے کہ مشرقی یروشلم میں ساکن افراد اس قسم کے جرائم کا ارتکاب کرتے ہیں۔ پڑوسی علاقوں کی بہ نسبت اس علاقہ کا معیار ِ زندگی بھی کمتر ہے چنانچہ اس منصوبہ میں انفراسٹرکچر، نظام تعلیم اور سماجی امداد میں بہتری پیدا کرنا بھی شامل ہے۔ یہ نہیں کہا گیا کہ یہ مقاصد کیسے حاصل کئے جائیں گے۔ بلدیہ کے اعداد و شمار کے بموجب مشرقی یروشلم میں 3 لاکھ 6 ہزار فلسطینی مقیم ہیں جن کا شہری موقف سکونت اختیار کرنے والوں کا ہے، شہریوں کا نہیں، حالانکہ وہ جملہ آبادی کا 38% ہیں۔ اسرائیل نے عرب ممالک کے مشرقی یروشلم پر 1967ء کی 6 روزہ جنگ میں قبضہ کرلیا تھا اور بعدازاں اسے اسرائیل میں ملحق کرلیا۔ بین الاقوامی برادری اس اقدام کو تسلیم نہیں کرتی۔ منصوبہ پورے شہر کو متحدہ اور غیرمنقسم دارالحکومت قرار دیتا ہے لیکن فلسطینی چاہتے ہیں کہ مشرقی یروشلم مجوزہ فلسطینی مملکت کا دارالحکومت بنایا جائے۔ اس طرح اس شہر کا مستقبل تنازعہ کی سب سے بڑی وجہ ہے۔