مسیح انجممسیح انجم

میرا کالم مجتبیٰ حسین

پچھلے اتوار کو صبح صبح حیدرآباد سے میرے دوست محمد تقی کا فون آیا، بولے۔ ’’آپ کو ایک بُری خبر سنانی ہے۔‘‘ میں نے کہا۔ ’’ بُری خبر ہے تو شوق سے سناؤ ۔ اس میں پوچھنے کی کیا بات ہے۔ بُری خبریں تو میں بہت شوق سے سنتا ہوں بلکہ کبھی غلطی سے کوئی اچھی خبر سن لیتا ہوں تو سکتہ سا طاری ہوجاتا ہے اور آنکھوں کے آگے اندھیرا چھا جاتا ہے۔‘‘ محمد تقی نے رُکتے رُکتے کہا ۔ ’’ مسیح انجم اب اس دنیا میں نہیں رہے۔‘‘ اس خبر کو سن کر احساس ہوا کہ بُری خبریں سننے کی لاکھ پریکٹس سہی لیکن اب بھی بعض خبریں ایسی ہیں جنہیں سن کر سکتہ سا طاری ہوجاتا ہے۔چار ہفتے پہلے حمایت اللہ سے میری فون پر بات ہوئی تھی تو انھوں نے اور باتوں کے علاوہ مسیح انجم کی صحت کی خرابی کی اطلاع بھی دی تھی اور اتفاق دیکھیئے کہ دو چار دن بعد مختصر قیام کے لئے مجھے حیدرآباد جانا پڑگیا۔ دوستوں سے مسیح انجم کے بارے میں پوچھا تو پتہ چلا کہ اب بہتر ہیں البتہ یادداشت کچھ متاثر ہوگئی ہے۔ میں مسیح انجم کے گھر اپنے دوست محمودالحسن خاں صوفی کے ساتھ ہی جایا کرتا تھا۔ جب سے وہ ونستھلی پورم میں رہنے لگے تھے میں اپنے طور پر ان کے گھر جانے کا اہل نہیں رہ گیا تھا کیونکہ وہاں سارے مکان ایک ہی جیسے بنے ہوئے ہیں۔ ہر مکان پر مسیح انجم کے مکان کا گمان ہوتا تھا۔ دو اتوار پہلے جب کہ دوسرے دن مجھے دہلی واپس آنا تھا میں نے صوفیؔ سے کہہ رکھا تھا کہ وہ شام میں آجائیں تو مسیح انجم کی عیادت کو چلتے ہیں۔ لیکن میں اپنے کاموں میں کچھ ایسا اُلجھ گیا کہ باوجود ارادہ کے مسیح کی طرف نہیںجاسکا۔ سوچا مہینہ بھر بعد جب حیدرآباد کا پھر چکر لگے گا تب مسیح سے مل لیں گے۔ مجھے کیا پتہ تھا کہ مسیح انجم کو اس دنیا سے جانے کی اتنی جلدی ہے۔ جلد باز تو وہ کبھی بھی نہیں رہے، ہم جیسے دوستوں کے بیچ وہ اپنا وقت یونہی ضائع کردیتے تھے۔
مسیح انجم سے پورے تیس برس پرانے تعلقات تھے۔1968ء میں جب میں محکمہ اطلاعات و تعلقات عامہ میں کام کرتا تھا تو اُن سے میری پہلی ملاقات ہوئی تھی ۔ وہ مجھ سے ملنے کے لئے بطور خاص دفتر آئے تھے۔ اُس وقت تک میری مزاح نگاری پر سے چھ برس بیت چکے تھے اور دو سال پہلے مزاح نگاروں کی پہلی کُل ہند کانفرنس بھی حیدرآباد میں منعقد ہوچکی تھی۔ یوں حیدرآباد کے مزاح اور حیدرآباد کے مزاح نگاروں کے چرچے سارے ملک میں ہونے لگے تھے۔ 1968کے اوائل میں مسیح انجم کے دو تین مزاحیہ مضامن ’’ ملاپ‘‘ اور ’’ رہنمائے دکن‘‘ میں میری نظر سے گزر چکے تھے۔ غرض 60ء کی دہائی میں حیدرآباد میں مزاح نگاروں کی جو فصل تیار ہوئی تھی مسیح انجم بھی اس کا ایک ثمرہ تھے۔ مسیح انجم سے ملاقات ہوئی تو یوں لگا جیسے اُن سے برسوں پرانی ملاقات ہے۔ ایک زمانہ میں اُن کا زیادہ تر وقت میرے ساتھ ہی گزرتا تھا۔ یوں بھی ہم دونوں کے مکان پاس پاس ہی تھے۔ مسیح انجم کو مجھ سے جو گہرا تعلق خاطر تھا اس کے بارے میں مصطفی کمال نے ایک بار کہا تھا۔ ’’مسیح انجم اپنی بیوی کو چھوڑ سکتے ہیں لیکن مجتبیٰ حسین سے اپنی دوستی نہیں چھوڑ سکتے۔‘‘ وہ ایک مخلص، سادہ لوح، شریف، بے ریا، بے غرض، بے لوث اور معصوم انسان تھے۔ میں اس بات کو مانتا ہوں کہ ایک اچھا اور سچا مزاح نگار بنیادی طور پر شریف، بے ریا اور مخلص انسان ہی ہوتا ہے۔ میں نے کنہیا لال کپور اور فکرتونسوی جیسے طنز نگاروں کو بھی دیکھا کہ عملی زندگی میں وہ نہایت سادہ لوح، معصوم اور شریف انسان تھے لیکن مزاح نگار کے شریف ہونے کا مطلب یہ نہیں کہ اسے دوسروں کی بدمعاشیوں کا علم ہی نہ ہو بلکہ میرا ذاتی خیال یہ ہے کہ مزاح نگار شریف بنتا ہی اس لئے ہے کہ اُسے دوسروں کی بداعمالیوں اور بدمعاشیوں کا پوری طرح ادراک ہوتا ہے ۔ وہ ایک ایسا باظرف انسان ہوتا ہے جو دوسروں کی کم ظرفیوں کو اچھی طرح جانتا ہے۔ وہ خود تو کمینہ نہیں ہوتا لیکن دوسروں کی کمینگیوں کا اُسے پوری طرح اندازہ ہوتا ہے۔ مگر ہمارے مسیح انجم ایک ایسے شریف، مخلص اور بے ریا انسان تھے۔ ہرکس و ناکس کو بھی اپنی ہی طرح شریف، مخلص اور بے لوث انسان سمجھتے تھے۔ اُن کی مزاح نگاری کا خمیر بھی اسی احساس اُٹھا تھا اور اُس کی جھلک اُن کے مزاحیہ مضامین میں صاف نظر آتی ہے۔ ادبی حلقوں میں اُن کی مزاح نگاری کی خاصی پذیرائی بھی ہوئی اور وہ زندہ دلان حیدرآباد کے ادبی اجلاسوں کے مقبول مزاح نگار بن گئے۔ ان کا مزاح خالصتاً حیدرآبادی مزاح تھا۔ پیشہ کے اعتبار سے چونکہ وہ تلگو کے استاد تھے اس لئے تلگو لہجہ کی جھلک بھی ان کے مضامین میں دکھائی دیتی ہے۔ موضوعات کے انتخاب کے معاملہ میں بھی ان کا یہی رویہ تھا۔ وہ دوستوں کے دوست تھے اور دوستوں کے لئے چپ چاپ سب کچھ کرگزرجانے کے لئے تیار رہتے تھے۔ حیدرآباد سے میری جتنی بھی کتابیں شائع ہوئیں ان کی طباعت و اشاعت میں مسیح انجم نے بھرپور حصہ ادا کیا بلکہ یہ کہوں تو بے جا نہ ہوگا کہ اگر وہ حیدرآباد میں نہ ہوتے تو شاید میری یہ کتابیں وہاں سے شائع نہ ہوتیں۔ وہ ایک بے غرض انسان تھے۔ کبھی کسی صلہ کی تمنا نہ رکھی، آٹھ دس برس پہلے وہ شہر سے خاصی دور ونستھلی پورم کے علاقہ میں اپنے ذاتی مکان میں منتقل ہوگئے تھے۔ اس کے بعد سے وہ شہر کی زندگی سے کچھ کٹ سے گئے تھے اور شدید احساس تنہائی میں بھی مبتلا ہوگئے تھے جس کا وہ اظہار نہیں کرتے تھے۔ میں جب حیدرآباد جاتا تو ان سے ملنے کیلئے راتوں میں خاص طور پر چاندنی راتوں میں ونستھلی پورم ضرور جایا کرتا تھا۔ انھیں اندازہ تھا کہ چاند اور چاندنی راتیں میری کمزوری ہیں۔ مذاق میں کہتے تھے۔ ’’ آپ تو چاندنی سے لطف اندوز ہونے کے لئے شہر سے باہر نکلتے ہیں ورنہ مجھ سے ملنے آپ اتنی دور کیوں آتے‘‘۔ ہر دم خاطر مدارات کے لئے تیار رہتے تھے۔ وہ ایک سچے مدرس بھی تھے۔ اپنے طلباء کو جن باتوں پر عمل کرنے کی تلقین کرتے تھے ان پر خود بھی عمل کرتے تھے حالانکہ آج کے استاد اپنے اپنے طلباء کو جو باتیں سکھاتے ہیں ان پر خود عمل کرنے کو ضروری نہیں سمجھتے۔ مجھے اس وقت ایک بات یاد آگئی۔ میرا ایک محبوب مشغلہ یہ ہے کہ میں تفریحِ طبع کے طور پر آواز بدل کر فون پر بے تکلف دوستوں سے مذاق کرلیتا ہوں۔ کچھ دوستوں کو اس کا اندازہ اور تجربہ بھی ہے۔ سات آٹھ برس پہلے ایک بار حیدرآباد جانا ہوا تو میں نے لڑکی کی آواز اختیار کرکے ’’ شگوفہ ‘‘ کے دفتر پر فون کیا۔ فون کا ریسیور مسیح انجم نے اُٹھایا تو میں نے پوچھا ’’ کیا مصطفی کمال ہیں؟‘‘ مسیح انجم نے کہا ۔ ’’ جی وہ نہیں ہیں، کچھ دیر میں آجائیں گے۔ آپ کون بول رہی ہیں؟ کوئی پیغام ہو تو بتائیں۔‘‘
میں نے اپنی آواز کو مزید نسوانی بناکر کہا ’’ میں رخسانہ بول رہی ہوں بنجارہ ہلز سے ، بی اے کے آخری سال میں پڑھتی ہوں۔ یہ تو بتایئے کہ آپ کون بول رہے ہیں؟ ‘‘ مسیح انجم نے کہا ۔ ’’ میں مسیح انجم بول رہا ہوں‘‘۔میں نے اپنی مصنوعی نسوانی آواز میں ایک والہانہ پن پیدا کرتے ہوئے کہا ۔ ’’ہائے اللہ ! کیا آپ سچ مچ مسیح انجم ہیں؟۔ میں کتنی خوش قسمت ہوں کہ آج میری بات اپنے محبوب مزاح نگار سے ہورہی ہے۔ میں تو آپ کی تحریروں کی دیوانی ہوں۔ نہ جانے کب سے مصطفی کمال صاحب سے کہہ رہی ہوں کہ وہ مجھے آپ سے ملائیں لیکن وہ ہر بار میری درخواست کو ٹال جاتے ہیں۔ کسی نے سچ کہا ہے دو دلوں کو یہ دنیا ملنے ہی نہیں دیتی۔ میںکتنی خوش قسمت ہوں کہ آج آپ سے راست بات ہوگئی۔ یہ بتایئے آپ سے ملاقات کب ہوسکتی ہے؟‘‘ مسیح انجم نے نہایت روکھے اور تلخ لہجے میں کہا ۔ ’’ آپ مجھ سے مل کر کیا کریں گی؟ ‘‘ فرضی رخسانہ نے کہا ’’ میں آپ کا وہ ہاتھ چومنا چاہتی ہوں جس سے آپ مزاحیہ مضامین لکھتے ہیں۔بائی دی وے! آپ سیدھے ہاتھ سے لکھتے ہیں یا بائیں ہاتھ سے تاکہ ہاتھ کو چومنے میں مجھ سے غلطی نہ ہو۔‘‘ مسیح انجم نے نہایت غصہ سے کہا ۔ ’’ آپ کو ایک نامحرم سے اس طرح کی بات کرتے ہوئے شرم آنی چاہیئے‘‘۔ فرضی رخسانہ نے کہا ۔ ’’ آپ کو غلط فہمی ہوئی ہے میں آپ کو اپنا پسندیدہ رائٹر سمجھتی ہوں۔ اس کے سوائے کچھ بھی نہیں۔ آپ تو ابتدا میں ہی محرم اور نا محرم پر اُتر آئے۔ پلیز میری بات کو سمجھنے کی کوشش کیجئے۔‘‘ مسیح انجم نے کہا ۔ ’’ تمہارا پتہ کیا ہے اور یہ بتاؤ کہ تمہارے والد کیا کرتے ہیں؟‘‘
فرضی رخسانہ بولی ۔ ’’ میرے والد کا پتہ جان کر آپ کیا کریں گے؟ کیا آپ بارات لے کر میرے گھر پر آئیں گے‘‘؟ مسیح نے مجھ سے کہا ۔ ’’ میں ان سے کہوں گا کہ وہ تمہارے چال چلن پر نظر رکھیں۔ کیا تمہارے کالج میں ایسی ہی تربیت دی جاتی ہے۔ تم جیسی لڑکیوں کی وجہ سے ہی معاشرہ زوال کی طرف جارہا ہے۔‘‘ غرض مسیح انجم بڑی دیر تک ایک اچھے استاد کی طرح فون پر نئی نسل کی لڑکیوں کے اخلاق پر تبصرہ کرتے رہے۔ جب وہ اچھی طرح اپنے غصہ کا اظہار کرچکے اور مجھے اندازہ ہوگیا کہ میرا مذاق آگے نہیں بڑھ سکے گا تو میں نے اپنے نسوانی لہجہ میں دکھ اور درد کے لہجہ کو شامل کرتے ہوئے کہا ، ’’ تو کیا میں یہ سمجھوں کہ میں کبھی اپنے محبوب ادیب کے ہاتھ نہیں چوم سکوں گی‘‘۔ اس پر مسیح انجم کے غصہ کا پارہ اچانک چڑھ گیا ، بولے۔ ’’ گستاخ لڑکی ، یاد رکھ تیرا انجام انتہائی بُرا ہوگا۔ بیہودہ لڑکی، راہ راست پر آجا ورنہ بعد میں بہت پچھتائے گی۔‘‘ یہ کہہ کر مسیح انجم نے فون کا ریسیور رکھ دیا۔ اس وقت ان کے اندر بیٹھا ہوا اُستاد اُن کے مزاح نگار پر غالب آگیا تھا۔ اب جب کہ مسیح انجم کو یاد کرنے بیٹھا ہوں تو مجھے اپنی جھولی میں کتنے ہی پچھتاوے نظر آنے لگے ہیں۔ مسیح انجم جیسے سادہ دل اور مخلص دوست کا اُٹھ جانا میرے لئے ایک نقصان عظیم ہے۔ اُردو مزاح نگاری کا جو نقصان ہوا ہے اس کے بارے میں تو خود مزاح نگاری جانے، میں تو اپنے اس دوست کو  رو رہا ہوں جس سے اب پھر کبھی حیدرآباد میں ملاقات نہ ہوگی۔( روز نامہ سیاست۔ ۷؍ جون ۱۹۹۸ ء )