مشاعرے کل اور آج

میرا کالم              سید امتیاز الدین
ابھی کچھ دن ہوئے ہم نے ایک مشاعرے کی اطلاع اخبار میں پڑھی جو صبح 11 بجے منعقد ہونے والا تھا ۔ پچھلے ہفتے ہم نے ایک مشاعرے میں شرکت کی (بحیثیت سامع) جو مغرب کے بعد شروع ہوا اور پہلے سے طے شدہ پروگرام کے مطابق دو گھنٹے بعد تقریباً دو بجے ختم ہوگیا ۔ مشاعرہ کافی اچھا تھا لیکن ہماری تشفی نہیں ہوئی ۔ نشور واحدی کا ایک شعر ہے
ہے شام ابھی کیا ہے بہکی ہوئی باتیں ہیں
کچھ رات ڈھلے ساقی مئے خانہ سنبھلتا ہے
شاعری اور موسیقی ایسی چیزیں ہیں جن کا صحیح لطف رات میں آتا ہے ۔ ہم نے بعض یادگار مشاعرے سنے ہیں جو بالعموم ہفتے کی رات کو منعقد ہوتے تھے ۔ مشاعرے کا وقت رقعوں اور اشتہارات میں نو بجے لکھا جاتا تھا لیکن اصل مشاعرہ (مہمانان خصوصی کی تقاریر کے بعد) تقریباً دس بجے شروع ہوتا تھا ۔ گیارہ بجے کے بعد مشاعرہ کا رنگ جمتا تھا ۔ منتظمین خود نہیں جانتے تھے کہ مشاعرہ ختم کب ہوگا ۔ کبھی دو بجے شب کبھی ڈھائی تین بجے ۔ کبھی کبھی تو اتنی دیر ہوجاتی کہ یار لوگ راستے میں بعض شب بیدار ہوٹلوں میں نہاری کلچے کھاتے ہوئے جاتے اور گھر پہنچتے ہی لمبی تان کر سوجاتے اور دیر سے اٹھ کر اتوار کی چھٹی کا مزہ لیتے ۔ آج کل نہ ویسے نامی گرامی مہمان شعراء ہیں ،نہ لوگوں کو اتنی فرصت ہے ۔ رات بھر جاگنا قیامت ہے ۔
ویسے تو ہماری عمر ستّر سے تجاوز کرچکی ہے لیکن چونکہ ہمارے گھر میں شعر و شاعری سے سبھی کو لگاؤ تھا اس لئے ہم بہت چھوٹی عمر سے مشاعرہ سنتے یا دیکھتے آئے ہیں ۔ مشاعرے کی اولین یادوں میں ایک یاد آل انڈیا ریڈیو حیدرآباد کے ایک مشاعرے کی ہے ، جو شاید 1949ء میں ہوا ہوگا ۔ اس مشاعرے میں اور شعراء کے علاوہ حضرت جگر مرادآبادی ، بہزاد لکھنوی وغیرہ شریک تھے ۔ جگر نے اپنی غزل ’’فکرِ جمیل خواب پریشاں ہے آج کل‘‘ سنائی تھی ۔ حضرت امجدؔ نے سب سے آخر میں رباعیات سنائی تھیں ۔ ایک رباعی کا آخری مصرع تھا ’’میں ہوں ترے ساتھ توُ مرے ساتھ نہیں‘‘ ۔ 1950ء میں ایک امن کانفرنس ہوئی تھی جس میں مجاز ، علی سردار جعفری ، ملک راج آنند ، ڈاکٹر عبدالعلیم آئے تھے ۔ لیکن چونکہ میں بالکل بچہ تھا اس لئے کوئی ہمیں لے کر نہیں گیا تھا ۔

1954ء کی گرمیوں کی چھٹیوں میں اسٹانلی گرلز اسکول میں ایک مشاعرہ ہوا تھا ، جس میں کئی نامی گرامی شعراء کے علاوہ حضرت جوش ملیح آبادی شریک تھے اور انھوں نے ایک نظم سنائی تھی اُف ری جوانی ہائے زمانے ۔ سنا ہے کہ اس نظم پر اخبارات میں کچھ دنوں تک لے دے بھی ہوئی تھی ۔ ایک بای ہم لکھنا بھول گئے کہ 1951 یا 1952ء میں جوش صاحب 18 سال کی شہر بدری کے بعد پہلی بار حیدرآباد آئے تھے اور یہاں اُن کے اعزاز میں ایک مشاعرہ ہوا تھا جس میں انھوں نے ایک نظم سنائی تھی ’’حیدرآباد اے نگارِ گل بداماں السلام‘‘ اس نظم کا ایک شعر تھا    ؎
کیا بتاؤں اے دکن میں زِشت ہوں یا خوب ہوں
شہر کا محبوب ہوں اور شاہ کا معتوب ہوں
1955ء میں ایک نہایت شاندار مشاعرہ لیڈی حیدری کلب میں ہوا تھا جس کی صدارت شاید صغرا ہمایوں مرزا نے کی تھی  ۔جگر صاحب بھی شریک تھے اور انھوں نے اپنی غزل ’’دنیا کے ستم یاد نہ اپنی ہی وفا یاد‘‘ سنائی تھی ۔ مخدوم کا روپوشی کا دور ختم ہوچکا تھا ۔ سلیمان اریب ، لطیف ساجد ، سعید شہیدی ، شاہد صدیقی  ، قمر ساحری ، کنول پرشاد کنول سینئر شاعر تھے ۔ شاذ تمکنت ، عزیز قیسی ، وحید اختر ، بشر نواز کی شاعری کا ابتدائی زمانہ تھا ۔

1956ء میں ہم آٹھویں جماعت کے طالب علم تھے ۔ ایک مشاعرے کے سلسلے میں جگر صاحب حیدرآباد آئے تھے اور دو تین مہینے تک یہیں مقیم رہے تھے ۔ جب جولائی یا اگست 1956 ء میں ان کی واپسی کے دن قریب آئے تو بعض محبانِ جگر کی خواہش ہوئی کہ ایک مشاعرہ رکھا جائے جس سے ہونے والی آمدنی سے ایک کیسۂ زر جگر صاحب کو پیش کیا جائے ۔ ایک تحریک یہ بھی ہوئی کہ مشاعرہ طرحی ہو ۔ مجروح سلطان پوری ، شکیل بدایونی اور خمار بارہ بنکوی عقیدتاً بلا معاوضہ مشاعرہ میں شریک ہوئے ۔ مشاعرہ نمائش میدان میں رکھا گیا لیکن بارش کے دن تھے اس لئے کسی بند جگہ کا انتخاب کیا گیا جس کی چھت اسبسطاس کی تھی ۔ جلدی میں الکٹریکل وائرنگ کی گئی تھی اس لئے کچھ برقی کے تار نیچے تک لٹک بھی رہے تھے ۔ بعض لوگ بے خیالی میں تاروں کا سہارا لے کر بھی کھڑے تھے ۔ شاہد صدیقی مشاعرے کی نظامت کررہے تھے ۔ انھوں نے مائک پر اعلان کیا ’ہمارے بعض احباب الکٹریکل وائر کا سہارا لے کر کھڑے ہوئے ہیں ۔ ان تاروں میں برقی رو دوڑ رہی ہے ۔ اگر یہ حضرات وہاں سے ہٹ جائیں تو یہ ان کے حق میں بھی بہتر ہوگا اور تار کے حق میں بھی ۔ اس مشاعرے کی ایک خاص بات یہ بھی رہی کہ شکیل بدایونی سب سے زیادہ کامیاب رہے ۔ اس کی وجہ ان کے پڑھنے کا انداز تھا جو ترنم سے زیادہ گانے سے مشابہ تھا ۔
ترنم کی بات چلی ہے تو اس سلسلے میں عرض کرنا یہ ہے کہ ترنم بھی موسیقی ریز ہوتا ہے لیکن گانے کو ترنم نہیں کہتے ۔ ہم کو جن شعراء کے ترنم نے بہت متاثر کیا ہے ان میں جگر مرادآباد ی ،مجروح سلطان پوری ، مخدوم ، خمار بارہ بنکوی ، نشور واحدی ، فنا نظامی کانپوری ، بہزاد لکھنوی ، نظر حیدرآبادی ، شمیم جے پوری ، خاص طور پر قابل ذکر ہیں ۔ سنا ہے کہ منظور حسین  شور اور ماہر القادری بھی بہت اچھا پڑھتے  تھے لیکن ہم کو انھیں سننے کا اتفاق نہیں ہوا ۔ بسا اوقات عمر زیادہ ہوجائے بھی تو آواز میں انحطاط پیدا ہوجاتا ہے  ۔کلیم عاجز بھی ایک زمانہ میں بہت اچھا پڑھتے تھے ۔  بیکل اتساہی آج بھی اچھا پڑھتے ہیں ۔ مخدوم کے ترنم کی خاص بات یہ تھی کہ وہ غزل کے علاوہ نظم بھی بہت دلکش انداز سے پڑھتے تھے ۔ اور کبھی یہ نہیں لگتا تھا کہ وہ مشاعرہ لُوٹنے کے لئے پڑھ رہے ہیں ۔ شاعرات میں زہرہ نگاہ اور بیگم ممتاز مرزا کا ترنم بھی دل نشین تھا ۔ ممتاز مرزا تو اب رہی نہیں ۔ شاید زہرہ نگاہ نے ترنم سے پڑھنا چھوڑ دیا ہے ۔ تحت اللفظ بھی آسان چیز نہیں ۔ کیفی اعظمی اور سردار جعفری بہت اچھا پڑھتے تھے ۔ شاذ تمکنت ، عزیز قیسی اور وحید اختر بھی بہت اچھا پڑھتے تھے ۔ جوش صاحب کا ایک مخصوص انداز تھا لیکن فیض بہت بے دلی سے پڑھتے تھے ۔

بعض مشاعرے اپنے نام کی وجہ سے بھی بہت مشہور ہوئے ۔ جیسے دہلی کلاتھ ملز والوں کا شنکر شاد مشاعرہ ۔ اس کی نوعیت ایک عرصے تک ہندوپاک مشاعرہ کی رہی ۔ شاید 1978ء میں اس مشاعرے کی صدارت اس وقت کے وزیر خارجہ اٹل بہاری واجپائی کررہے تھے ۔ اس مشاعرے میں پاکستان کے ایک شاعر مدعو تھے جن کی والدہ لکھنؤ میں رہتی تھیں ۔ اس شاعر کو صرف دہلی کا ویزا ملا تھا ۔ مشاعرہ میں اسٹیج پر پاکستانی شاعر واجپائی جی کے قریب بیٹھے تھے ۔ انھوں نے موقع پاکر واجپائی جی سے کہا کہ میں ہندوستان آکر بھی والدہ سے نہیں مل سکوں گا کیونکہ مجھے صرف دہلی کا ویزا ملا ہے ۔ واجپائی جی یہ بات سن کر خاموش ہوگئے ۔ جب واجپائی صدارتی تقریر کے لئے کھڑے ہوئے تو پہلے انھوں نے اردو زبان اور مشاعروں کی روایت کے بارے میں کچھ باتیں کہیں پھر یکایک مجمع سے مخاطب ہوئے اور پوچھا ’’دوستو !میں آپ سے ایک سوال کرنا چاہتا ہوں ۔ مجھے بتایئے کہ کیا دنیا میں کوئی ایسی حکومت ہے جو ماں کی ممتا اور بیٹے کی محبت کے درمیان دیوار بن کرکھڑی ہوسکے ۔ ہمارے ایک پاکستانی دوست ہیں جن کی ماتا جی لکھنؤ میں رہتی ہیں اور یہ پاکستانی دوست ان سے ملنا چاہتے ہیں لیکن اُن کا ویزا صرف دہلی تک ہے ۔ میں ان کو یقین دلاتا ہوں کہ وہ لکھنؤ جائیں گے اور اپنی ماں سے ملیں گے‘‘ ۔ آناً فاناً ان کا لکھنؤ کا بندوبست ہوگیا  ۔ مشاعرہ ہماری تہذیب کی علامت ہے ۔ لیکن اس طرح یہ مشاعرہ انسان دوستی کا مظہر بن گیا۔ یہ مشاعرہ کا فیض تھا کہ ایک شاعر کی وزیر خارجہ سے اسٹیج پر بیٹھے بیٹھے بات بھی ہوگئی اور اس کا کام بن گیا ورنہ نہ جانے کتنے پاپڑ بیلنے پڑتے ۔
خود ہمارے شہر میں ادبی ٹرسٹ اور شنکر جی مشاعرے عالمگیر شہرت کے حامل ہیں ۔ ان سے ہونے والی آمدنی سے کئی فلاحی کام ہوئے ، ادیبوں ، شاعروں کی امداد ہوئی ۔ عابد علی خاں صاحب اور محبوب حسین جگر اور ادارہ سیاست نے بھرپور تعاون کیا ۔ ملک اور بیرون ملک کے شاعر جمع ہوئے ۔ میناکماری اور شبانہ اعظمی بھی ان مشاعروں میں شریک ہوچکی ہیں ۔ مسلم ایجوکیشنل کانفرنس کا ایک مشاعرہ 1976 میں ہوا تھا جس میں دلیپ کمار اور سائرہ بانو بھی آئے تھے ۔ اس کی نظامت شاذ تمکنت نے کی تھی ۔ اس مشاعرے میں دلیپ کمار نے اختر الایمان کی ایک نظم پڑھی تھی۔
مشاعرے کی نظامت بھی ایک آرٹ سے کم نہیں ۔ جس طرح شعراء کو آمد ورفت کا خرچ دے کر بلایا جاتا ہے ، اسی طرح ناظم مشاعرہ کو بھی بلایا جانے لگا ۔ زبیر رضوی ، ملک زادہ منظور احمد اور ثقلین حیدر بحیثیت ناظم مشہور ہوئے ۔ دلچسپ باتیں اور نوک جھونک سے بھی مشاعروں میں رنگینی پیدا ہوئی ۔ ہلکی پھلکی ہوٹنگ بھی مشاعروں میں مزہ دے جاتی تھی ۔ ایک بار جوش صاحب کلام سنارہے تھے ۔ کنور مہندر سنگھ بیدی سحر نے کہا ’’کمبخت پٹھان ہو کر بھی کیا اچھے شعر کہتا ہے‘‘ ۔ جوش صاحب نے برجستہ کہا ’’اور یہ کم بخت سردار ہو کر بھی کیا اچھی داد دے رہا ہے‘‘ ۔ اسی طرح ایک صاحب غزل سنارہے تھے جس کی ردیف تھی رات کیا کیا ، بات کیا کیا ۔ انھوں نے مصرعہ پڑھا ’یہ دل ہے یہ جگر ہے یہ کلیجہ‘ مجمع سے آواز آئی ’قصائی دے گیا سوغات کیا کیا‘ ۔ ایک نہایت ضعیف العمر شاعر اپنا کلام سنارہے تھے  ۔ مطلع تھا

نکلنے کو تو دل کی آرزو اے نازنیں نکلی
مگر جیسی نکلنی چاہئے ویسی نہیں نکلی
کسی منچلے نے آواز لگائی ’’حضور! اس میں نازنین کا کوئی قصور نہیں‘‘۔ ایک زمانے میں آکاش وانی لکھنؤ اور دہلی سے بڑے اچھے مشاعرے نشر ہوتے تھے ۔ 1950 یا 1955ء کے آس پاس ایک مشاعرہ ہوا تھا جسے ’’ڈوبتی ہوئی آوازوں کا مشاعرہ‘‘ کا نام دیا گیا تھا ۔ اس کا مقصد یہ تھا کہ بعض بزرگ شعراء کی آواز محفوظ کرلی جائے ۔ اس میں بے خود دہلوی ، نوح ناروی ، قدیر لکھنوی وغیرہ شریک تھے ۔ اس مشاعرے میں نوح ناروی نے جو غزل پڑھی تھی اس کا ایک شعر تھا    ؎
آخر آخر وقتِ آخر رحم اُن کو آگیا
کچھ نہ کچھ پڑھ کر مری جانب وہ دم کرتے رہے
ایک اور مشاعرہ بمبئی میں ہوا تھا جو طرحی تھا ۔ مخدوم نے اپنی پہلی طرحی غزل وہیں پڑھی تھی ۔ اس کے بعد انھوں نے کم و بیش بیس اکیس غزلیں کہیں جو بہت مقبول ہوئیں ۔
آپ ہم سے اتفاق کریں یا نہ کریں آج کل ہمیں مشاعروں میں وہ کیفیت محسوس نہیں ہوتی جو پہلے ہوتی تھی ۔ پھر بھی ہمیں  امید ہے کہ ہمارے جدید شاعر نہ صرف اچھے شعر کہیں گے بلکہ مشاعرے کی روایت کو بھی قائم رکھیں گے ۔