مشاعروں کو کیا ہوگیا ہے؟

میرا کالم مجتبیٰ حسین
اُردو ادب اور اُردو تہذیب کے ایک بہی خواہ قاری ایم ایس خان کا ایک درد بھرا مراسلہ پچھلے دِنوں ’ سیاست‘ میں ہماری نظر سے گزرا ہے جس میں مراسلہ نگار نے کہاہے کہ وہ خاصے طویل عرصے سے حیدرآباد کی ادبی محفلوں اور مشاعروں وغیرہ میں بحیثیت سامع شرکت کرتے آئے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ سامعین ان محفلوں میں اپنی ضروری مصروفیات اور مشاغل کو بالائے طاق رکھتے ہوئے محض اپنے ادبی ذوق کی تسکین اور اپنی پیاری زبان اُردو کی ترقی اور بقاء کی خاطر ٹکٹ خرید کر دوردراز سے ان مشاعروں میں شرکت کرتے ہیں۔ لیکن بعض شعراء سستی شہرت کی خاطر مختلف النوع سامعین کی موجودگی کا لحاظ کیے بغیر انتہائی واہیات ، ناقابلِ سماعت، گھٹیا بلکہ ’ بُلو‘ اشعار سناتے ہیں۔ یہ بات اُردو تہذیب کے سراسر خلاف ہے۔انھوں نے یہ بھی کہا ہے کہ طنزومزاح کے شعرا تو اس معاملے میں اور بھی بے باک اور ڈھیٹ واقع ہوئے ہیں اور طنز و مزاح کی آڑ میں ایسی باتیں کہہ جاتے ہیں جو بیہودہ اور فحش ہوتی ہیں۔

مراسلہ نگار کے اس درد میں ہم بھی برابر کے شریک ہیں اور ہمارے پُرانے قارئین جانتے ہیں کہ اس درد کا اظہار ہم نے جا و بے جا اتنی مرتبہ کیا ہے اور اتنی شدت سے کیا ہے کہ اب تو ہمیں یہ ’دَردِ لادَوا ‘ نظر آنے لگا ہے۔ جب ہمیں یہ احساس ہونے لگا کہ اُردو معاشرہ اس درد کو ہنسی خوشی برداشت کرنے لگا ہے اور کسی کو اس دَرد کی پروا نہیں ہے تو ہم نے بھی خاموشی اختیار کرلی۔ مشاعرہ ہماری تہذیب کی ایک روشن علامت رہا ہے اور ہمارا شمار ان چند خوش نصیبوں میں ہوتا ہے جنھوں نے ایسے مشاعروں میں شرکت کی ہے جو صحیح معنوں میں مشاعرے کہلائے جاتے تھے۔ ہم نے جوشؔ ملیح آبادی، امجدؔ حیدرآبادی، جگرؔ مرادآبادی، فراقؔ گورکھپوری، حفیظؔ جالندھری، فیض احمد فیضؔ، مخدوم محی الدین، ساحرؔ لدھیانوی، مجروحؔ سلطانپوری، جاں نثار اخترؔ، سردارؔ جعفری اور بیسیوں نامی گرامی شعرا کو نہ صرف دیکھا ہے بلکہ انھیں مشاعروں میں باربار سنا بھی ہے۔ بعض مشاہیر شعراء سے تو ہماری راہ ورسم بھی رہی ہے۔ اُردو مشاعروں کو سننے کا ہمارے پاس کم و بیش پچپن سالہ تجربہ موجود ہے۔ ہمیں سخن فہمی کا دعویٰ تو کبھی نہیں رہا۔ یہ الگ بات ہے کہ نوجوانی میں ہم مشاعروں میں ہوٹنگ ، فقرے بازی اور جملے بازی وغیر ہ کی غرض سے جایا کرتے تھے۔ یہ ضرور ہے کہ اس فقرے بازی میں بھی ہم نے آدابِ محفل اور تہذیب وغیرہ کا دامن کبھی اپنے ہاتھوں سے چھوٹنے نہ دیا۔ ان مشاعروں میں بسااوقات ایسے شعر بھی سُننے کو ملتے تھے جنھیں ہم نہ صرف محفلوں میں لوگوں کو سُنایا کرتے تھے بلکہ نہاتے وقت غسل خانے میں بھی پابندی سے گنگنایا کرتے تھے۔ پچھلے مشاعروں کی خوبی یہ ہوتی تھی کہ ان میں شاعر اپنی داد آپ وصول کرلیتا تھا۔ شاعر کو اپنے کلام کی داد وصول کرنے کے لیے نت نئے ڈرامے نہیں کرنے پڑتے تھے۔ ہم یہ کہیں تو بے جا نہ ہوگا کہ ان دنوں بیشتر شعرا اپنے اپنے شعروں پر اس طرح داد وصول کرتے ہیں جیسے بھیک مانگ رہے ہوں۔ شعر سُنانے سے پہلے کہا جاتا ہے کہ اگر آپ نے اس شعر پر داد نہ دی تو میرا دل ٹوٹ جائے گا۔ اللہ کے نام پر اس شعر کو داد سے ضرور نوازیے۔ اللہ آپ کا بھلا کرے گا۔ آپ کے بال بچوں کو اچھا رکھے گا اور دنیا کی ساری نعمتوں سے نوازے گا۔ پچھلے مشاعروں میں داد سامعین کے دلوں سے نکلتی تھی اب چونّی اور اَٹھنّی کی صورت میں جیب سے نکلتی ہوئی محسوس ہوتی ہے۔ اس زمانے کے شاعروں کی ایک اَنا ہوتی تھی بلکہ داد دینے والے بھی نہایت خوددار ہوا کرتے تھے۔ ہم نے پچھلے سامعین کو کسی گھٹیا اور خلاف تہذیب شعر پر داد دیتے ہوئے نہیں دیکھا۔

اصل قصہ یہ ہے کہ اُردو کی زوال آمادگی کے باعث مشاعروں کی روایت بھی ملیا میٹ ہوگئی ہے۔ الیکٹرانک میڈیا کے فروغ کی وجہ سے مشاعرہ اب صرف تفریح کا ایک ذریعہ بن گیا ہے۔ مراسلہ نگار نے لکھا ہے کہ بیشتر شعرا سستی شہرت کی خاطر فحش اور بیہودہ شعر کہنے لگے ہیں۔ آپ تو جانتے ہیں کہ زمانہ مہنگائی کا ہے جس میں انسان کے سوائے ہمیں تو کوئی چیز سستی نظر نہیں آتی۔ جو چیز سستی مل جائے اسے ہر کوئی حاصل کرنا چاہتا ہے۔ چنانچہ شہرت کا بھی یہی معاملہ ہے۔ پچھلے زمانے کے شعرا برسوں مشقِ سخن کرتے تھے تب کہیں جاکر ان پر شہرت کے دروازے وا ہوا کرتے تھے۔ اب ذو معنی الفاظ کے استعمال، اُچھل کود اور بے جا تک بندی کے ذریعے اس چیزکو حاصل کرنے کی کوشش کی جاتی ہے جسے شہرت کہتے ہیں۔ آپ یقین کریں کہ ہمارے ہاں مشاعروں کے بعض مقبول شعرا ایسے بھی ہیں جن کے پاس پانچ دس غزلوں اور چھ سات نظموں کے سوائے کچھ بھی نہیں ہے۔ ایک بار ہم نے ایک مقبول شاعر سے خواہش کی تھی کہ وہ اپنا مجموعہ کلام شائع کرائیں۔ پتہ چلا کہ ان کے کلام کا مجموعہ اتنا قلیل ہے کہ کوئی مجموعہ کلام شائع نہیں کیا جاسکتا۔ اگر یہ شائع بھی کیا جائے تو اس کی ضخامت بیس پچیس صفحات سے آگے نہیں بڑھ پائے گی۔ انھیں یہ ڈر بھی رہتا ہے کہ اگر ان کا مجموعہ کلام شائع ہوجائے تو مشاعرو ں میں اپنا غیر مطبوعہ کلام سنانہیں سکیں گے۔ حالانکہ پچھلے پچیس برسوں سے وہ مشاعروں میں اسی کلام کو باربار سناکر اپنے حالات اور اپنی حالت کو بہتر بناچکے ہیں۔ ہمیں خود ان کا کلام زبانی یاد ہے، یہ اور بات ہے

کہ اب تک وہ اسے غیر مطبوعہ ہی سمجھتے آئے ہیں۔ ظاہر ہے کہ یہ کلام صرف مشاعروں میں سنانے کی غرض سے لکھا گیا ہے۔ اسی لیے ہم نے بہت پہلے شاعروں کی دو قِسمیں مقرر کی تھیں۔ایک قسم مشاعروں کے شاعروں کی اور دوسری قسم شاعری کے شاعروں کی۔ شاعری کے شاعر، جو صحیح معنوں میں شاعر کہلائے جانے کے مستحق ہیں، وہ مشاعروں میں جانے سے گُریز کرتے ہیں اس لیے انھیں کوئی نہیں پوچھتا۔ ان کا قصور صرف اتنا ہے کہ وہ مشاعروں میں کلام سنانے کے کرتبوں سے واقف نہیں ہیں۔ مشاعرہ اب ایک کمرشیل چیز بن گیا ہے۔ پھر جب سے خاتون شعرا سج دھج کر مشاعروں میں شرکت کرنے لگی ہیں تب سے مشاعرے اور مُجرے کا فرق بھی ختم ہوگیا ہے۔ اسی لیے ہم نے آج کے مشاعروں کے لیے ’ مُشجرے ‘ کا نام تجویز کررکھا ہے، جس میں مشاعرے اور مُجرے دونوں کی صفات پائی جاتی ہیں۔ ہمارے امریکی دوست پروفیسر ستیہ پال آنند نے امریکہ میں منعقدہ ایک ’ مُشجرے‘ کا حال بیان کرتے ہوئے لکھا تھا کہ وہاں ایک مشاعرے میں ایک حسین وجمیل شاعرہ نے ناز و ادا کے ساتھ جب اپنا کلام سنانا شروع کیا تو سامعین میں بیٹھے ہوئے ایک ادب دوست نے از راہِ ادب نوازی اس کے پہلے ہی شعر پر شاعرہ کو دس امریکی ڈالر کا کرنسی نوٹ دکھایا۔ اس پر شاعرہ ڈائس سے نیچے تشریف لے آئیں اور بصدِ احترام اس کرنسی نوٹ کو حاصل کرنے کے بعد اس شعر کو دوبارہ سنانا شروع کردیا۔ کیا اس کے بعد بھی آپ کو شک ہے کہ مشاعرہ، مُجرے میں تبدیل نہیں ہوگیا ہے، بلکہ ہمارا تو خیال ہے کہ مُجرے والیاں اتنی بے باک اور شوخ نہیں ہوتیں جتنی کہ آج کی بعض رائج الوقت شاعرات ہوتی ہیں۔ مشاعروں کے مقبول ناظم ملک زادہ منظور احمد نے ہمیں فراقؔ گورکھپوری کے حوالے سے ایک واقعہ سنایا تھا کہ ایک صاحب ایک خوش جمال دوشیزہ کو لے کر فراقؔ گورکھپوری کی خدمت میں حاضر ہوئے

اور ملتجی ہوئے کہ وہ اس دوشیزہ کا کلام سُن لیں تاکہ اس دو شیزہ کو شاعرہ بنانے کے امکان پر غور کیا جاسکے۔ فراقؔ گورکھپوری نے بڑی توجہ کے ساتھ شاعر ہ کا کلام سنا۔ پھر بڑی سنجیدگی سے کہا : ’’ماشاللہ اس دوشیزہ نے بہت اچھی شکل پائی ہے، ترنم بھی بہت اچھا ہے ، جس کسی نے اسے غزل لکھ کر دی ہے وہ بھی بہت اچھی ہے۔ اگر یہ اپنے اخلاق کو تھوڑا سا خراب کرلے تو ہندوستان بھر کے مشاعروں میں اس کی مقبولیت کے ڈنکے بجنے لگیں گے۔‘‘ فراقؔ گورکھپوری نے جب یہ بات کہی تھی تو اُس وقت مشاعرے برِصغیر ہند و پاک میں ہی ہوا کرتے تھے۔ اب تو خلیجی ممالک کے علاوہ امریکہ، برطانیہ اور دیگر ممالک میں بھی آئے دن مشاعرے ہونے لگے ہیں اور اس طرح کی شاعرات کو بین الاقوامی شہرت حاصل ہونے لگی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ پچھلے آٹھ دس برسوں سے ہم نے مشاعروں میں جانا کم کردیا ہے۔ کبھی کبھار غلطی سے کسی مشاعرے میں چلے جاتے ہیں تو ایک عرصے تک کوفت میں مبتلا رہتے ہیں کہ ہم بھی کہاں چلے گئے تھے۔ ان دنوں بعض سیاسی اور سماجی موضوعات کو لے کر جس طرح کی عامیانہ اور سوقیانہ شاعری کی جانے لگی ہے اسے سُن کر اُبکائیاں سی آنے لگتی ہیں۔ ہندی کے کوی سَمیلنوں میں تو اس طرح کی شاعری اب معمول بن گئی ہے۔اُردو مشاعروں میں بھی اب اس طرح کی سوقیانہ شاعری کا چلن عام ہونے لگا ہے۔ مشاعروں کے گرتے ہوئے معیار کے بارے میں ہم نے اتنا کچھ لکھا ہے کہ اب مزید کچھ لکھنے کو جی نہیں چاہتا۔ ہماری بس اتنی سی گزارش ہے کہ اُردو زبان و ادب کی روایتی شائستگی اور اُردو کلچر کے اقدار کا پاس و لحاظ رکھا جائے۔ شاعری، محبت اور رواداری کا درس دیتی ہے۔ اُردو شاعری نے کبھی نفرت، کدورت، تنگ نظری وار فرقہ پرستی کو عام کرنے کی روش نہیں اپنائی۔ جگرؔ مرادآبادی بہت پہلے کہہ چکے ہیں:
ان کا جو فرض ہے وہ اہلِ سیاست جانیں
میرا پیغام محبت ہے جہاں تک پہنچے
( ایک پُرانی تحریر )